پلکوں کے نشیلے سایے میں مے خانے ہی مے خانے ہیں
جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں پیمانے ہی پیمانے ہیں
ان سہمی سہمی آنکھوں میں سُرخی ہے مدھر آشاؤں کی
ان اُلجھی اُلجھی سانسوں میں افسانے ہی افسانے ہیں
اُلفت کے سودے کون کرے، نفرت کی جھولی کون بھرے
ہم کاروباری دنیا میں بیگانے ہی بیگانے ہیں
جب موسمِ گُل کی آمد تھی دنیا نے پسارے تھے دامن
اب موسمِ گُل کی رخصت پر دیوانے ہی دیوانے ہیں
تاریک بگولے رقصاں ہیں اک خول چڑھا ہے کرنوں پر
مایوس دلوں کو کیا کہیے، غم خانے ہی غم خانے ہیں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے، ہر ڈال سے موتی بِین لیے
اب کھیت سنہری کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
کوئی جو انھیں اپنا لیتا بَن باس نہ لیتے دیوانے
آباد گھروندوں میں اے دل بیگانے ہی بیگانے ہیں
شکیب جلالی