ٹیگ کے محفوظات: روانی

رائیگانی! رائیگانی اور ہے

زندگانی! زندگانی اور ہے
رائیگانی! رائیگانی اور ہے
خوش گماں! اے خوش گماں! اے خوش گماں!
بول!! کتنی خوش گمانی اور ہے؟
ایک ہی پل اور تیرا ساتھ ہے
ایک ہی پل جاودانی اور ہے
ناگہاں یہ زندگی ہی کم تھی کیا؟
مرگ بھی کیا ناگہانی اور ہے؟
جس کو اپنی منزلوں کی ہو خبر
ایسے دریا کی روانی اور ہے
شاعری میری فقط ہذیاں سہی
کب کہا میں نے کہ معنی اور ہے؟
ہیں سخن ور اور بھی یاؔور مگر
تیری یہ شعلہ بیانی اور ہے
یاور ماجد

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی
یہاں اِک شہر تھا شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی
میں وہ دل ہوں دبستانِ اَلم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی
تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لامکانی
خیالوں ہی میں اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اِک دنیا سہانی
ہجومِ نشہِ فکرِ سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی
بتا اے ظلمتِ صحرائے اِمکاں
کہاں ہو گا مرے خوابوں کا ثانی
اندھیری شام کے پردوں میں چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
کرن پریاں اُترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی
پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جاتے ہیں اوراقِ خزانی
نئی دُنیا کے ہنگاموں میں ناصر
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
ناصر کاظمی

نظر کیونکر نہ رکھیں اُس پہ جو رت بھی سہانی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
ہمیں کاہے کو ہر پل پت جھڑوں سے بدگمانی ہے
نظر کیونکر نہ رکھیں اُس پہ جو رت بھی سہانی ہے
تعفّن آشنا ٹھہرے نہ ہو نابُود نظروں سے
وہ پانی خاک پر جس کو بہم پیہم روانی ہے
سحر کا دوپہر کا اور زوالِ شام کا منظر
تری ہو یا مری سب کی بس ایسی ہی کہانی ہے
حضور اپنے جو ہم جنسوں سے نت سجدے کراتا ہے
زمینی مت کہو اُس کو وہ حضرت آسمانی ہے
کسی کے جھوٹ کو تم جھوٹ ثابت کرکے دیکھو تو
سنو پھر اس سے کیا کیا پاس اُس کے گلفشانی ہے
وہ کنجشک و کبوتر ہو کہ ماجِد فاختہ اُس کے
پر و بازو میں لرزہ امن خواہی کی نشانی ہے
ماجد صدیقی

اور مقیّد ہو کے نہروں کی روانی ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
ابر بردوشِ ہوا رہ کر بھی پانی ہو گیا
اور مقیّد ہو کے نہروں کی روانی ہو گیا
لطفِ باراں سے، شگفتِ گُل سے جو منسوب تھا
ہاں وہی مضموں ادا میری زبانی ہو گیا
وہ کہ کہلاتا رہا تھا لالۂ صحرا کبھی
رنگ و خوشبو کی کشش سے میرا جانی ہو گیا
اُس نے اہلِ خاک سے پھر رابطہ رکھا نہیں
جس کو کچھ رفعت ملی وہ آسمانی ہو گیا
خواب میں اکثر لگا ایسا کہ صبح جاگتے
میں بھی اوروں کی طرح قصّہ کہانی ہو گیا
کھو کے سارے رنگ گردآلود، زنگ آلود سا
دل بھی ہے گزرے زمانوں کی نشانی ہو گیا
ہاں وہی ماجِد کہ تھا صورت گرِ جذبات جو
مانتے ہیں سب کہ ہے بہزاد و مانی ہو گیا
ماجد صدیقی

ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
منظر کی تزئین میں ’مانی‘ جیسا ہے
ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے
آنکھ میں اُس کے لبوں کا وداعی سنّاٹا
ہاتھ میں مُندری کی سی نشانی جیسا ہے
رہبروں کے غبارے پھٹنے پر اپنا
عالم بّچوں کی حیرانی جیسا ہے
جس کی قبر کو ڈھانپنے تاج محل اُبھرے
وہ بے مثل ہے کون اُس رانی جیسا ہے
ہونٹ سِلے ہیں گویا بل بل ماتھے کا
تن میں ابلتا خوں طغیانی جیسا ہے
قّصہ اپنے ہاں کے سبھی منصوبوں کا
طوطے اور مَینا کی کہانی جیسا ہے
اُس چنچل کا قرب ہمیشہ کب حاصل
پل دو پل کا ساتھ جوانی جیسا ہے
اِس قطرے میں جانے الاؤ کیا کیا ہیں
آنکھ میں آنسو یوں تو پانی جیسا ہے
ماجدؔ تیرا فکر امینِ توانائی
اور سخن دریا کی روانی جیسا ہے
ماجد صدیقی

