ٹیگ کے محفوظات: رخصت
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
رخصت
ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں
اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر آتا ہے
آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات
اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے
میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں
اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!
گہوارہ ءِ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات
اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات
رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی
تسکینِ دل و دیدہ ءِ گریاں نہیں ہوتی!
میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی
اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی
سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!
پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی
کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب
اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی
وارفتہ و آشفتہ و کاہیدہ ءِ غم ہیں
افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی
میں نالہ ءِ شب گیر کے مانند اٹھوں گا
فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا
تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا
گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری
عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!
ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس
اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس
مجھ سا کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں
مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس
مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے
دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس
بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی
تو جانتی ہے ورنہ وفا دار ہوں میں بھی!
ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت
اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت
ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر
اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت
تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی
یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی
مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں
تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں
کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں
آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں
او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ
تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!
اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ
مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب
کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں
تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات
یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب
بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے
دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت
یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے
دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو
تب کسی ناآشناے مہر سے الفت کرو
چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے
آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی
سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد
رنج و محنت کمال راحت ہے
رخصت
تھک گئیں آنکھیں، امیدیں سو گئیں، دل مر گیا
زندگی! عزمِ سفر کر، موت! کب آئے گی تو؟
آنسوؤ! آنکھوں میں اب آنے سے شرماتے ہو کیوں؟
تھی تمہی سے میرے داغِ آرزو کی آبرو!
اے کسی کے آستاں کو جانے والے راستے!
بخش دینا! میرا پائے شوق تھا سیماب خو
یہ ترا کتنا بڑا احسان ہے بادِ سحر!
عمر بھر کھیلی مری آہوں کے انگاروں سے تو
اے زمانے کے حسیں صیاد! کیا کہنا ترا
جاں گسل ہیں تیرے دامِ خوشنما کے تار و پو
آہ میری روح کو ڈسنے لگی ہے سانس سانس
اب میں رخصت چاہتا ہوں اے جہانِ رنگ و بو!
رخصت
صبح کی دستک
وال کلاک نے
ٓآنکھیں ملتے ملتے سنی تھی
کمرے کے ساکت سینے میں
آخری منظر
قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا
جلتی ہوئی سانسوں کے سائے
دیواروں سے لپٹے ہوئے تھے
میز کی چکنی سطح پہ رکھی
دو آوازیں پگھل رہی تھیں
دو خوابوں کی گیلی تلچھٹ
خالی گلاس میں جمی ہوئی تھی
وقت کی گٹھڑی سے کھسکائے
سارے لمحے
اِک اِک کر کے
بیت چکے تھے
چپ تھے دونوں
لیکن پھر بھی
سادہ سی خاموش نظر کے
پیچھے کہیں ہیجان چھپا تھا
سینے کی مدھم لرزش میں
مانو کوئی طوفان بپا تھا
رُوح کے اندر جیسے کوئی
جاتے لمحے کو
جتنوں سے روک رہا تھا
اور پھر اس نے رخصت چاہی
آخری پل کی آخری مہلت میں
جب بھری بھری نگہ سے
ایک ستارہ چھلک رہا تھا
میں نے بھی پھر رخصت چاہی