ٹیگ کے محفوظات: رحمت

ایسے موسم میں جو خواب آئیں غنیمت جانو

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 43
جب ہوا تک یہ کہے ، نیند کو رخصت جانو
ایسے موسم میں جو خواب آئیں غنیمت جانو
جب تک اُس سادہ قبا کو نہیں چھونے پاتی
موجہ ءِ رنگ کا پندار سلامت جانو
جس گھروندے میں ہَوا آتے ہُوئے کترائے
دھوپ آ جائے تو یہ اُس کی مروّت جانو
دشتِ غربت میں جہاں کوئی شناسا بھی نہیں
اَبر رُک جائے ذرا دیر تو رحمت جانو
منہ پہ چھڑکاؤ ہو ، اندد سے جڑیں کاٹی جائیں
اُس پہ اصرار ، اسے عین محبّت جانو
ورنہ یوں طنز کا لہجہ بھی کِسے ملتا ہے
اُن کا یہ طرزِ سخن خاص عنایت جانو۔۔۔
پروین شاکر

کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں

دیوان دوم غزل 876
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں
سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرو لاتا نہیں ہرگز
وگرنہ مان جاتا تھا کہاں تھوڑی سی منت میں
گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اٹھ اٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پائوں کی طاقت میں
تحمل ہوسکا جب تک بدن میں تاب و طاقت تھی
قیامت اب گذر جاتی ہے جی پر ایک ساعت میں
عجب کیا ہے جو یاران چمن کو ہم نہ پہچانیں
رہائی اتفاق اپنی پڑی ہے ایک مدت میں
سلاتا تیغ خوں میں گر نہ میرے تو قیامت تھی
اٹھا تھا روز محشر کا سا فتنہ رات صحبت میں
کوئی عمامہ لے بھاگا کنھوں نے پیرہن پھاڑا
بہت گستاخیاں یاروں نے کیں واعظ کی خدمت میں
ملا تیوری چڑھائے تو لگا ابرو بھی خم کرنے
موثر کچھ ہوا سر مارنا محراب طاعت میں
قدم پر رکھ قدم اس کے بہت مشکل ہے مر جانا
سرآمد ہو گیا ہے میر فن مہر و الفت میں
میر تقی میر

رنج و محنت کمال راحت ہے

دیوان اول غزل 583
نالۂ عجز نقص الفت ہے
رنج و محنت کمال راحت ہے
عشق ہی گریۂ ندامت ہے
ورنہ عاشق کو چشم خفت ہے
تا دم مرگ غم خوشی کا نہیں
دل آزردہ گر سلامت ہے
دل میں ناسور پھر جدھر چاہے
ہر طرف کوچۂ جراحت ہے
رونا آتا ہے دم بدم شاید
کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے
فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں
قد و قامت ترا قیامت ہے
نہ تجھے رحم نے اسے ٹک صبر
دل پہ میرے عجب مصیبت ہے
تو تو نادان ہے نپٹ ناصح
کب موثر تری نصیحت ہے
دل پہ جب میرے آ کے یہ ٹھہرا
کہ مجھے خوش دلی اذیت ہے
رنج و محنت سے باز کیونکے رہوں
وقت جاتا رہے تو حسرت ہے
کیا ہے پھر کوئی دم کو کیا جانو
دم غنیمت میاں جو فرصت ہے
تیرا شکوہ مجھے نہ میرا تجھے
چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو میخانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے
ایسے ہنس مکھ کو شمع سے تشبیہ
شمع مجلس کی رونی صورت ہے
باطل السحر دیکھ باطل تھے
تیری آنکھوں کا سحر آفت ہے
ابرتر کے حضور پھوٹ بہا
دیدئہ تر کو میرے رحمت ہے
گاہ نالاں طپاں گہے بے دم
دل کی میرے عجب ہی حالت ہے
کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی
عاقبت قصۂ محبت ہے
تربت میر پر ہیں اہل سخن
ہر طرف حرف ہے حکایت ہے
تو بھی تقریب فاتحہ سے چل
بخدا واجب الزیارت ہے
میر تقی میر

چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا

دیوان اول غزل 5
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوار وعدئہ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میر پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا
میر تقی میر

پھر وہی قوسِ قزح جیسی مصیبت ہو گی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 469
دستکیں کہتی ہیں پھر وہی قیامت ہو گی
پھر وہی قوسِ قزح جیسی مصیبت ہو گی
اگلا پھر بے بسی کا ہو گا وزیرِ اعظم
اگلی پھر بے کسی کی کوئی حکومت ہو گی
پھر غلط بول پڑے اپنے ذرائع ابلاغ
میڈیا والوں کی پھر ایک ضیافت ہو گی
پھر ہمیں فول بنائیں گے ہمارے ہیرو
پھر نیا قصہ ء غم پھرنئی آفت ہو گی
ریٹ ڈالر کا بڑھا دیں گے فرشتے منصور
پھر کسی کوٹھی پہ اللہ کی رحمت ہو گی
منصور آفاق

رحمت

پانی دے قطرے

جے اک دوجے توں نکھڑن

تے امبراں توں

اتری بارش داناں پاون

امبراں اتوں لتھی ہوئی رحمت اکھواون

پر ایہہ گن تے

اوس ائی پانی نوں لبھدا اے

جیہرا چیاناں دے اپر پجیا ہووے

اوہ پانی

جیہڑا زمیں دے ویہڑے ائی

جھنکاں بن جاوے

وسو اس پانی نوں تسی

کیہڑی رحمت داناں دلیسو

ماجد صدیقی (پنجابی کلام)