ٹیگ کے محفوظات: رونا

ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا

دیوان اول غزل 160
نظر میں آوے گا جب جی کا کھونا
ملے گا نیند بھر تب مجھ کو سونا
تماشے دیکھتے ہنستا چلا آ
کرے ہے شیشہ بازی میرا رونا
مرا خوں تجھ پہ ثابت ہی کرے گا
کنارے بیٹھ کر ہاتھوں کو دھونا
وصیت میر نے مجھ کو یہی کی
کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا
میر تقی میر

پھر کسی نے سونا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 596
خالی پھر بچھونا ہے
پھر کسی نے سونا ہے
سربلند لوگوں کا
بادشاہ بونا ہے
پوری کیسے ہو تعبیر
خواب آدھا’ پونا‘ ہے
دوسروں کے ماتم پر
اپنا اپنا رونا ہے
اجنبی ہے دنیا سی
کون مجھ سا ہونا ہے
انتظارِ جاری نے
کیا کسی کو کھونا ہے
آنسوئوں کی بارش سے
قیقہوں کو دھونا ہے
وقت ایک بچہ سا
آدمی کھلونا ہے
زخم زخم دامن کا
چاک کیا پرونا ہے
میں ہوں اور تنہائی
گھر کا ایک کونا ہے
چائے کی پیالی میں
آسماں ڈبونا ہے
کائنات سے باہر
کیا کسی نے ہونا ہے
عرش کا گریباں بھی
آگ میں بھگونا ہے
موت کو بھی آخر کار
قبر میں سمونا ہے
آبلوں کے دریا کو
دشت بھر چبھونا ہے
تیرے دل میں میرا غم
پھر مجھے کہونا، ہے
حسن دھوپ میں منصور
سانولا سلونا ہے
منصور آفاق

میں فائل بند کرنا چاہتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 281
زمانے سے بچھڑنا چاہتا ہوں
میں فائل بند کرنا چاہتا ہوں
مقام صفر سے ملنے کی خاطر
کسی ٹاور سے گرنا چاہتا ہوں
لہومیں کالے کتے بھونکتے ہیں
کسی کے ساتھ سونا چاہتا ہوں
یہ کیوں پستی سے کرتا ہے محبت
میں پانی کو سمجھنا چاہتا ہوں
کبھی وحشی مسائل سے نکل کر
تجھے کچھ دیر رونا چاہتا ہوں
ذرا اونچی کرو آواز اس کی
ہوا کی بات سننا چاہتا ہوں
میں ہلکی ہلکی نیلی روشنی میں
بدن کا بورڈ پڑھنا چاہتا ہوں
پڑا ہوں بند اپنی ڈائری میں
کہیں پہ میں بھی کھلنا چاہتا ہوں
ازل سے پاؤں میں ہے ریل گاڑی
کہیں منصور رکنا چاہتا ہوں
منصور آفاق

تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 146
غم دل کیا، غم دنیا بھی نہیں
تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں
زندگی حد نظر تک چپ ہے
نغمہ کیسا کوئی نالہ بھی نہیں
سرسری ربط کی امید ہی کیا
اس پہ یہ ظلم کہ ایسا بھی نہیں
بات لب پر بھی نہیں آ سکتی
اور تجھ سے کوئی پردا بھی نہیں
چپ رہیں ہم تو گلے ہوتے ہیں
کچھ کہیں تو کوئی سنتا بھی نہیں
ابھی کر دیں تجھے دنیا کے سپرد
ابھی جی بھر کے تو دیکھا بھی نہیں
کبھی ہر موج قدم لیتی ہے
کبھی تنکے کا سہارا بھی نہیں
انتہائے غم دنیا معلوم
اب نظر محو تماشا بھی نہیں
گرد راہوں پہ جمی ہے باقیؔ
کیسی منزل کوئی چلتا بھی نہیں
باقی صدیقی

ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 92
غم بنا دے نہ تماشا ہم کو
ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو
ہم ابھی تک ہیں وہیں راہ نشیں
جس جگہ آپ نے چھوڑا ہم کو
اک صدا تک تھی عنایت ساری
پھر کسی نے بھی نہ پوچھا ہم کو
آج دیکھا ہے نیا رنگ ان کا
دو گھڑی چھوڑ دو تنہا ہم کو
زندگی لے گئی طوفانوں میں
دے کے تنکے کا سہارا ہم کو
تیری محفل کے چراغوں کے تلے
کچھ نشاں ملتا ہے اپنا ہم کو
ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر
جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو
بات ہو، شعر ہو، افسانہ ہو
ہے بہت کچھ ابھی کہنا ہم کو
کوئی روزن ہو کہ دروازہ ہو
چاہئے ایک شرارا ہم کو
فصل گل آئی مگر کیا آئی
رنگ بھولا نہ خزاں کا ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتہ ہم کو
باقی صدیقی