ٹیگ کے محفوظات: رکی

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی
نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے
ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟
ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے
تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
ہمارا علم تو مرہُونِ لوحِ دل ہے میاں
کتابِ عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے
بناؤ سائے، حرارت بدن میں جذب کرو
کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے
نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی
تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے
عرفان ستار

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں
یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں
عرفان ستار

جینے کا اپنے پاس بہانہ یہی تو ہے

کیا زندگی ہے اپنی مگر زندگی تو ہے
جینے کا اپنے پاس بہانہ یہی تو ہے
ہم بھی سکوں سے سوئیں گے آئے گی وہ بھی رات
بھر جائے گا کبھی نہ کبھی زخم ہی تو ہے
ہے جس کا انتظار وہ ممکن ہے آ ہی جائے
تھوڑی سی دیر کے لیے بارش رُکی تو ہے
باصرِؔ کہاں سے لائیں اب اُس کو ترے لیے
یہ بات ہی بہت ہے کہ محفل جمی تو ہے
باصر کاظمی

توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 87
بارش میں عہد توڑ کے گر مئے کشی ہوئی
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی
پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی
اچھا تو دونوں وقت ملے کو سئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی
اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی
دیکھو چراغِ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شامِ ہجر مجھے پوچھتی ہوئی
قاصد انھیں کو جا کہ دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے، ان سے کوئی بات بھی ہوئی
جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردشِ دوراں رکی ہوئی
مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمر
کیسے وہ آسکیں گے اگر چاندنی ہوئی
قمر جلالوی

کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 485
کھڑکیوں کے شیشوں سے دیکھتی سڑک پر تھی
کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی
قمقموں کی آنکھیں تھیں جھلملاتی کاروں میں
قہقہے تھے پیڑوں پر اک ہنسی سڑک پر تھی
سائرن بجاتی تھیں گاڑیاں قطاروں میں
فائروں کی گونجیں تھیں سنسنی سڑک پر تھی
آتے جاتے لوگوں پر موسمِ بہارا ں تھا
منتظر پرندوں کی ،ٹاہلی سڑک پر تھی
روڈ پر سپاہی بھی پھینکتے تھے آنسو گیس
احتجاجی ریلی بھی ناچتی سڑک پر تھی
سرخ سے اشارے پر چیختے سلنسر تھے
اور دھواں کے پہلو میں دھول بھی سڑک پر تھی
ہیرہ منڈی جانا تھا کچھ عرب سفیروں نے
کس قدر ٹریفک اُس اک رکی سڑک پر تھی
جمع ایک دنیا تھی دیکھتی تھی کیا منصور
ایک چھوٹی سی بچی گر پڑی سڑک پر تھی
منصور آفاق