ٹیگ کے محفوظات: دیوانہ

اب شمع بکف پھرتا ہے دیوانہِ مہتاب

اوجھل ہوا نظروں سے ضیا خانہِ مہتاب
اب شمع بکف پھرتا ہے دیوانہِ مہتاب
بخشی ہیں تحیّر کی نگاہوں کو پناہیں
دائم رہے آباد صنم خانہِ مہتاب
ڈھونڈے نہ ملی جاے سکُوں قریہِ شب میں
کاندھے پہ اٹھائے پھرے کاشانہِ مہتاب
پھِر اُڑنے لگے گیسوے غم دوشِ فضا پر
پھر کوئی چھلکتا ہوا پیمانہِ مہتاب
شمعیں نہ بھڑک اٹھیں شبستانِ جنوں کی
ہم کہتے ہوئے ڈرتے ہیں افسانہِ مہتاب
تم سے تو کوئی فیض نہیں عرش نشینو
ہم خاک بسر، لائے ہیں نذرانہِ مہتاب
شکیب جلالی

پِھر کیسے دِوانے کو دِیوانہ کَہا جائے

وحشَت کا نہ ذِکر آئے صحرا نہ کَہا جائے
پِھر کیسے دِوانے کو دِیوانہ کَہا جائے
یہ کِس کی ضَرورَت ہے معلوم تَو ہو یارو
کیوں پیشِ نَظَر مَنظَر اَفسانہ کہا جائے
کیوں خُون کے قَطروں پَر تحقیق نہ ہو صاحب
کیوں خُون کے قَطرے کو دَریا نہ کَہا جائے
بولے نہ سُنے کوئی یوں تَو تِری بَستی میں
جَب خُود سے کَروں باتیَں دِیوانہ کَہا جائے
ہم خواب بَہاروں کے دیکھیں یہ اِجازِت ہے
قَدغَن یہ ہے خوابوں کو سَچّا نہ کَہا جائے
خُوش ہُوں کہ وہ بَس میری ہی جان کا دُشمَن ہے
اَچّھا نَہیِں لَگتا گَر میرا نہ کَہا جائے
تُم دِل میں تَو رہتے ہو خوابوں میں نہیں آتے
اِس طَرح کے رہنے کو رہنا نہ کَہا جائے
جَب تَک مِری آنکھوں میں وہ جھانک نہ لیں ضامنؔ
صحرا کو نہ وحشت کا پیمانہ کَہا جائے
ضامن جعفری

نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ

ہیں مستِ بادہِ حُسنِ صَنَم کیا رُخ کریں سُوئے میخانہ
نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ
تمہیدِ محبّت کیا کہیے شرحِ غمِ ہجراں کیا کیجے
ہر ایک نظر اِک عنواں ہے ہر موجِ نَفَس اِک افسانہ
کیا غمزہِ چشمِ سرمہ سا غارت گرِ ہوش و عقلِ رسا
کیا وصفِ نگاہِ ہوشرُبا کر جائے جو خود سے بیگانہ
پائینِ غبارِ راہِ جنوں پھر شورِ سلاسل سُنتا ہُوں
ہو مژدہ وادیِ نجد تجھے پھر آتا ہے کوئی دیوانہ
اے محرَمِ سرِّ عشق بتا ہوتا ہے جب اُس کوچے سے گذر
آجاتی ہے لغزش چال میں کیوں کیا ڈھونڈے نظر بیتابانہ
اعزازِ کمالِ جذب و جنوں ہُوں عالَمِ وحشَت میں ضامنؔ
مِری مُشتِ خاک آگے آگے مِرے پیچھے پیچھے ویرانہ
ضامن جعفری

کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ

ہوش و خِرَد فَریب ہیں دِیوانہ ہو کے دیکھ
کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ
پھِر دیکھیو کہاں کا خلوص اُور کہاں کا عشق
مَنظَر سے کَٹ ذَرا، ذرا اَفسانہ ہو کے دیکھ
مَت پُوچھ رَبطِ ساقی و میِنا و بادہ خوار
سَب راز کھُلتے جائیں گے پیمانہ ہو کے دیکھ
کیا جانے کَب سے ٹھوکروں میں تھا اِک اہلِ ہوش
آخر ضَمِیر چیخا کہ دیوانہ ہو کے دیکھ
سَمجھا رَہا ہُوں دیکھئے کَب تَک سَمَجھ میں آئے
اَپنا ہی ہو کے دیکھ لے میرا نہ ہو کے دیکھ
ضامنؔ! مُصِر ہے کَب سے کِسی کی نگاہِ ناز
خُودسوز! شَمعِ حُسن کا پَروانہ ہو کے دیکھ
ضامن جعفری