شعر کیا کہوں کہ طبیعت میں روانی کم ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 146
دل سُلگتا ہے مگر سوختہ جانی کم ہے
شعر کیا کہوں کہ طبیعت میں روانی کم ہے
زیست اک آدھ محبت سے بسر ہو کیسے؟
رات لمبی ہو تو پھر ایک کہانی کم ہے
تجھ سے کہنا تو نہیں چاہیے پر کہتے ہیں
ہم نے بھی دولتِ جاں اب کے لٹانی کم ہے
دل کو کیا روئیں کہ جب سوکھ گئی ہوں آنکھیں
شہر ویراں ہے کہ دریاؤں میں پانی کم ہے
ہم نے اندوہ زمانہ سے نہ خم کھایا ہے
شاید اب یوں ہے کہ آشوبِ جوانی کم ہے
جس طرح سانحے گزرے ہیں تیری جاں پہ فراز
اس کو دیکھیں تو یہ آشفتہ بیانی کم ہے
احمد فراز

یار لوگوں کی زبانی اور ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 144
ہم سنائیں تو کہانی اور ہے
یار لوگوں کی زبانی اور ہے
چارہ گر روتے ہیں تازہ زخم کو
دل کی بیماری پرانی اور ہے
جو کہا ہم نے وہ مضمون اور تھا
ترجماں کی ترجمانی اور ہے
ہے بساطِ دل لہو کی اک بوند
چشمِ پر خوں کی روانی اور ہے
نامہ بر کو کچھ بھی ہم پیغام دیں
داستاں اس نے سنانی اور ہے
آبِ زمزم دوست لائے ہیں عبث
ہم جو پیتے ہیں‌ وہ پانی اور ہے
سب قیامت قامتوں کو دیکھ لو
کیا مرے جاناں کا ثانی اور ہے
شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تری سادہ بیانی اور ہے
احمد فراز

جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو

احمد فراز ۔ غزل نمبر 51
اس دورِ بے جنوں کی کہانی کوئی لکھو
جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو
کوئی کہو کہ ہاتھ قلم کس طرح ہوئے
کیوں رک گئی قلم کی روانی کوئی لکھو
کیوں اہلِ شوق سر بگریباں ہیں دوستو
کیوں خوں بہ دل ہے عہدِ جوانی کوئی لکھو
کیوں سرمہ در گلو ہے ہر اک طائرِ سخن
کیوں گلستاں قفس کا ہے ثانی، کوئی لکھو
ہاں تازہ سانحوں کا کرے کون انتظار
ہاں دل کی واردات پرانی کوئی لکھو
احمد فراز

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 66
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 196
جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی
کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ@ آب کو فرصت روانی کی
پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی
@ نسخۂ طاہر میں ” زنجیرِ موجِ آب”
مرزا اسد اللہ خان غالب

اور پھر وہ بھی زبانی میری

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 192
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد بادِ رہِ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری
مرزا اسد اللہ خان غالب

مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ

دیوان سوم غزل 1248
نہ باتیں کرو سرگرانی کے ساتھ
مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ
نہ اٹھ کر در یار سے جاسکے
یہ کم لطف ہے ناتوانی کے ساتھ
فرو درد آنسو پیے کچھ ہوا
دوا جیسے پیتے ہیں پانی کے ساتھ
کہے میں نے اشعار ہر بحر میں
ولیکن قیامت روانی کے ساتھ
شتابی گئی اس روش فصل گل
کہ جوں رفتگی ہو جوانی کے ساتھ
بکھیرے ہے جوں لخت دل آہ صبح
ہوا کب ہے اس گل فشانی کے ساتھ
جلا جی بہت قصۂ میر سن
بلا سوز تھا اس کہانی کے ساتھ
میر تقی میر

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

دیوان دوم غزل 949
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی
مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی
کرکے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے
وہ نظر پائوں پہ وہ بات دوانی اس کی
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرور خوبی
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشک بہار
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی
سرگذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار
کیا عوض چاہ کا تھا خصمی جانی اس کی
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے
دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی
میر تقی میر

قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 18
زخم کھائے ہوئے پانی کا تماشا دیکھیں
قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں
گاہے پستی کا مکیں ، گاہے بلندی پہ رواں
وقت کی نقل مکانی کا تماشا دیکھیں
جانتے ہیں کہ بنے واقعہ، قصّہ کیسے
ہم کہانی میں کہانی کا تماشا دیکھیں
اتنی خلقت میں مگر آدمی ناپید ملے
جنسِ ارزاں کی گرانی کا تماشا دیکھیں
دن میں سورج کبھی دو بار نکل آئے تو
ہم بھی دوبارہ جوانی کا تماشا دیکھیں
دیمکیں چاٹ چکی ہوں گی صلیبیں کتنی
ہم کہاں کس کی نشانی کا تماشا دیکھیں
پیرہن لمس میں ہوں جیسے بھرے بدنوں کے
لفظ اندر سے معانی کا تماشا دیکھیں
آفتاب اقبال شمیم

