ٹیگ کے محفوظات: رخصت

مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 17
دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا
جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجت کرنا
کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا
پروین شاکر

وہ نہیں تھا میری طبیعت کا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 17
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبح سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
آ گئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
جون ایلیا

رخصت

ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی

ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی

اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں

نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!

میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں

اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں

ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے

رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے

آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں

اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر آتا ہے

آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات

اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے

میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں

اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!

گہوارہ ءِ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات

اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات

نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں

سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات

رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی

تسکینِ دل و دیدہ ءِ گریاں نہیں ہوتی!

میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی

اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی

سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!

پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی

کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب

اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی

وارفتہ و آشفتہ و کاہیدہ ءِ غم ہیں

افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی

میں نالہ ءِ شب گیر کے مانند اٹھوں گا

فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا

تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی

پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا

گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری

عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!

ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس

اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس

مجھ سا کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں

مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس

مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے

دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس

بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی

تو جانتی ہے ورنہ وفا دار ہوں میں بھی!

ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت

اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت

ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر

اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت

تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی

یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی

مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں

تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں

کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں

آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں

او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ

تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!

اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ

مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!

ن م راشد

میری وحشت تری شہرت ہی سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 203
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
مرزا اسد اللہ خان غالب

بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب

دیوان ششم غزل 1812
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب
کیا کوئی یاری کسو سے کرکے ہووے شاد کام
دوستی ہے دشمنی الفت نہیں کلفت ہے اب
چاہتا ہے درد دل کرنا کسو سے دل دماغ
سو دماغ اپنا ضعیف اور قلب بے طاقت ہے اب
کیونکے دنیا دنیا رسوائی مری موقوف ہو
عالم عالم مجھ پہ اس کے عشق کی تہمت ہے اب
اشک نومیدا نہ پھرتے ہیں مری آنکھوں کے بیچ
میر یہ دے ہے دکھائی جان کی رخصت ہے اب
میر تقی میر

کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی

دیوان پنجم غزل 1741
عشق کیا سو جان جلی ہے الفت تھی یا کلفت تھی
کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی
اب تو نڈھال پڑے رہتے ہیں ضعف ہی اکثر رہتا ہے
آئے گئے اس کے کوچے میں جب تک جی میں طاقت تھی
آب حیات وہی نہ جس پر خضر و سکندر مرتے رہے
خاک سے ہم نے بھرا وہ چشمہ یہ بھی ہماری ہمت تھی
آنسو ہوکر خون جگر کا بیتابانہ آیا تھا
شاید رات شکیبائی کی جلد بہت کچھ رخصت تھی
جب سے عشق کیا ہے میں نے سر پر میرے قیامت ہے
ساعت دل لگنے کی شاید نحس ترین ساعت تھی
میر تقی میر

دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے

دیوان پنجم غزل 1740
عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
ہم تو عشق میں ناکس ٹھہرے کوئی نہ ایدھر دیکھے گا
آنکھ اٹھاکر وہ دیکھے تو یہ بھی اس کی مروت ہے
ہائے غیوری جس کے دیکھے جی ہی نکلتا ہے اپنا
دیکھیے اس کی اور نہیں پھر عشق کی یہ بھی غیرت ہے
کوئی دم رونق مجلس کی اور بھی ہے اس دم کے ساتھ
یعنی چراغ صبح سے ہیں ہم دم اپنا بھی غنیمت ہے
خط آئے ظاہر ہے ہم پر بگڑی بھی اچھی صورت تھی
بارے کہو ناکام ہی ہو یا کام کی بھی کچھ صورت ہے
ایک ورق پر تصویریں میں دیکھی ہیں لیلی و مجنوں کی
ایسی صورت حال کی اپنی ان دونوں کو حیرت ہے
خاک سے آدم کرکے اٹھایا جس کو دست قدرت نے
قدر نہیں کچھ اس بندے کی یہ بھی خدا کی قدرت ہے
صبح سے آنسو نومیدانہ جیسے وداعی آتا تھا
آج کسو خواہش کی شاید دل سے ہمارے رخصت ہے
کیا دلکش ہے بزم جہاں کی جاتے یاں سے جسے دیکھو
وہ غم دیدہ رنج کشیدہ آہ سراپا حسرت ہے
جب کچھ اپنے کنے رکھتے تھے تب بھی صرف تھا لڑکوں کا
اب جو فقیر ہوئے پھرتے ہیں میر انھیں کی دولت ہے
میر تقی میر

اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں

دیوان پنجم غزل 1691
صبر کیا ہے برسوں ہم نے رات سے بے طاقت سے ہیں
اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں
رسم لطف نہیں ہے مطلق شہر خوش محبوباں میں
دیکھے کم جو کرتے کسو پر ہم عاشق مدت سے ہیں
عشق کے دین اور مذہب میں مرجانا واجب آیا ہے
کوہکن و مجنون موئے اب ہم بھی اسی ملت سے ہیں
ملنا نفروں سے ان کا چھوٹا آکر میری صحبت میں
پھر متنفر بھی یہ بے تہ مجھ سے کی صحبت سے ہیں
فرصت ان کو کم ہے اگرچہ پر ملتے ہیں قابو پر
برسوں میر سے مل دیکھا ہے کچھ وے کم فرصت سے ہیں
میر تقی میر

تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات

دیوان پنجم غزل 1585
چپکے کھڑا ٹکڑے ہوتا ہوں ساری ہے الفت کی بات
تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات
جان مسافر ہو جائے گی لب پر ہے موقوف آہ
سب کچھ کہیو جاتے ہوئے تم مت کہیو رخصت کی بات
کہہ کے فسانہ عشق و وفا کا لوگ محبت کرتے تھے
اب وہ ناز کہانی ان کی گویا ہے مدت کی بات
درد و غم کی گرفتاری سے مہلت ہو تو کچھ کہیے
حرف زدن اشعار شعاری یہ سب ہے فرصت کی بات
کس کو دماغ جواب رہا ہے ضعف سے اب خاموش رہے
پہروں بکتا نصیحت گر سے میر یہ ہے طاقت کی بات
میر تقی میر

یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب

دیوان پنجم غزل 1577
تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب
یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب
وصل میں کیا کیا صحبتیں رنگیں کس کس عیش میں دن گذرے
تنہا بیٹھ رہے ہیں یک سو ہجر میں یہ صحبت ہے اب
جب سے بناے صبح ہستی دو دم پر یاں ٹھہرائی
کیا کیا کریے اس مہلت میں کچھ بھی ہمیں فرصت ہے اب
چور اچکے سکّھ مرہٹے شاہ و گدا زرخواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے اب
پائوں پہ سر رکھنے کی مجھ کو رخصت دی تھی میر ان نے
کیا پوچھو ہو سر پر میرے منت سی منت ہے اب
میر تقی میر

بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے

دیوان چہارم غزل 1493
بے دل ہوئے بے دیں ہوئے بے وقر ہم ات گت ہوئے
بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے
ہم عشق میں کیا کیا ہوئے اب آخر آخر ہوچکے
بے مت ہوئے بے ست ہوئے بے خود ہوئے میت ہوئے
الفت جو کی کہتا ہے جی حالت نہیں عزت نہیں
ہم بابت ذلت ہوئے شائستۂ کلفت ہوئے
گر کوہ غم ایسا گراں ہم سے اٹھے پس دوستاں
سوکھے سے ہم دینت ہوئے تنکے سے ہم پربت ہوئے
کیا رویئے قیدی ہیں اب رویت بھی بن گل کچھ نہیں
بے پر ہوئے بے گھر ہوئے بے زر ہوئے بے پت ہوئے
آنکھیں بھر آئیں جی رندھا کہیے سو کیا چپکے سے تھے
جی چاہتا مطلق نہ تھا ناچار ہم رخصت ہوئے
یامست درگا ہوں میں شب کرتے تھے شاہد بازیاں
تسبیح لے کر ہاتھ میں یا میر اب حضرت ہوئے
میر تقی میر

دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت

دیوان چہارم غزل 1362
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت
کم نہیں دیوانہ ہونا بھی ہمارا دفعتہ
ڈریے ہوجاوے خردور کی جو پلٹے مت بہت
گریہ و زاری سے روز وشب کی شکوے کچھ نہیں
مجھ کو رونا یہ ہے جی کو اس سے ہے الفت بہت
کیا وداع اس یار کے کوچے سے ہم مشکل ہوئے
زار باراں لوگ روتے تھے دم رخصت بہت
بعد مرگ آنکھیں کھلی رہنے سے یہ جانا گیا
دیکھنے کی اس کے میرے جی میں تھی حسرت بہت
سن کے ضائع روزگاری اس کی جی لایا نہ تاب
آپ کو کر بیٹھے ضائع ہم کو تھی غیرت بہت
آنکھیں جاتی ہیں مندی ضعف دلی سے دم بہ دم
ان دنوں ان کو بھی ایدھر ہی سے ہے غفلت بہت
دل گئے پر آج کل سے چپ نہیں مجھ کو لگی
گذری اس بھی بات کو اے ہم نفس مدت بہت
دل میں جا کرتا ہے طورمیر شاید دوستاں
ان نے صاحب دل کسو سے رکھی ہے صحبت بہت
میر تقی میر

یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے

دیوان سوم غزل 1288
ہے تماشا حسن و خط حیرت بھی ہے
یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے
تا دم آخر نہیں بولے ہیں ہم
کچھ کہیں گے بارے اب رخصت بھی ہے
ہے وہ فتنہ ہم حریف و ہم ظریف
مار ہے گالی ہے پھر منت بھی ہے
تیغ نے اس کی ہمیں قسمت کیا
خوش نصیبی ہے تو پر قسمت بھی ہے
وا نسیم صبح سے ہوتا ہے گل
تجھ کو اے مرغ چمن غیرت بھی ہے
جی ہی دینے کا نہیں کڑھنا فقط
اس کے در سے جانے کی حسرت بھی ہے
دور سے باتیں کرے ہے یوں ہی یار
میر صاحب سے انھیں صحبت بھی ہے
میر تقی میر

دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی

دیوان سوم غزل 1255
کیسے نحس دنوں میں یارب میں نے اس سے محبت کی
دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
میں تو سرو و شاخ گل کی قطع ہی کا دیوانہ تھا
یار نے قد قامت دکھلاکر سر پر میرے قیامت کی
قسمت میں جو کچھ کہ بدا ہو دیتے ہیں وہ ہی انساں کو
غم غصہ ہی ہم کو ملا ہے خوبی اپنی قسمت کی
خلوت یار ہے عالم عالم ایک نہیں ہے ہم کو بار
در پر جاکر پھر آتے ہیں خوب ہماری عزت کی
اک گردن سے سو حق باندھے کیا کیا کریے ہوں جو ادا
مدت اس پر ایک نفس جوں صبح ہماری فرصت کی
شیوہ اس کا قہر و غضب ہے ناز و خشم و ستم وے سب
کوئی نگاہ لطف اگر کی ان نے ہم سے مروت کی
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
جب کہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی
ناز و خشم کا رتبہ کیسا ہٹ کس اعلیٰ درجے میں
بات ہماری ایک نہ مانی برسوں ہم نے منت کی
دکھن پورب پچھم سے لوگ آکر مجھ کو دیکھیں ہیں
حیف کہ پروا تم کو نہیں ہے مطلق میری صحبت کی
دوستی یاری الفت باہم عہد میں اس کے رسم نہیں
یہ جانے ہیں مہر و وفا اک بات ہے گویا مدت کی
آب حسرت آنکھوں میں اس کی نومیدانہ پھرتا تھا
میر نے شاید خواہش دل کی آج کوئی پھر رخصت کی
میر تقی میر

دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو

دیوان سوم غزل 1240
آج ہمارا جی بے کل ہے تم بھی غفلت مت کریو
دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو
ڈھیری رہے اک خاک کی تو کیا ایسے خاک برابر کی
مجھ کو زمیں میں گاڑوگے تو نشان تربت مت کریو
ایسی جان کہاں ہے ہم میں رنج نہ دینا ہاتھوں کو
ایک ہی وار میں ہو چکیے گا دوسری ضربت مت کریو
ہم کو تو مارا عشق نے آخر پر یہ وصیت یاد رہے
دیر جہاں میں تم جو ہو تو کسو سے الفت مت کریو
میری طرف کی یارو اس سے بات کوئی کہتے ہو کہو
مانے نہ مانے وہ جانے پھر تم بھی منت مت کریو
کہیے سو کیا اب چپکے دیکھو گو میں اس میں مر جائوں
تم کو قسم ہے حرف و سخن کی مجھ سے مروت مت کریو
ہوش نہیں اپنا تو ہمیں ٹک میر آئے ہیں پرسش کو
جانے سے آگے ان کو ہمارے پیارے رخصت مت کریو
میر تقی میر

تب کسی ناآشناے مہر سے الفت کرو

دیوان سوم غزل 1227
کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو
تب کسی ناآشناے مہر سے الفت کرو
روٹھ کر منتا نہیں وہ شوخ یوں کیوں نہ کوئی
عذر چاہو دیر تک مدت تلک منت کرو
کب تک اے صورت گراں حیراں پھروں بے روے یار
نقش اس کا کھینچ رکھنے کی کوئی صورت کرو
انس اگر ان نوخطان شہر سے منظور ہے
اپنی پرچھائیں سے بھی جوں خامہ تم وحشت کرو
کچھ نہ پوچھو صحبت دیروزہ کی کم فرصتی
جوں ہی جا بیٹھے لگا کہنے انھیں رخصت کرو
عشق میں کیا دخل ہے نازک مزاجی کے تئیں
کوہکن کے طور سے جی توڑ کر محنت کرو
پہلے دیوانے ہوئے پھر میر آخر ہو گئے
ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو
میر تقی میر

چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے

دیوان دوم غزل 965
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے
نو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد
موسم گل رہے جب تک مجھے مہلت دیجے
خوار و خستہ کئی پامال تری راہ میں ہیں
کیجیے رنجہ قدم ان کو بھی عزت دیجے
اپنے ہی دل کا گنہ ہے جو جلاتا ہے مجھے
کس کو لے مریے میاں اور کسے تہمت دیجے
چھوٹے ہیں قید قفس سے تو چمن تک پہنچیں
اتنی اے ضعف محبت ہمیں طاقت دیجے
مر گیا میر نہ آیا ترے جی میں اے شوخ
اپنے محنت زدہ کو بھی کبھی راحت دیجے
میر تقی میر

آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی

دیوان دوم غزل 958
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی
عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا تھا صبح
دن چڑھے کیا جانوں آئینے کی کیا صورت ہوئی
لوح سینہ پر مری سو نیزئہ خطی لگے
خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی
کھولتے ہی آنکھیں پھر یاں موندنی ہم کو پڑیں
دید کیا کوئی کرے وہ کس قدر مہلت ہوئی
پائوں میرا کلبۂ احزاں میں اب رہتا نہیں
رفتہ رفتہ اس طرف جانے کی مجھ کو لت ہوئی
مر گیا آوارہ ہوکر میں تو جیسے گردباد
پر جسے یہ واقعہ پہنچا اسے وحشت ہوئی
شاد و خوش طالع کوئی ہو گا کسو کو چاہ کر
میں تو کلفت میں رہا جب سے مجھے الفت ہوئی
دل کا جانا آج کل تازہ ہوا ہو تو کہوں
گذرے اس بھی سانحے کو ہم نشیں مدت ہوئی
شوق دل ہم ناتوانوں کا لکھا جاتا ہے کب
اب تلک آپھی پہنچنے کی اگر طاقت ہوئی
کیا کف دست ایک میداں تھا بیاباں عشق کا
جان سے جب اس میں گذرے تب ہمیں راحت ہوئی
یوں تو ہم عاجزترین خلق عالم ہیں ولے
دیکھیو قدرت خدا کی گر ہمیں قدرت ہوئی
گوش زد چٹ پٹ ہی مرنا عشق میں اپنے ہوا
کس کو اس بیماری جانکاہ سے فرصت ہوئی
بے زباں جو کہتے ہیں مجھ کو سو چپ رہ جائیں گے
معرکے میں حشر کے گر بات کی رخصت ہوئی
ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا
پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی
کم کسو کو میر کی میت کی ہاتھ آئی نماز
نعش پر اس بے سر و پا کی بلا کثرت ہوئی
میر تقی میر

سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد

دیوان دوم غزل 801
بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد
سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد
جدائی کے حالات میں کیا کہوں
قیامت تھی ایک ایک ساعت کے بعد
موا کوہکن بے ستوں کھود کر
یہ راحت ہوئی ایسی محنت کے بعد
لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو
یہ گرمی تری اس شرارت کے بعد
کہے کو ہمارے کب ان نے سنا
کوئی بات مانی سو منت کے بعد
سخن کی نہ تکلیف ہم سے کرو
لہو ٹپکے ہے اب شکایت کے بعد
نظر میر نے کیسی حسرت سے کی
بہت روئے ہم اس کی رخصت کے بعد
میر تقی میر

