ٹیگ کے محفوظات: دی

تا ابد دھوم مچ گئی میری

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

رات نیند آ گئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آ گئی درختوں میں
چاند نکلا اُفق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مینہ جو برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں
ہم اِدھر گھر میں ہو گئے بے چین
دُور آندھی چلی درختوں میں
لیے جاتی ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجنبی درختوں میں
کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دُور
جا کے دیکھو کبھی درختوں میں
نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں
خوشبوؤں کی اُداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
دیر تک اُس کی تیز آنکھوں سے
روشنی سی رہی درختوں میں
چلتے چلتے ڈگر اُجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں
سہمے سہمے تھے رات اہلِ چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں
ناصر کاظمی

دبنے والی نہیں مری آواز

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
کیا ہے مدّھم اگر پڑی آواز
دبنے والی نہیں مری آواز
تیری نظریں کہ آبشار گرے
میرا دامن کہ گونجتی آواز
یوں ہُوا ہے کہ ذکر سے تیرے
تیرے پیکر میں ڈھل گئی آواز
ہائے کس جذبۂ جواں سے ہے
نکھری نکھری دُھلی دھُلی آواز
کوئی غنچہ چٹک رہا ہو گا
تھی توانا بھری بھری آواز
نامُرادی کا کیا گلہ ماجدؔ
ہم نے اُٹھنے ہی جب نہ دی آواز
ماجد صدیقی

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

نیند نے آنکھ پہ دستک دی تھی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 84
جانے پھر اگلی صدا کِس کی تھی
نیند نے آنکھ پہ دستک دی تھی
موج در موج ستارے نکلے
جھیل میں چاند کرن اُتری تھی
پریاں آئی تھیں کہانی کہنے
چاندنی رات نے لوری دی تھی
بات خوشبو کی طرح پھیل گئی
پیرہن میرا ، شِکن تیری تھی
آنکھ کو یاد ہے وہ پَل اب بھی
نیند جب پہلے پہلے ٹوٹی تھی
عشق تو خیر تھا اندھا لڑکا
حسن کو کون سی مجبوری تھی
کیوں وہ بے سمت ہُوا جب میں نے
اُس کے بازو پہ دُعا باندھی تھی
پروین شاکر

شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 144
حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی
بعد بھی تیرے جانِ جاں ، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تیری یہاں ، پھر تیری یاد بھی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے ، عمر گزار دی گئی
اس کے وصال کے لئے ، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل، کہ تھی خراب،اور خراب کی گئی
تیرا فراق جانِ جاں ، عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
جون ایلیا

میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی

دیوان چہارم غزل 1497
ان حنائی دست و پا سے دل لگی سی ہے ابھی
میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی
ہاتھ دل پر زور سے اپنے نہ رکھا چاہیے
چاک کی چھاتی مری جراح نے سی ہے ابھی
ایک دم دکھلائی دیتا بھی تو مرتے آ کہیں
شوق سے آنکھوں میں کوئی دم مرا جی ہے ابھی
دیکھیں اک دو دم میں کیونکر تیغ اس کی ہو بلند
کوئی خوں ریز ان نے اپنی میان سے لی ہے ابھی
کس طرح ہوں معتقد ہم اتقاے شیخ کے
صبح کو رسم صبوحی سے تو مے پی ہے ابھی
آگے کب کب اٹھتے تھے سنّاہٹے سے باغ میں
طرز میرے نالے کی بلبل نے سیکھی ہے ابھی
زیر دیوار اس کے کس امید پر تو میر ہے
ایک دو نے جان اس دروازے پر دی ہے ابھی
میر تقی میر

کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت

دیوان سوم غزل 1118
کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت
کعبۂ مقصود کو پہنچے نہ ہائے
سعی کی اے شیخ ہم نے بھی بہت
سب ترے محو دعاے جان ہیں
آرزو اپنی بھی ہے تو جی بہت
رک رہا ہے دیر سے تڑپا نہیں
عشق نے کیوں دل کو مہلت دی بہت
کیوں نہ ہوں دوری میں ہم نزدیک مرگ
دل کو اس کے ساتھ الفت تھی بہت
وہ نہ چاہے جب تئیں ہوتا ہے کیا
جہد کی ملنے میں اپنی سی بہت
کب سنا حرف شگون وصل یار
یوں تو فال گوش ہم نے لی بہت
تھا قوی آخر ملے ہم خاک میں
آسماں سے یوں رہی کشتی بہت
آج درہم کرتے تھے کچھ گفتگو
میر نے شاید کہ دارو پی بہت
میر تقی میر

