ٹیگ کے محفوظات: رستم

تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے

دیوان ششم غزل 1899
رشک شمشیر ابرو کا خم ہے
تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے
تم کرو شاد زندگی کہ مجھے
دل کے خوں ہونے کا بہت غم ہے
جب سے عالم میں جلوہ گر ہے تو
مہلکے میں تمام عالم ہے
حبس دم پر نہ جائیو ان کے
شیخ صاحب کا یہ بھی اک دم ہے
زال دنیا کو جن نے چھوڑ دیا
وہی نزدیک اپنے رستم ہے
سرو و طوبیٰ کا ناز ہے بیجا
اس کے قد کا سا کب خم و چم ہے
کچھ تو نسبت ہے اس کے بالوں سے
یوں ہی کیا حال میر درہم ہے
میر تقی میر

آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا

دیوان پنجم غزل 1571
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا
روتے کڑھتے خاک میں ملتے جیتے رہے ہم دنیا میں
دس دن اپنی عمر کے گویا عشرہ تھا یہ محرم کا
کشتی ہماری عشق میں کیا تھی ہاتھ ملاتے پاک ہوئی
پاے ثبات نہ ٹھہرا دم بھر اس میدان میں رستم کا
عالم نیستی کیا عالم تھا غم دنیا و دیں کا نہ تھا
ہوش آیا ہے جب سے سر میں شوق رہا اس عالم کا
یاں واجب ہے ہم کو تم کو دم لیویں تو شمردہ لیں
دینا ہو گا حساب کسو کو یک دم ہی میں دم دم کا
چھاتی کوٹی منھ نوچا سر دے دے مارا پتھر پر
دل کے خوں ہونے میں ہمارا یہی طریق ہے ماتم کا
لڑکے شوخ بہت ہیں لیکن ویسا میر نہیں کوئی
دھوم قیامت کی سی ہے ہنگامہ اس کے اودھم کا
میر تقی میر

پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا

دیوان پنجم غزل 1560
عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا
پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا
بود نبود کی اپنی حقیقت لکھنے کے شائستہ نہ تھی
باطل صفحۂ ہستی پر میں خط کھینچا قلم مارا
غیر کے میرے مرجانے میں تفاوت ارض و سما کا ہے
مارا ان نے دونوں کو لیکن مجھ کو کرکے ستم مارا
ان بالوں سے طلسم جہاں کا در بستہ تھا گویا سب
زلفوں کو درہم ان نے کیا سو عالم کو برہم مارا
دور اس قبلہ رو سے مجھ کو جلد رقیب نے مار رکھا
قہر کیا اس کتے نے کیا دوڑ کے صیدحرم مارا
کاٹ کے سر عاجز کا ان نے اور بھی پگڑی پھیر رکھی
فخر کی کون سی جاگہ تھی یاں ایسا کیا رستم مارا
جس مضمار میں رستم کی بھی راہ نہ نکلی میر کبھو
اس میداں کی خاک پہ ہم نے جرأت کرکے قدم مارا
میر تقی میر

ہم نے کھینچی کمان رستم بھی

دیوان چہارم غزل 1491
زورکش ہیں گے عشق کے ہم بھی
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
ہے بلا دھوم دل تڑپنے کی
ایسا ہوتا نہیں ہے اودھم بھی
کچھ نہیں اور دیکھیں ہیں کیا کیا
خواب کا سا ہے یاں کا عالم بھی
حیف دل جاتے پڑ گئی جی کی
ورنہ غم کرتے لیتے ماتم بھی
حرم کعبہ کا نہ پایا بھید
نہ ملا واں کا ایک محرم بھی
خشک نے سا تھا شیخ حیف موا
یوں تو یار اس کو دیتے تھے دم بھی
کھپ ہی جاتا ہے آدمی اے میر
آفت جاں ہے عشق کا غم بھی
میر تقی میر

مژہ نم رہیں حال درہم رہا

دیوان چہارم غزل 1331
کیا عشق سو پھر مجھے غم رہا
مژہ نم رہیں حال درہم رہا
ضعیف و قوی دونوں رہتے نہیں
نہ یاں زال ٹھہرا نہ رستم رہا
سحر جلوہ کیوں کر کرے کل ہوکیا
یہ اندیشہ ہر رات ہر دم رہا
ہوا غم مجھے خوں جگر میں نہیں
اگر آنسو آتے کوئی تھم رہا
رہی آتی آندھی سی سینے میں میر
بہت دل تڑپنے کا اودھم رہا
میر تقی میر

چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

دیوان دوم غزل 677
خط سے وہ زور صفاے حسن اب کم ہو گیا
چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا
سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا
ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ
اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا
آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا
اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا
وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا
فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا
وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا
جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور
جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا
ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت
اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میر
تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا
میر تقی میر

ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں

دیوان اول غزل 365
تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں
نہ کچھ کاغذ میں ہے تہ نے قلم کو درد نالوں کا
لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں
لہو آنکھوں سے بہتے وقت رکھ لیتا ہوں ہاتھوں کو
جراحت ہیں اگر وے دونوں تو مرہم ہیں یہ دونوں
کسو چشمے پہ دریا کے دیا اوپر نظر رکھیے
ہمارے دیدئہ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں
لب جاں بخش اس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں
نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر
ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں
کھلے سینے کے داغوں پر ٹھہر رہتے ہیں کچھ آنسو
چمن میں مہر ورزی کے گل و شبنم ہیں یہ دونوں
کبھو دل رکنے لگتا ہے جگر گاہے تڑپتا ہے
غم ہجراں میں چھاتی کے ہماری جم ہیں یہ دونوں
خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میر صاحب شہرئہ عالم ہیں یہ دونوں
میر تقی میر