ٹیگ کے محفوظات: رضا

یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے

خواہشیں قتل کی گئیں، خواب فنا کیے گئے
یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے
جوہرِ خوش صفات کی، راکھ ہیں ممکنات کی
ٹھیک سے دیکھیے کہ ہم، کون تھے کیا کیے گئے
پیرویءِ ضمیر سے، اور تو کچھ نہیں ہُوا
کام خراب کر لیے، دوست خفا کیے گئے
رکھے گئے تھے ضبط کی، قید میں جو تمام دن
رات کو گھر پہنچ کے وہ، اشک رہا کیے گئے
قوم کے سارے شرپسند، محوِعمل تھے رات دن
جتنے بھی اہلِ خیر تھے، صرف دعا کیے گئے
ذکر کیا کرو نہ تم، اہلِ جہاں کے درد کا
تم جو نگاہ پھیر کر، ذکرِ خدا کیے گئے
ربِّ سخن سے یہ گلہ، بنتا نہیں ہے کیا کہ ہم
عہدِ منافقت میں کیوں، نغمہ سرا کیے گئے
کرتے ہو کیوں موازنہ، اہلِ ہوس کا ہم سے تم
ہم تو وہ لوگ ہیں جنھیں، شعر عطا کیے گئے
چارہ گرانِ جسم کو، روح کی کیا خبربھلا
مجھ کو نہیں تھا جو مرض، اُس کی دوا کیے گئے
خالقِ حسن کو بہت، فکر تھی تیرے حسن کی
ہم بہ مشیّتِ خدا، تجھ پہ فدا کیے گئے
ملتا نہ تھا کوئی صلہ، پاسِ وفا کا اور پھر
ہم نے یہ فکر چھوڑ دی، اور وفا کیے گئے
ایک بزرگ روح سے، پوچھی تھی رمزِآگہی
اُس نے کہا کہ عشق کر، ہم بہ رضا کیے گئے
شام وہ اختیار کی، حسن سے کیا اُدھار کی
باقی تمام عمر ہم، قرض ادا کیے گئے
عرفان ستار

کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے

یہ دَورِ خزاں ، کس نے کہا ہے کہ نہیں ہے
کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے
افلاک سے آہیں جو پَلَٹ آئی ہیں ناکام
ہر زخم نے پوچھا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
مظلوم کی آنکھوں میں جو لکّھا ہے اُسے پڑھ
تیرے لئے پیغامِ قضا ہے کہ نہیں ہے
چہرہ نہ مرا دیکھ، مرے دل پہ نَظَر رکھ
ہر حال میں راضی بہ رضا ہے کہ نہیں ہے
تفصیلِ فرائض تو بتادی گئی مجھ کو
کیا مجھ کو کوئی حق بھی مِلا ہے کہ نہیں ہے
لوگوں کے بندھے ہاتھوں پہ امکاں کی نَظَر ڈال
اِن میں سے ہر اِک دستِ قضا ہے کہ نہیں ہے
کیوں کرتے ہو تم پُرسشِ احوال کی زحمت
جو دل میں ہے چہرے پہ لکھا ہے کہ نہیں ہے
ضامنؔ! مِرا شیوہ ہی محبّت ہے، مجھے کیا
بستی کے مکینوں میں وفا ہے کہ نہیں ہے
ضامن جعفری

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 68
بچتے ہیں اس قدر جو اُدھر کی ہوا سے ہم
واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم
افشائے رازِ عشق میں ضرب المثل ہے وہ
کیوں کر غبار دل میں نہ رکھیں صبا سے ہم
چلتے ہیں مے کدے کو کہاں یہ عزیز واں
رخصت تو ہو لیں کبر و نفاق و ریا سے ہم
اے جوشِ رشکِ قربِ عدو، اب تو مت اٹھا
بیٹھے ہیں دیکھ بزم میں کس التجا سے ہم
ہے جامہ پارہ پارہ، دل و سینہ چاک چاک
دیوانہ ہو گئے گلِ جیبِ قبا سے ہم
کیا جانتے تھے صبح وہ محشر قد آئے گا
شامِ شبِ فراق نہ مرتے بلا سے ہم
ہر بات پر نگاہ ہماری ہے اصل پر
لیتے ہیں مشکِ زخم کو زلفِ دوتا سے ہم
بے گانہ جب سے یار ہوا ہے، رقیب ہے
اُمید قطع کر چکے ہر آشنا سے ہم
بلبل یہ کہہ رہی ہے سرِ شاخسار پر
بدمست ہو رہے ہیں چمن کی ہوا سے ہم
کم التفات ہم سے سمجھتے ہیں اہلِ بزم
شرمندہ ہو گئے تری شرم و حیا سے ہم
ہاں شیفتہ پھر اس میں نصیحت ہی کیوں نہ ہو
سنتے ہیں حرفِ تلخ کو سمعِ رضا سے ہم
مصطفٰی خان شیفتہ

یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 201
آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
ذہن میں خوبئِ تسلیم و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جائے گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی
دوست ہی کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، لیک تمنّائے دوا ہے تو سہی
غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی
نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی
کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالب
شہرۂ تیزئِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی
مرزا اسد اللہ خان غالب

صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 24
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب، ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبضِ دوراں، گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا
فیض احمد فیض

خرید لوں میں یہ نقلی دوا، جو تو چاہے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 187
بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نقلی دوا، جو تو چاہے
یہ زرد پنکھڑیاں جن پر کہ حرف حرف ہوں میں
ہوائے شام میں مہکیں ذرا، جو تو چاہے
تجھے تو علم ہے، کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے
جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے
بس اک تری ہی شکم سیر روح ہے آزاد
اب اے اسیرِ کمندِ ہوا، جو تو چاہے
ذرا شکوہِ دو عالم کے گنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد ترا فیصلہ، جو تو چاہے
سلام ان پہ، تہہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے
جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے
مجید امجد

عجب درخت ہیں‘ دشتِ بلا میں زندہ ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 177
ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں
عجب درخت ہیں‘ دشتِ بلا میں زندہ ہیں
گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم
اسی جزیرۂ بے آشنا میں زندہ ہیں
گلی میں ختم ہوا قافلے کا شور‘ مگر
مسافروں کی صدائیں سرا میں زندہ ہیں
مجھے ہی کیوں ہو کسی اجنبی پکار کا خوف
سبھی تو دامنِ کوہِ ندا میں زندہ ہیں
خدا کا شکر‘ ابھی میرے خواب ہیں آزاد
مرے سفر مری زنجیر پا میں زندہ ہیں
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
عرفان صدیقی

آؤ کہ اجر کار رسالت ادا کریں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 154
جاں نذر دے کے نصرت آل عبا کریں
آؤ کہ اجر کار رسالت ادا کریں
برپا کریں تو حشر کریں کربلا کے بعد
روشن اگر کریں تو چراغ عزا کریں
صدیوں سے سینہ زن ہے بدن میں لہو کی لہر
آج اس کو پیش تیغ ستم گر رہا کریں
صرف ایک سر ملا تھا سو نذرانہ کر دیا
اب ناصران معرکۂ صبر کیا کریں
صحرا میں شور کرتی ہیں موجیں فرات کی
زنداں میں جیسے اہل سلاسل صدا کریں
اس شاہ بے کساں پہ دل و روح و جاں نثار
مقدور ہو تو نذر کچھ اس سے سوا کریں
یاد آوران تشنہ دہانان کربلا
اس تشنگی کو چشمۂ آب بقا کریں
گریہ نشان جاں ہے مگر اس کے باوجود
مقتل مقام صبر و رضا ہے رضا کریں
تیرا قلم ولا کا علم ہے سو مجرئ
عباس تجھ کو ظل حمایت عطا کریں
عرفان صدیقی

چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 92
الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر
غزل میں اس کو ستم گر کہا تو روٹھ گیا
چلو‘ یہ حرفِ ملامت لگا نشانے پر
میں اپنے سینے سے شرمندہ ہونے والا تھا
کہ آگیا کوئی تیرِ جفا نشانے پر
خدا سے آخری رشتہ بھی کٹ نہ جائے کہیں
کہ اب کے ہے مرا دستِ دُعا نشانے پر
وہ شعلہ اپنی ہی تیزی میں جل بجھا ورنہ
رکھا تھا خیمۂ صبر و رضا نشانے پر
میں انتظار میں ہوں کون اسے شکار کرے
بہت دنوں سے ہے میری نوا نشانے پر
عرفان صدیقی