رنج و محنت کمال راحت ہے

دیوان اول غزل 583
نالۂ عجز نقص الفت ہے
رنج و محنت کمال راحت ہے
عشق ہی گریۂ ندامت ہے
ورنہ عاشق کو چشم خفت ہے
تا دم مرگ غم خوشی کا نہیں
دل آزردہ گر سلامت ہے
دل میں ناسور پھر جدھر چاہے
ہر طرف کوچۂ جراحت ہے
رونا آتا ہے دم بدم شاید
کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے
فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں
قد و قامت ترا قیامت ہے
نہ تجھے رحم نے اسے ٹک صبر
دل پہ میرے عجب مصیبت ہے
تو تو نادان ہے نپٹ ناصح
کب موثر تری نصیحت ہے
دل پہ جب میرے آ کے یہ ٹھہرا
کہ مجھے خوش دلی اذیت ہے
رنج و محنت سے باز کیونکے رہوں
وقت جاتا رہے تو حسرت ہے
کیا ہے پھر کوئی دم کو کیا جانو
دم غنیمت میاں جو فرصت ہے
تیرا شکوہ مجھے نہ میرا تجھے
چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو میخانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے
ایسے ہنس مکھ کو شمع سے تشبیہ
شمع مجلس کی رونی صورت ہے
باطل السحر دیکھ باطل تھے
تیری آنکھوں کا سحر آفت ہے
ابرتر کے حضور پھوٹ بہا
دیدئہ تر کو میرے رحمت ہے
گاہ نالاں طپاں گہے بے دم
دل کی میرے عجب ہی حالت ہے
کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی
عاقبت قصۂ محبت ہے
تربت میر پر ہیں اہل سخن
ہر طرف حرف ہے حکایت ہے
تو بھی تقریب فاتحہ سے چل
بخدا واجب الزیارت ہے
میر تقی میر

رخصت

تھک گئیں آنکھیں، امیدیں سو گئیں، دل مر گیا

زندگی! عزمِ سفر کر، موت! کب آئے گی تو؟

آنسوؤ! آنکھوں میں اب آنے سے شرماتے ہو کیوں؟

تھی تمہی سے میرے داغِ آرزو کی آبرو!

اے کسی کے آستاں کو جانے والے راستے!

بخش دینا! میرا پائے شوق تھا سیماب خو

یہ ترا کتنا بڑا احسان ہے بادِ سحر!

عمر بھر کھیلی مری آہوں کے انگاروں سے تو

اے زمانے کے حسیں صیاد! کیا کہنا ترا

جاں گسل ہیں تیرے دامِ خوشنما کے تار و پو

آہ میری روح کو ڈسنے لگی ہے سانس سانس

اب میں رخصت چاہتا ہوں اے جہانِ رنگ و بو!

مجید امجد

رخصت

صبح کی دستک

وال کلاک نے

ٓآنکھیں ملتے ملتے سنی تھی

کمرے کے ساکت سینے میں

آخری منظر

قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا

جلتی ہوئی سانسوں کے سائے

دیواروں سے لپٹے ہوئے تھے

میز کی چکنی سطح پہ رکھی

دو آوازیں پگھل رہی تھیں

دو خوابوں کی گیلی تلچھٹ

خالی گلاس میں جمی ہوئی تھی

وقت کی گٹھڑی سے کھسکائے

سارے لمحے

اِک اِک کر کے

بیت چکے تھے

چپ تھے دونوں

لیکن پھر بھی

سادہ سی خاموش نظر کے

پیچھے کہیں ہیجان چھپا تھا

سینے کی مدھم لرزش میں

مانو کوئی طوفان بپا تھا

رُوح کے اندر جیسے کوئی

جاتے لمحے کو

جتنوں سے روک رہا تھا

اور پھر اس نے رخصت چاہی

آخری پل کی آخری مہلت میں

جب بھری بھری نگہ سے

ایک ستارہ چھلک رہا تھا

میں نے بھی پھر رخصت چاہی

گلناز کوثر

غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 43
کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
اُس کو سمجھاتے نہیں جا کے کسی دن ناصح
روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے
تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟
حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے
آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر
اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے
امیر مینائی

مجھے حیرت ہے تو حیرت ہی سہی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 181
وہ نظر آئنہ فطرت ہی سہی
مجھے حیرت ہے تو حیرت ہی سہی
زندگی داغ محبت ہی سہی
آپ سے دور کی نسبت ہی سہی
تم نہ چاہو تو نہیں کٹ سکتی
ایک لمحے کی مسافت ہی سہی
دل محبت کی ادا چاہتا ہے
ایک آنسو دم رخصت ہی سہی
آب حیواں بھی نہیں مجھ پہ حرام
زہر کی مجھ کو ضرورت ہی سہی
اپنی تقدیر میں سناٹا ہے
ایک ہنگامے کی حسرت ہی سہی
اس قدر شور طرب کیا معنی
جاگنے کی مجھے عادت ہی سہی
بزم رنداں سے تعلق کیسا
آپ کی میز پہ شربت ہی سہی
حد منزل ہے مقرر باقیؔ
رہرو شوق کو عجلت ہی سہی
باقی صدیقی