ٹیگ کے محفوظات: رکھی

وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 184
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
ترا خیال تو ہے پر ترا وجود نہیں
ترے لئے تو یہ محفل سجائی تھی میں نے
ترے عدم کو گوارا نہ تھا وجود مرا
سو اپنی بیخ کنی میں کمی نہ کی میں نے
ہیں تیری ذات سے منسوب صد فسانہ ءِ عشق
اور ایک سطر بھی اب تک نہیں لکھی میں نے
خود اپنے عشوہ و انداز کا شہید ہوں میں
خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے
مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار
تمام عمر حلیفوں سے جنگ کی میں نے
خراشِ نغمہ سے سینہ چھلا ہوا میرا
فغاں کہ ترک نہ کی نغمہ پروری میں نے
دوا سے فائدہ مقصود تھا ہی کب کہ فقط
دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے
زبانہ زن تھا جگر سوز تشنگی کا عذاب
سو جوفِ سینہ میں دوزخ انڈیل لی میں نے
سرورِ مے پہ بھی غالب رہا شعور مرا
کہ ہر رعایتِ غم ذہن میں رکھی میں نے
غمِ شعور کوئی دم تو مجھ کو مہلت دے
تمام عمر جلایا ہے اپنا جی میں نے
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
رہا میں شاہدِ تنہا نشینِ مسندِ غم
اور اپنے کربِ انا سے غرض رکھی میں نے
جون ایلیا

اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ

دیوان دوم غزل 847
کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ
اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ
گلشن بھرا ہے لالہ و گل سے اگرچہ سب
پر اس بغیر اپنے تو بھائیں لگی ہے آگ
پائوں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہ عشق میں گویا دبی ہے آگ
جل جل کے سب عمارت دل خاک ہو گئی
کیسے نگر کو آہ محبت نے دی ہے آگ
اب گرم و سرد دہر سے یکساں نہیں ہے حال
پانی ہے دل ہمارا کبھی تو کبھی ہے آگ
کیونکر نہ طبع آتشیں اس کی ہمیں جلائے
ہم مشت خس کا حکم رکھیں وہ پری ہے آگ
کب لگ سکے ہے عشق جہاں سوز کو ہوس
ماہی کی زیست آب سمندر کا جی ہے آگ
روز ازل سے آتے ہیں ہوتے جگر کباب
کیا آج کل سے عشق کی یارو جلی ہے آگ
انگارے سے نہ گرتے تھے آگے جگر کے لخت
جب تب ہماری گود میں اب تو بھری ہے آگ
یارب ہمیشہ جلتی ہی رہتی ہیں چھاتیاں
یہ کیسی عاشقوں کے دلوں میں رکھی ہے آگ
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
میر تقی میر