بے وطن جنگل میں بے جرم و خطا مارا گیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 78
حشر برپا تھا کہ سبط مصطفی مارا گیا
بے وطن جنگل میں بے جرم و خطا مارا گیا
چشمۂ خوں سے بجھاکر لشکر اعدا کی پیاس
بادشاہ کشور صبر و رضا مارا گیا
برگ گل سے کون سا خطرہ کماں داروں کو تھا
پھول کی گردن میں کیوں تیر جفا مارا گیا
گونج کر گم ہو گئی صحرا میں اکبر کی اذاں
اُڑتے اُڑتے طائر صوت و صدا مارا گیا
کیسے کیسے سرفروش اُس مہرباں کے ساتھ تھے
ایک ایک آخر سر راہ وفا مارا گیا
تم نکل کر کس کا استقبال کرنے آئے ہو
شہر والو، دشت میں وہ قافلہ مارا گیا
چھٹ گیا آشفتگاں کے ہاتھ سے دامان صبر
سینۂ صد چاک پر دست دعا مارا گیا
پردۂ خیمہ تک آنے ہی کو تھی موج فرات
ناگہاں سقائے بیت مرتضیٰ مارا گیا
زندہ ہم سب نوحہ گر بس یہ خبر سننے کو ہیں
لٹ گئے رہزن، گروہ اشقیا مارا گیا
عرفان صدیقی

جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 53
نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
پل بھر میں سیم تاب تو پل بھر میں لالہ رنگ
وہ دشت اِک طلسم سرا کے سوا نہ تھا
اُن کی ظفر پہ جیش حریفاں تھی حیرتی
اُن کی طرف تو کوئی خدا کے سوا نہ تھا
کارِ آفریں کے دست بریدہ کی دسترس
اک فرض تھا کہ عرض وفا کے سوا نہ تھا
کیا قافلہ گیا ہے ادھر سے کہ جس کے ساتھ
کچھ ساز و برگ شور درا کے سوا نہ تھا
زیر قدم تھی دور تلک خاک ناسپاس
سر پر کچھ آسماں کی ردا کے سوا نہ تھا
اک سیل خوں تھا اور خدا کی زمین پر
کوئی گواہ تیغ جفا کے سوا نہ تھا
یہ چشم کم نظر تہہ خنجر کہے جسے
کچھ بھی گلوئے صبر و رضا کے سوا نہ تھا
عرفان صدیقی

جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 206
کیس ، ممکن ہے مکرو ریا کے خلاف
جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف
یہ جنارہ بھی دراصل ہے اک جلوس
نیستی کے مقامِ فنا کے خلاف
تیری آواز بھی سلب ہوسکتی ہے
گفتگو کر نہ قحطِ نوا کے خلاف
پھر رہا ہے برہنہ کوئی شہر میں
پھر رعونت زدہ بادشہ کے خلاف
یہ کرشمہ مسلسل گھٹن سے ہوا
ہو گئے پھول تازہ ہوا کے خلاف
اک یہی زندگی کا سہارا ہے بس
میں نہیں ہوں وجودِ خدا کے خلاف
خوشبوئے یارسے یہ معطر نہیں
بات کر کوئی بادِ صبا کے خلاف
خاک پر مجھ کو منصور بھیجا گیا
میری مرضی کے میری رضاکے خلاف
منصور آفاق

اس کی آنکھوں میں عزا کا درد تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 95
اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا
اس کی آنکھوں میں عزا کا درد تھا
وقت کی قربان گاہ تھی دور تک
اور ازل بستہ قضا کا درد تھا
بات مجبوراً روابط کی تھی اور
مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا
ہجر کے کالک بھرے ماحول سے
مجھ کو صحبت کی سزا کا درد تھا
اک طرف شہد و شراب و لمس تھے
اک طرف روزِ جزا کا درد تھا
منصور آفاق

کوئی اٹھ جائے بلا سے تیری

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 162
رنگ محفل ہے ادا سے تیری
کوئی اٹھ جائے بلا سے تیری
دل تری بزم میں لے آتا ہے
ہم تو واقف ہیں رضا سے تیری
مرگ و ہستی کی حدیں ملنے لگیں
بات چل نکلی وفا سے تیری
تیرے جانے پہ ہوا ہے معلوم
شمع روشن تھی ضیا سے تیری
وقت جب چال کوئی چلتا ہے
یاد دیتی ہے دلاسے تیری
تیری آمد کا بہانہ ہے بہار
پھول کھلتے ہیں صدا سے تیری
بوئے گل دیکھی ہے رسوا ہوتے
کیا کریں بات صبا سے تیری
کرتے پھرتے ہیں بگولے باقیؔ
بات ہر آبلہ پا سے تیری
باقی صدیقی