کچھ کہو یارو یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی
کچھ کہو یارو یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی
صبح دم دیکھا تو سارا باغ تھا گل کی طرف
شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی
خلوتوں میں روئے گی چھپ چھپ کے لیلائے غزل
اس بیاباں میں نہ اب آئے گا دِیوانہ کوئی
ہمنشیں خاموش، دیواریں بھی سنتی ہیں یہاں
رات ڈھل جائے تو پھر چھیڑیں گے افسانہ کوئی
ناصر کاظمی

پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل

وا ہوا پھر درِ میخانۂ گل
پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل
زمزمہ ریز ہوے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہوا کاشانۂ گل
رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گل
پھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گل
پھر کسی گل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ میخانۂ گل
پھر سرِ شام کوئی شعلہ نوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گل
آج غربت میں بہت یاد آیا
اے وطن تیرا صنم خانۂ گل
آج ہم خاک بسر پھرتے ہیں
ہم سے تھی رونقِ کاشانۂ گل
ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے
ہم سے پوچھے کوئی افسانۂ گل
کل ترا دَور تھا اے بادِ صبا
ہم ہیں اب سرخیٔ افسانۂ گل
ہم ہی گلشن کے امیں ہیں ناصر
ہم سا کوئی نہیں بیگانۂ گل
ناصر کاظمی

بڑا مہنگا پڑا یارانۂ دل

خوب تھا رہتے جو بیگانۂ دل
بڑا مہنگا پڑا یارانۂ دل
ایک وہ جس کا ہے دل دیوانہ
ایک میں ہوں کہ ہوں دیوانۂ دل
خاک تو پہلے بھی اُڑتی تھی مگر
تجھ سے آباد تھا ویرانۂ دل
آج وہ گھر ہے کھنڈر سا ویراں
جس پہ تحریر تھا کاشانۂ دل
اک ذرا لہر اٹھی اور چھلکا
کیا بھرا رہتا تھا پیمانۂ دل
ابھی باقی ہے طلب آنکھوں میں
ہے ادھورا ابھی افسانۂ دل
جس قدر پی سکو پی لو باصرِؔ
بند ہونے کو ہے میخانۂ دل
باصر کاظمی

وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 23
اگر چھوٹا بھی اس سے آئینہ خانہ تو کیا ہو گا
وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہو گا
بھلا اہلِ جنوں سے ترکِ ویرانہ تو کیا ہو گا
خبر آئے گی ان کی ان کا اب آنا تو کیا ہو گا
سنے جاؤ جہاں تک سن سکو جن نیند آئی گی
وہیں ہم چھوڑ دیں گے ختم افسانہ تو کیا ہو گا
اندھیری رات، زِنداں، پاؤں میں زنجیریں، تنہائی
اِس عالم میں نہ مر جائے گا دیوانہ تو کیا ہو گا
ابھی تو مطمئن ہو ظلم کا پردہ ہے خاموشی
اگر منہ سے بول اٹھا یہ دیوانہ تو کیا ہو گا
جنابِ شیخ ہم تو رند ہیں چلو سلامت ہے
جو تم نے توڑ ڈالا یہ پیمانہ تو کیا ہو گا
یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے
قمر اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہو گا
قمر جلالوی

اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 21
ہوا شب کو عبث مئے کے لئے جانا تو کیا ہو گا
اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا
چمن والو قفس کی قید بے میعاد ہوتی ہے
تمھیں آؤ تو آ جانا میرا آنا تو کیا ہو گا
گرا ہے جام خود ساقی سے اس پر حشر برپا ہے
مرے ہاتھوں سے چھوتے گا پیمانہ تو کیا ہو گا
جگہ تبدیل کرنے کو تو کر لوں ساقی میں
وہاں بھی آ سکا مجھ تک نہ پیمانہ تو کیا ہو گا
بہارِ گل بنے بیٹھے ہو تم غیروں کی محفل میں
کوئی ایسے میں ہو جائے دیوانہ تو کیا ہو گا
سرِ محشر مجھے دیکھا تو وہ دل میں یہ سوچیں گے
جو پہچانا تو کیا ہو گا نہ پہچانا تو کیا ہو گا
حفاظت کے لئے اجڑی ہوئی محفل میں بیٹھے ہیں
اڑا دی گر کسی نے خاکِ پروانہ تو کیا ہو گا
زباں تو بند کرواتے ہو تم اللہ کے آگے
کہا ہم نے اگر آنکھوں سے افسانہ تو کیا ہو گا
قمر اس اجنبی محفل میں تم جاتے تو ہو لیکن
وہاں تم کو کسی نے بھی نہ پہچانا تو کیا ہو گا
قمر جلالوی

معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 213
ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہئے
اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں!
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہئے
مرزا اسد اللہ خان غالب

میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو

دیوان پنجم غزل 1704
دل کھلتا ہے واں صحبت رندانہ جہاں ہو
میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو
ان بکھرے ہوئے بالوں سے خاطر ہے پریشاں
وے جمع ہوئے پر ہیں بلا شانہ جہاں ہو
رہنے سے مرے پاس کے بدنام ہوئے تم
اب جاکے رہو واں کہیں رسوا نہ جہاں ہو
کچھ حال کہیں اپنا نہیں بے خودی تجھ کو
غش آتا ہے لوگوں کو یہ افسانہ جہاں ہو
کیوں جلتا ہے ہر جمع میں مانند دیے کے
اس بزم میں جا شمع سا پروانہ جہاں ہو
ان اجڑی ہوئی بستیوں میں دل نہیں لگتا
ہے جی میں وہیں جا بسیں ویرانہ جہاں ہو
وحشت ہے خردمندوں کی صحبت سے مجھے میر
اب جا رہوں گا واں کوئی دیوانہ جہاں ہو
میر تقی میر

جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا

دیوان پنجم غزل 1566
عشق کیے پچھتائے ہم تو دل نہ کسو سے لگانا تھا
جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا
غیریت کی اس کی شکایت یار عبث اب کرتے ہیں
طور اس شوخ ستم پیشہ کا طفلی سے بیگانہ تھا
بزم عیش کی شب کا یاں دن ہوتے ہی یہ رنگ ہوا
شمع کی جاگہ دود تنک تھا خاکستر پروانہ تھا
دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور
ہمرہ نعش عاشق کے اس ظالم کو بھی آنا تھا
طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب
روتے روتے ہنسنے لگا یہ میر عجب دیوانہ تھا
میر تقی میر

حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے

دیوان چہارم غزل 1523
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے
اس کی نگاہ تیز ہے میرے دوش و بر پر ان روزوں
یعنی دل پہلو میں میرے تیرستم کا نشانہ ہے
دل جو رہے تو پائوں کو بھی دامن میں ہم کھینچ رکھیں
صبح سے لے کر سانجھ تلک اودھر ہی جانا آنا ہے
سرخ کبھو آنسو ہیں ہوتے زرد کبھو ہے منھ میرا
کیا کیا رنگ محبت کے ہیں یہ بھی ایک زمانہ ہے
اس نومیدی بے غایت پر کس مقدار کڑھا کریے
دو دم جیتے رہنا ہے تو قیامت تک مر جانا ہے
فرصت کم ہے یاں رہنے کی بات نہیں کچھ کہنے کی
آنکھیں کھول کے کان جو کھولو بزم جہاں افسانہ ہے
فائدہ ہو گا کیا مترتب ناصح ہرزہ درائی سے
کس کی نصیحت کون سنے ہے عاشق تو دیوانہ ہے
تیغ تلے ہی اس کے کیوں نہ گردن ڈال کے جا بیٹھیں
سر تو آخرکار ہمیں بھی خاک کی اور جھکانا ہے
آنکھوں کی یہ مردم داری دل کو کسو دلبر سے ہے
طرزنگہ طراری ساری میر تمھیں پہچانا ہے
میر تقی میر

جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا

دیوان سوم غزل 1093
دل عجب چرچے کی جاگہ تھی سو ویرانہ ہوا
جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا
بزم عشرت پر جہاں کی گوش وا کر جاے چشم
آج یاں دیکھا گیا جو کچھ کل افسانہ ہوا
دیر میں جو میں گدایانہ گیا اودھر کہا
شاہ جی کہیے کدھر سے آپ کا آنا ہوا
کیا کہیں حسرت لیے جیسے جہاں سے کوئی جائے
یار کے کوچے سے اپنا اس طرح جانا ہوا
میر تیر ان جورکیشوں کے جو کھائے بے شمار
چھاتی اب چھلنی ہے میری ہے جگر چھانا ہوا
میر تقی میر