ٹیگ کے محفوظات: دے

دن مجھے بھی کوئی تو دے ایسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
عرش قدموں میں ہو، لگے ایسا
دن مجھے بھی کوئی تو دے ایسا
مجھ سے بھی ہیں قرابتیں اُس کی
کاش وہ شخص بھی کہے ایسا
جس سے میرا بدن دو نِیم ہوا
وار دوراں نہ پھر کرے ایسا
دل یہ کہتا ہے خِرمن خواہش
راکھ بن کر اُڑے، جلے ایسا
جس سے واضح ہو وحشتِ انساں
کوئی نکلا نہ ایکسرے ایسا
ہو تاسّف پہ ختم جو ماجدؔ
مول خطرہ کوئی نہ لے ایسا
ماجد صدیقی

شجر مشکل سے اب کوئی پھلے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
چمن پر راج پت جھڑ کا رہے گا
شجر مشکل سے اب کوئی پھلے گا
چڑھا ہے سر پہ بپھرے شیر کے جو
پچھاڑے گا اُسے یا جان دے گا
مسلسل کُند ٹھہریں گر اُمنگیں
تو پھر یہ دل بغاوت بھی کرے گا
نہیں تن پر لگا جھکنے کی خاطر
یہ سر اب اوج پر ہی جا سجے گا
خموشی ہے سمندر میں تو جانو
اَب اِس کے بعد طوفاں ہی اُٹھے گا
لُٹے برگ و ثمر ہی جب تو ماجدؔ!
شجر کے پاس کیا باقی رہے گا
ماجد صدیقی

لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یہ دورِ کرب جو بھی کہے سو کہے مجھے
لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے
جس موج کو گلے سے لگاتا ہوں بار بار
ایسا نہ ہو یہ موجِ الم لے بہے مجھے
میں خود ہی کھِل اُٹھوں گا شگفتِ بہار پر
موسم یہ ایک بار سنبھالا تو دے مجھے
سایہ ہوں اور رہینِ ضیا ہے مرا وجود
سورج کہیں نہ ساتھ ہی لے کر ڈھلے مجھے
ماجدؔ ہو کوئی ایسی تمّنا کہ رات دن
بادِ صبا کے ساتھ اُڑاتی پھرے مجھے
ماجد صدیقی

کہ قفس میں تنگ آ کر مرے اور ہیں ارادے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 4
مجھے پھول صبر کر لیں مجھے باغباں بھلا دے
کہ قفس میں تنگ آ کر مرے اور ہیں ارادے
مرے بعد گر کے بجلی نہ قفس میں دل دکھا دے
مجھے قید کرنے والے مرا آشیاں جلا دے
میرا منہ کفن سے کھولا مجھے دیکھ کر وہ بولے
یہ نیا لباس کیوں ہے یہ کہاں ے ہیں ارادے
میں قفس میں مطمئن ہوں کہ سمجھ لیا ہے میں نے
یہ چمن نہیں کہ بجلی مرا آشیاں جلا دے
مجھے پھول سے زیادہ ہے قفس میں یادِ شبنم
جو چمن میں چار آنسو مِرے نام پر بہا دے
نہیں ہم ہی جب چمن میں تو چمن سے پھر غرض کیا
کوئی پھول توڑ ڈالے کوئی آشیاں جلا دے
مری زندگی ہی کیا ہے میں چراغِ رہگزر ہوں
جسے اک ہوا کا جھونکا ابھی آئے ابھی بجھا دے
وہ ہر اک سے پوچھتے ہیں کہ فدا ہے کیوں زمانہ
انہیں حسن کی خبر کیا کوئی آئینہ دکھا دے
تجھے خود خبر ہے ظالم کہ جہانِ رنگ و بو میں
ترے حسن کے ہیں چرچے مرے عِشق کو دعا دے
شبِ ہجر بات جب ہے کہ قمر کو وہ نالے
کوئی توڑ دے ستارے کوئی آسماں ہلا دے
قمر جلالوی

کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 142
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
جون ایلیا

ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 49
وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دِکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے
پلا دے اوک سے ساقی ، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا ، نہ دے شراب تو دے
اسدؔ ! خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے
کہا جو اُس نے ، ”ذرا میرے پاؤں داب تو دے“
مرزا اسد اللہ خان غالب

تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 403
کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں
عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے
نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں
اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری
نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں
بس اس خیال سے منزل پہن لی پاؤں نے
ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں
تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے
یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں
اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں
گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں
ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا
ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں
کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں
ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں
ہر اک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں
تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں
ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں
ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے
کیے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں
کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے
تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں
ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں
بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں
اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی
کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں
بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے
بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں
بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی
کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں
دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں
منصور آفاق

بیج دعاواں دے، کد چھیتی پھُلدے نیں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 69
عمراں تیکن، وچ ریتاں دے رُلدے نیں
بیج دعاواں دے، کد چھیتی پھُلدے نیں
اکھ شیشہ وی، ایہہ گل دَسنوں عاری اے
بُلھیاں اوہلے، کی کی جھکھڑ جُھلدے نیں
نشتراں ورگیاں گلاں، کنّیں پَین پیّاں
سینیاں دے وچ، بَجھے پھَٹ پئے کھلُدے نیں
بھلکے، ایس ائی گل تے، نک مُنہ چاڑھن گے
جیہڑی گل تے، اج پئے لوکی ڈُلھدے نیں
ویلا، وڈھیاں تارے، پُھٹدیاں ڈُساں نُوں
جھڑدے پتر، سنگ مِٹیاں دے، تُلدے نیں
بندہ گُن گاوندا اے، پِچھلیاں رُتّاں دے
آوندے موسم، اگلے ورقے تُھلدے نیں
کھِنڈ کے صفحیاں تے، کُجھ گولے جان پئے
اُنج ماجدُ، ایہہ اتھرو، کیہڑے مُل دے نیں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

دل ساڈے وچ بھانبڑ بلدے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 31
تیریاں ہاسیاں وچ پھُل پَلدے
دل ساڈے وچ بھانبڑ بلدے
لکھ تدبیراں، اک دُکھ تیرا
تِیلیاں توں کد دریا ٹھلدے
موم دیاں کئی مورتاں اج وی
وحشی، پیراں دے وچ ملدے
کتھے اوہ مہینوال تے رانجھے
یار دے ناں تے، تن من سَلدے
کی ہوئیاں، اوہ سسیاں تسیاں
کتھے گئے، اوہ پنوں تھل دے
نظراں توں کس کھوہ لئے ماجدُ
اوہ سنہیوڑے، اک اک پل دے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)