آخر شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 122
دل کا جو حال ہوا دشمن جانی کا نہ ہو
آخر شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو
لوگ کیا جانیں کہ گزرے ہوئے موسم کیا تھے
جب قبا پر کوئی پیوند نشانی کا نہ ہو
ہم کہاں قید میں رہ سکتے تھے لیکن ترا ہاتھ
ہے وہ زنجیر کہ احساس گرانی کا نہ ہو
مسکراتا ہوں تو اکثر یہ خیال آتا ہے
آنکھ میں نم ابھی برسے ہوئے پانی کا نہ ہو
عرض احوال پہ دنیا مرا منہ دیکھتی ہے
جیسے رشتہ کوئی الفاظ و معانی کا نہ ہو
اور کچھ دیر ابھی سیر سر ساحل کر لیں
جب تلک حکم سفینے کو روانی کا نہ ہو
عرفان صدیقی

اِس برس بھی ہے اُسی طرح سہانی بارش

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 99
پھر جگاتی ہے وہی ٹیس پُرانی بارش
اِس برس بھی ہے اُسی طرح سہانی بارش
سسکیاں بھرتی رہی رات ہوا آنگن میں
رات بھر کہتی رہی کوئی کہانی بارش
آگ بن کر کبھی شریانوں میں بہتا ہوا خون
کبھی آنکھوں سے برستا ہوا پانی بارش
اَب تو یہ پیڑ ٹپکتا ہے مری چھت کی طرح
دو گھڑی روک ذرا اپنی روانی بارش
سبز پانی نے بدل ڈالا ہے منظر کا طلسم
رنگ کوئی ہو، کیے دیتی ہے دَھانی، بارش
چاہنے والی، مرے درد جگانے والی
میری محبوب، مری دشمنِ جانی، بارش
عرفان صدیقی

الفاظ و معانی سے سنوں شورِ انا الحق

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 210
میں کُن کی کہانی سے سنوں شورِ انا الحق
الفاظ و معانی سے سنوں شورِ انا الحق
پانی بھی علیحدہ نہیں سر چشمہ ء کل سے
دریا کی روانی سے سنوں شورِ انا الحق
اڑتے ہوئے پتے بھی تو ہیں پیڑ کا حصہ
موسم کی جوانی سے سنوں شورِ انا الحق
کثرت کو میں وحدت سے جدا کر نہیں سکتا
تخلیقِ جہانی سے سنوں شورِ انا الحق
آواز سے لفظوں کی جدائی نہیں ممکن
آیاتِ قرانی سے سنوں شورِ انا الحق
منصور زمانے کو خدا کہتی ہے دانش
تقویمِ زمانی سے سنوں شورِ انا الحق
منصور آفاق

فلم جاری ہے کہانی ختم شد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 156
زندگی! اب زندگانی ختم شد
فلم جاری ہے کہانی ختم شد
رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں
آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد
کر رہا ہوں شام سے فکرِ سخن
یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد
میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر
لامکاں کی لامکانی ختم شد
رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر
پانیوں کی بھی روانی ختم شد
چھوڑ آیا ہوں میں شورِ ناتمام
گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد
اور باقی ہیں مگر امید کی
اک بلائے ناگہانی ختم شد
آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے
بارشوں کی بے زبانی ختم شد
دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے
اب گلی کی پاسبانی ختم شد
آ گئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا
جو تھا سوچا ، جو تھی ٹھانی ختم شد
بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے
سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد
اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں
یار کی بھی مہربانی ختم شد
اب مرے کچھ بھی نہیں ہے آس پاس
ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد
وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا
وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد
اک تکلم اک تبسم کے طفیل
میرا شوقِ جاودانی ختم شد
آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات
میرے دل کی بے کرانی ختم شد
اک مجسم آئینے کے سامنے
آرزو کی خوش بیانی ختم شد
لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے
چیختے روتے معانی ختم شد
کچھ ہوا ایسا ہوا کے ساتھ بھی
جس طرح میری جوانی ختم شد
اہم اتنا تھا کوئی میرے لیے
اعتمادِ غیر فانی ختم شد
دشت کی وسعت جنوں کو چاہیے
اس چمن کی باغبانی ختم شد
اپنے بارے میں کروں گا گفتگو
یار کی اب ترجمانی ختم شد
ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ
سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد
منصور آفاق