یہ سمجھو ختم اب سارا فسانہ ہو گیا ہے
تباہی پر مری راضی زمانہ ہو گیا ہے
یہ سادہ لَوح و ناداں لوگ تیری انجمن کے
بہت خوش ہیں ، چَلو! کوئی ٹھِکانہ ہو گیا ہے
وہ حفظِ ما تَقَدُّم میں کرے گا قتل سب کو
اُسے حاصل نیا اب یہ بَہانہ ہو گیا ہے
جنابِ دل! کسی اب اَور ہی کوچے کو چَلئے
یہاں پر ختم اپنا آب و دانہ ہو گیا ہے
نہ جانے کیوں کبھی بَنتی نہیں حُسن و خِرَد میں
وہاں جو بھی گیا جا کر دِوانہ ہو گیا ہے
پریشاں بھی بہت ہے اَور کچھ اُلجھی ہُوئی بھی
تنازُع کوئی بَینِ زلف و شانہ ہو گیا ہے
ذرا ٹھیَرو! مسیحا کا پیام آیا ہے، ضامنؔ!
ہُوئی تاخیر لیکن اب روانہ ہو گیا ہے
ضامن جعفری