ٹیگ کے محفوظات: رانی

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
منظر کی تزئین میں ’مانی‘ جیسا ہے
ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے
آنکھ میں اُس کے لبوں کا وداعی سنّاٹا
ہاتھ میں مُندری کی سی نشانی جیسا ہے
رہبروں کے غبارے پھٹنے پر اپنا
عالم بّچوں کی حیرانی جیسا ہے
جس کی قبر کو ڈھانپنے تاج محل اُبھرے
وہ بے مثل ہے کون اُس رانی جیسا ہے
ہونٹ سِلے ہیں گویا بل بل ماتھے کا
تن میں ابلتا خوں طغیانی جیسا ہے
قّصہ اپنے ہاں کے سبھی منصوبوں کا
طوطے اور مَینا کی کہانی جیسا ہے
اُس چنچل کا قرب ہمیشہ کب حاصل
پل دو پل کا ساتھ جوانی جیسا ہے
اِس قطرے میں جانے الاؤ کیا کیا ہیں
آنکھ میں آنسو یوں تو پانی جیسا ہے
ماجدؔ تیرا فکر امینِ توانائی
اور سخن دریا کی روانی جیسا ہے
ماجد صدیقی

یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
دُھوئیں کی دُھول کی ہر سمت ہے وُہ طغیانی
یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی
بہ دوشِ ابر بھی کب اِس قدر فراواں ہے
رُکا ہوا پسِ مژگاں ہے جس قدر پانی
وفا و قرض کے مکر و ریا کے پتّوں سے
چھپائے آج بھی انسان تن کی عُریانی
یہاں ہے جو بھی شہِ وقت، سوچتا ہے یہی
نہیں ہے اُس کا تہِ آسماں کوئی ثانی
غزل سرا ہوں کہ ماجدؔ طوالتِ شب میں
ادا کرے ہے یہی فرض رات کی رانی
ماجد صدیقی

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 66
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 153
ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی
جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بےکیف تھا میں
جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی
جب اُس نے مجھ سے کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی
جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی رُوداد یہ ہے
اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی
اُلجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
میرا مزاجِ عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی
اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی
نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
اس کو دیکھ کے رُک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی
مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی
عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
لمحے لافانی ٹھیرے تھے قطروں کی طغیانی تھی
جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفان سمجھا تھا
وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی
تھا دربارِ کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی
جون ایلیا