سپاس ایزد کے کرجن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے

دیوان دوم غزل 1043
نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جا دی ہے
سپاس ایزد کے کرجن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے
نہیں ٹک بیٹھنے دیتے تم اپنی بزم میں ہم کو
مروت رسم تھی مدت کی سو تم نے اٹھا دی ہے
رہائی چنگل باز فلک سے مجھ کو مشکل تھی
مری یہ بند چڑیا کی سی مولا نے چھڑا دی ہے
گلی میں اپنی قدغن کر رکھو آنے نہ پائوں میں
کہیں کیا اور بھی دل کے لگانے کی منادی ہے
طپش سے رنگ اڑا جاوے قلق سے جان گھبراوے
دیا ہے دل الٰہی ہم کو یا کوئی بلا دی ہے
درگلزار پیش از صبح وا اے باغباں مت کر
اڑا لیتی ہے مٹی بھی صبا اک چور بادی ہے
کوئی صورت نہیں اس گھر سے اب تیرے نکلنے کی
قیامت کی ہے جن نے آرسی تجھ کو دکھا دی ہے
مجھے منظور کیا ہے زلف و خال و خط خوباں سے
خدا نے دیکھنے کی لت سی آنکھوں کو لگا دی ہے
کجی ذہن اس وادی میں گمراہی کی ہے باعث
سلیم الطبع کو تو پائوں کا ہر نقش ہادی ہے
لگا رہتا ہے سینے ہی سے بیٹھا ہوں کہ سوتا ہوں
غرض چھاتی مری داغ جدائی نے جلا دی ہے
نہ چھوٹا دل میں کچھ اس کے گئے پر غارت غم سے
ہزار افسوس کیا بستی محبت نے لٹا دی ہے
نہ کٹتی ٹک نہ ہوتی گر فقیری ساتھ الفت کے
ہمیں جب ان نے گالی دی ہے تب ہم نے دعا دی ہے
ہوئی ہے دل کی محویت سے یکساں یاں غم و فرحت
نہ ماتم مرنے کا ہے میر نے جینے کی شادی ہے
میر تقی میر

اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ

دیوان دوم غزل 847
کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ
اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ
گلشن بھرا ہے لالہ و گل سے اگرچہ سب
پر اس بغیر اپنے تو بھائیں لگی ہے آگ
پائوں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہ عشق میں گویا دبی ہے آگ
جل جل کے سب عمارت دل خاک ہو گئی
کیسے نگر کو آہ محبت نے دی ہے آگ
اب گرم و سرد دہر سے یکساں نہیں ہے حال
پانی ہے دل ہمارا کبھی تو کبھی ہے آگ
کیونکر نہ طبع آتشیں اس کی ہمیں جلائے
ہم مشت خس کا حکم رکھیں وہ پری ہے آگ
کب لگ سکے ہے عشق جہاں سوز کو ہوس
ماہی کی زیست آب سمندر کا جی ہے آگ
روز ازل سے آتے ہیں ہوتے جگر کباب
کیا آج کل سے عشق کی یارو جلی ہے آگ
انگارے سے نہ گرتے تھے آگے جگر کے لخت
جب تب ہماری گود میں اب تو بھری ہے آگ
یارب ہمیشہ جلتی ہی رہتی ہیں چھاتیاں
یہ کیسی عاشقوں کے دلوں میں رکھی ہے آگ
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
میر تقی میر

میری بستی کسی صحرا میں بسادی گئی کیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 76
وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اُٹھا دی گئی کیا
میری بستی کسی صحرا میں بسادی گئی کیا
وہی لہجہ ہے مگر یار ترے لفظوں میں
پہلے اک آگ سی جلتی تھی‘ بجھا دی گئی کیا
جو بڑھی تھی کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے
میں یہیں ہوں تو وہی موج بہادی گئی کیا
پاؤں میں خاک کی زنجیر بھلی لگنے لگی
پھر مری قید کی میعاد بڑھادی گئی کیا
دیر سے پہنچے ہیں ہم دور سے آئے ہوئے لوگ
شہر خاموش ہے‘ سب خاک اُڑا دی گئی کیا
عرفان صدیقی

سچ ائی کہن سیانے، جے کُتیاں نوں، کھیر نہ پچدی اے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 92
مُڑ مُڑ اکو ایہا گل، ایتک پئی ہوٹھیں نچدی اے
سچ ائی کہن سیانے، جے کُتیاں نوں، کھیر نہ پچدی اے
کھیڈ وی اودھر پُگدی پئی اے، ایدھر دل وی کِریا اے
جس گاٹی لئی کراں دعاواں، اوہ گاٹی کد بچدی اے
جیہڑی گل جِتھوں سُندا واں، اوہ ائی رَت کھولاندی اے
کنّاں دے وچ اِنج لگدا اے، زہر جیہی پئی رچدی اے
سُکھ سدھراں دی جیہڑی صورت، کِیریاں نوں پُج آوندی سی
کیہ کہئیے جے اوہ ائی صورت، پینچاں نوں نئیں جچدی اے
باہروں نہ سہئی اندروں تے، بندہ نِت سولی چڑھدا اے
ہاں ہاں ایہو انت سزا، اکھیاں وچ نچدے سچ دی اے
سَو سَو تھانووں ٹُٹ ٹُٹ جاوے، اِک اِک درد اڑانے توں
کیہ آکھاں جے ماجدُ ایہہ دل، چُوڑی کیہڑے کچ دی اے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)