ٹیگ کے محفوظات: رخسار

میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رُخسار کا شہر

کوئی دیکھے تو سہی یارِ طرحدار کا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رُخسار کا شہر
دشتِ احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پہ تعمیر ہُوا پیار کا شہر
اُس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ
وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اَسرار کا شہر
میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں ‘ مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر
یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کانچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر
دل کا آفاق سمٹتا ہی چلا جاتا ہے
اور پھیلے گا کہاں تک در و دیوار کا شہر
مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
شکیب جلالی

پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں

عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقد ار یہاں
پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں
کشتیِ زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں
موج درموج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں
سرپٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ‘ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہد و پیمانِ وفا‘ پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں
ننگ و ناموس کے بکتے ہوئے انمول رتن
لَب و رخسار کے سجتے ہوئے بازار یہاں
سرخیِ دامنِ گُل کس کو میّسر آئی؟
اپنے ہی خوں میں نہائے لَب و رُخسار یہاں
ہم سفر چھوٹ گئے‘ راہنما رُوٹھ گئے
یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں
تیرگی ٹوٹ پڑی‘ زور سے بادل گرجا
بجھ گئی سہم کے قندیلِ رُخِ یار یہاں
کتنے طوفان اُٹھے‘ کتنے ستارے ٹوٹے
پھر بھی ڈُوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں
میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئے گی بہار
میں اگر مر بھی گیا وادیِ پُرخار! یہاں
شکیب جلالی

وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں
وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں
اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو
کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں
یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا
اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں
لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی
اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں
اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب
اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں
تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا
اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں
اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں
اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں
عرفان ستار

یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا

اب میں جو کہہ رہا ہوں یہ اشعار دیکھنا
یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا
پہلے تو ڈھونڈ روح کے آزار کی دوا
پھر آ کے اے طبیب یہ بیمار دیکھنا
جانے یہ کیسا شوق ہے مجھ کو کہ جاگ کر
شب بھر افق پہ صبح کے آثار دیکھنا
اب تک نہیں ہوا ہے تو کیا ہو سکے گا اب
یہ عمر جائے گی یونہی بے کار دیکھنا
اُس سمت دیکھنا ہی نہیں وہ ہو جس طرف
پھر جب وہ جاچکے تو لگاتار دیکھنا
ہے ایسا انہماک و توجہ نگاہ میں
اک بار دیکھنا بھی ہے سو بار دیکھنا
سب سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ ہے یہ
خود کو خود اپنے آپ سے بیزار دیکھنا
اندر سے ٹوٹتے ہوئے اک عمر ہو چکی
اب کچھ دنوں میں ہی مجھے مسمار دیکھنا
کچھ تو کھلے کہ کوئی وہاں ہے بھی یا نہیں
ہے کوئی، جا کے وقت کے اُس پار دیکھنا
ویسے تو سارا شہر ہی دام و درم کا ہے
ہم ذوق مل ہی جائیں گے دوچار دیکھنا
وحشت میں جانے کون سی جانب گیا ہے وہ
اے میرے بھائی دیکھنا، اے یار دیکھنا
کیا مجھ پہ رونے والا نہیں ہے کوئی، ارے
وہ آرہے ہیں میرے عزادار دیکھنا
کوئی گیا ہے مجھ کو یہی کام سونپ کر
در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
شاعر ہو تم، نہ دیکھنا دنیا کا حالِ زار
تم بس خیالی گیسو و رخسار دیکھنا
گو آندھیوں کی زد میں رہا ہوں تمام عمر
سر سے مگر گری نہیں دستار، دیکھنا
اپنی روایتوں کا کہاں تک منائیں سوگ
اب وقت جو دکھائے سو ناچار دیکھنا
دل اُوب سا گیا ہے اکیلے میں دوستو
میرے لیے کہیں کوئی دلدار دیکھنا
مضمون ہو نیا یہ ضروری نہیں میاں
ہاں شاعری میں ندرتِ اظہار دیکھنا
کوئی تسلی، کوئی دلاسا مرے لیے
جانے کہاں گئے مرے غم خوار دیکھنا
اے عاشقانِ میر کہاں جامرے ہو سب
غالب کے بڑھ گئے ہیں طرف دار، دیکھنا
زریون، یار دیکھ یہ عرفان کی غزل
عارف امام، بھائی یہ اشعار دیکھنا
عرفان ستار

بال چاندی ہو گئے سونا ہوے رخسار بھی

رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے سونا ہوے رخسار بھی
درد کے جھونکوں نے اب کے دل ہی ٹھنڈا کر دیا
آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خونبار بھی
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں بیتاب ہو جاتا ہے دل
پوچھتے کیا ہو میاں اچھا بھی ہوں بیمار بھی
شوقِ آزادی لیے جاتا ہے عالم سے پرے
روکتی ہے ہر قدم آوازِ پائے یار بھی
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش تھے پردے میں دنیادار بھی
کس طرح گزرے گا ناصر فرصتِ ہستی کا دن
جم گیا دیوار بن کر سایۂ دیوار بھی
ناصر کاظمی

وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 49
زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں
وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں
اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو
کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں
یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا
اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں
لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی
اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں
اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب
اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں
تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا
اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں
اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں
اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں
عرفان ستار

ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 37
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب
لا و نَعَم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے، اقرار سے حجاب
تقلیدِ شکل چاہئے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب
دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب
رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب
وہ طعنہ زن ہے زندگیِ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب
جوشِ نگاہِ دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب
روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب
مصطفٰی خان شیفتہ

دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 113
آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
خانہ ویراں سازئ حیرت! تماشا کیجیئے
صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست
عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے
کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست
چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے
یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست
یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہےآپ
ہے ردیف شعر میں غالب! ز بس تکرارِ دوست
مرزا اسد اللہ خان غالب

سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک

دیوان چہارم غزل 1420
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک
مرتے ہی سنا ان کو جنھیں دل لگی کچھ تھی
اچھا بھی ہوا کوئی اس آزار سے اب تک
جب سے لگی ہیں آنکھیں کھلی راہ تکے ہیں
سوئے نہیں ساتھ اس کے کبھو پیار سے اب تک
آیا تھا کبھو یار سو مامول ہم اس کے
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے اب تک
بدعہدیوں میں وقت وفات آن بھی پہنچا
وعدہ نہ ہوا ایک وفا یار سے اب تک
ہے قہر و غضب دیکھ طرف کشتے کے ظالم
کرتا ہے اشارت بھی تو تلوار سے اب تک
کچھ رنج دلی میر جوانی میں کھنچا تھا
زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے اب تک
میر تقی میر

حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ

دیوان سوم غزل 1122
حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ
حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ
آرزومند ہے خورشید میسر ہے کہاں
کہ تنک ٹھہرے ترے سایۂ دیوار کے بیچ
کیا کہیں ہم کہ گلے ڈالے پھریں مستی میں
دانے سبحہ کے پرو رشتۂ زنار کے بیچ
رشک خوبی کا اسی کے جگرمہ میں ہے داغ
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے بیچ
مل گیا پھولوں میں اس رنگ سے کرتے ہوئے سیر
کہ تامل کیے پایا اسے گلزار کے بیچ
قدر گو تم نہ کرو میری متاع دل کی
جنس لگ جاوے گی یہ بھی کسو سرکار کے بیچ
گرد سررفتہ ہیں اے میر ہم اس کشتے کے
رہ گیا یار کی جو ایک ہی تلوار کے بیچ
میر تقی میر

یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے

دیوان دوم غزل 1006
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے
شمس و قمر کے دیکھے جی اس میں جا رہے ہے
اس دل فروز کے بھی رخسار ایسے ہی تھے
دامن کے پاٹ سارے تختے ہوئے چمن کے
بس اے سرشک خونیں درکار ایسے ہی تھے
لوہو نہ کیوں رلائے ان کا گداز ہونا
یہ دل جگر ہمارے غم خوار ایسے ہی تھے
ہر دم جراحت آسا کب رہتے تھے ٹپکتے
یہ دیدئہ نمیں کیا خوں بار ایسے ہی تھے
آزاردہ دلوں کا جیسا کہ تو ہے ظالم
اگلے زمانے میں بھی کیا یار ایسے ہی تھے
ہو جائے کیوں نہ دوزخ باغ زمانہ ہم پر
ہم بے حقیقتوں کے کردار ایسے ہی تھے
دیوار سے پٹک سر میں جو موا تو بولا
کچھ اس ستم زدہ کے آثار ایسے ہی تھے
اک حرف کا بھی ان کو دفتر ہے کر دکھانا
کیا کہیے میر جی کے بستار ایسے ہی تھے
میر تقی میر

تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس

دیوان دوم غزل 822
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس
دردمندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس
چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھاکر اتندی
بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس
خندہ و چشمک و حرف و سخن زیرلبی
کہیے جو ایک دو افسون ہوں دلدار کے پاس
داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے
یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس
در گلزار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں
یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس
کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم
ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس
دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس
مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آکر
خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس
جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں
یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس
ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد
ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس
نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی
اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس
اختلاط ایک تمھیں میر ہی غم کش سے نہیں
جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دوچار کے پاس
میر تقی میر

جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ

دیوان دوم غزل 792
آتی ہے خون کی بو دوستی یار کے بیچ
جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ
حیف وہ کشتہ کہ سو رنج سے آوے تجھ تک
اور رہ جائے تری ایک ہی تلوار کے بیچ
گرچہ چھپتی نہیں ہے چاہ پہ رہ منکر پاک
جی ہی دینا پڑے ہے عشق کے اقرار کے بیچ
نالہ شب آوے قفس سے تو گل اب اس پہ نہ جا
یہی ہنکار سی ہے مرغ گرفتار کے بیچ
انس کرتا تو ہے وہ مجھ کو خردباختہ جان
جیت میں اپنی نکالی ہے اسی ہار کے بیچ
چال کیا کبک کی اک بات چلی آتی ہے
لطف نکلے ہیں ہزاروں تری رفتار کے بیچ
تو جو جاتا ہے چمن میں تو تماشے کے لیے
موسم رفتہ بھی پھر آوے ہے گلزار کے بیچ
داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
گھٹّے شمشیرزنی سے کف نازک میں ہیں
یہ جگرداری تھی کس خوں کے سزاوار کے بیچ
توبہ صد بار کہ مستی میں پرو ڈالے ہیں
دانے تسبیح کے میں رشتۂ زنار کے بیچ
حلقۂ گیسوے خوباں پہ نہ کر چشم سیاہ
میر امرت نہیں ہوتا دہن مار کے بیچ
میر تقی میر

گل سرخ اک زرد رخسار تھا

دیوان دوم غزل 756
چمن بھی ترا عاشق زار تھا
گل سرخ اک زرد رخسار تھا
گئی نیند شیون سے بلبل کی رات
کہیں دل ہمارا گرفتار تھا
قد یار کے آگے سرو چمن
کھڑا دور جیسے گنہگار تھا
یہی جنس دل کی گراں قدر تھی
ولے جب تلک تو خریدار تھا
بہت روئے ہم شبنم و گل کو دیکھ
کہ چسپاں ہمیں بھی کہیں پیار تھا
مجھے اے دل چاک کیا شانہ سا
کسو زلف سے کچھ سروکار تھا
گیا میر یاں سے کروگے جو یاد
کہو گے کہ مسکیں عجب یار تھا
میر تقی میر

سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک

دیوان اول غزل 255
ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک
سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک
رنگینی عشق اس کے ملے پر ہوئی معلوم
صحبت نہ ہوئی تھی کسی خونخوار سے اب تک
کب سے متحمل ہے جفائوں کا دل زار
زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک
ابرو ہی کی جنبش نے یہ ستھرائو کیے ہیں
مارا نہیں ان نے کوئی تلوار سے اب تک
وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ
پر دل نہیں خالی غم دیدار سے اب تک
مدت ہوئی گھٹ گھٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک
برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک
اک دود سا اٹھتا ہے چمن زار سے اب تک
کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے
پوچھا نہیں ان نے تو ہمیں پیار سے اب تک
اس باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو
یوں نالہ کسو مرغ گرفتار سے اب تک
خط آئے پہ بھی دن ہے سیہ تم سے ہمارا
جاتا نہیں اندھیر یہ سرکار سے اب تک
نکلا تھا کہیں وہ گل نازک شب مہ میں
سو کوفت نہیں جاتی ہے رخسار سے اب تک
دیکھا تھا کہیں سایہ ترے قد کا چمن میں
ہیں میر جی آوارہ پری دار سے اب تک
میر تقی میر

کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 32
صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون
شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون
رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون
پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون
فیض احمد فیض

ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 22
فکر دلداریء گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصہء سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوہء یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں
گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں
ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیء گفتار کروں یا نہ کروں
نذرِ سودا
فیض احمد فیض

دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 260
ہونٹوں بھری رکھ دی درِ انکارِ پہ دستک
دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک
اک شام پلٹ آئے ہیں یہ بات الگ ہے
دی پاؤں نے برسوں رہِ پُر خار پہ دستک
پھر رات کی رانی کا محل سامنے مہکے
پھر صبح کی چڑیوں بھری چہکار پہ دستک
کاندھے پہ کوئی بھیدوں بھری پوٹلی رکھ کر
دیتا ہے پھر امکان ابد زار پہ دستک
دم بھر کو نئی صبح کا اعلانیہ سن کر
دی اہلِ قفس نے گل و گلزار پہ دستک
بازار سے گزرا تو چہکتی ہوئی رت کی
تصویر نے دی جیبِ خریدار پہ دستک
کچھ ہاتھ کہیں اور سے آیا ہی نہیں ہے
دینا پڑی پھر عرشِ کرم بار پہ دستک
ممکن ہے ملاقات ہو آسیبِ بدن سے
اچھی طرح دے کمرئہ اسرار پہ دستک
ہے فرض یہی تجھ پہ یہی تیری عبادت
دے خاک نسب ! خانہء سیار پہ دستک
درویش فقیری ہی کہیں بھول نہ جائے
یہ کون ہے دیتا ہے جو پندار پہ دستک
وہ دیکھیے دینے لگا پھر اپنے بدن سے
اک تازہ گنہ، چشم گنہگار پہ دستک
اٹھ دیکھ کوئی درد نیا آیا ہوا ہے
وہ پھر ہوئی دروازئہ آزار پہ دستک
دشنام گلابوں کی طرح ہونٹوں پہ مہکیں
درشن کے لیے دے درِ دلدار پہ دستک
برسوں سے کھڑا شخص زمیں بوس ہوا ہے
یہ کیسی سمندر کی تھی کہسار پہ دستک
پانی مجھے مٹی کی خبر دینے لگے ہیں
اک سبز جزیرے کی ہے پتوار پہ دستک
افسوس ضروری ہے مرا بولنا دو لفظ
پھر وقت نے دی حجرۂ اظہار پہ دستک
مایوسی کے عالم میں محبت کا مسافر
در چھوڑ کے دینے لگا دیوار پہ دستک
دی جائے سلگتی ہوئی پُر شوق نظر سے
کچھ دیر تو اس کے لب و رخسار پہ دستک
اب اور گنی جاتی نہیں مجھ سے یہ قبریں
اب دینی ضروری ہے کسی غار پہ دستک
منصور بلایا ہے مجھے خواب میں اس نے
دی نیند نے پھر دیدۂ بیدار پہ دستک
منصور آفاق

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق