ٹیگ کے محفوظات: دیواروں

شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم

دیوان ششم غزل 1841
کیا زمانہ تھا کہ تھے دلدار کے یاروں میں ہم
شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی جی لگتا نہیں
تنگ آئے ہیں بہت ان چار دیواروں میں ہم
جو یہی ہے غم الم رنج و قلق ہجراں کا تو
زندگی سے بے توقع ہیں ان آزاروں میں ہم
شاید آوے حال پرسی کرنے اس امید پر
کب سے ہیں دارالشفا میں اس کے بیماروں میں ہم
دھوپ میں جلتے ہیں پہروں آگے اس کے میرجی
رفتگی سے دل کی ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں ہم
میر تقی میر

جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ

دیوان ششم غزل 1820
وامق و فرہاد و مجنوں کون ہے یاروں کے بیچ
جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ
جمع خوباں میں مرا محبوب اس مانند ہے
جوں مہ تابندہ آتا ہے کبھو تاروں کے بیچ
جو جفا عاشق پہ ہے سو اور لوگوں پر نہیں
اس سے پیدا ہے کہ میں ہی ہوں گنہگاروں کے بیچ
مر گئے بہتیرے صاحب دل ہوس کس کو ہوئی
ایسے مرنے جینے کی ان عشق کے ماروں کے بیچ
رونا کڑھنا عشق میں دیکھا مرا جن نے کہا
کیا جیے گا یہ ستم دیدہ ان آزاروں کے بیچ
منتظر برسوں رہے افسوس آخر مر گئے
دیدنی تھے لوگ اس ظالم کے بیماروں کے بیچ
خاک تربت کیوں نہ اپنی دلبرانہ اٹھ چلے
ہم بھی تھے اس نازنیں کے ناز برداروں کے بیچ
صاف میداں لامکاں سا ہو تو میرا دل کھلے
تنگ ہوں معمورۂ دنیا کی دیواروں کے بیچ
باغ میں تھے شب گل مہتاب میرے آس پاس
یار بن یعنی رہا میں میر انگاروں کے بیچ
میر تقی میر

ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں

دیوان چہارم غزل 1461
اب ہوسناک ہی مردم ہیں ترے یاروں میں
ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں
کوچۂ یار تو ہے غیرت فردوس ولے
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ہوکے بدحال محبت میں کھنچے آخرکار
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
جی گیا ایک دم سرد ہی کے ساتھ اپنا
ہم جو خوش زمزمہ تھے اس کے گرفتاروں میں
اب در باز بیاباں میں قدم رکھیے میر
کب تلک تنگ رہیں شہر کی دیواروں میں
میر تقی میر

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

دیوان اول غزل 190
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھائو
میر بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
میر تقی میر

یہ مضموں ابروئے جاناں کا تلواروں سے اچھا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 322
غزل کا رنگ کچھ ہو خون کے دھاروں سے اچھا ہے
یہ مضموں ابروئے جاناں کا تلواروں سے اچھا ہے
ہماری طرح اعلان گنہگاری نہیں کرتا
کم از کم شیخ ہم جیسے سیہ کاروں سے اچھا ہے
کسی کے پاؤں کے چھالے ہوں زنجیروں سے بہتر ہیں
کسی کے درد کا صحرا ہو، دیواروں سے اچھا ہے
کہاں ملتی ہے بے رنگ غرض جنس وفا صاحب
مری دُکان میں یہ مال بازاروں سے اچھا ہے
محبت میں کوئی اعزاز اپنے سر نہیں لیتا
یہ خادم آپ کے پاپوش برداروں سے اچھا ہے
عرفان صدیقی

مری تمثیل کرداروں سے خالی ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 635
سحر سورج سے، شب تاروں سے خالی ہے
مری تمثیل کرداروں سے خالی ہے
نکالیں کوئی کیا ابلاغ کی صورت
خلا مصنوعی سیاروں سے خالی ہے
چھتوں پر آب و دانہ ڈال جلدی سے
فضا بمبار طیاروں سے خالی ہے
مزاجِ حرص کو دونوں جہاں کم ہیں
سرشتِ خوف انکاروں سے خالی ہے
اس آوارہ مزاجی کے سبب شاید
فضلیت اپنی، دستاروں سے خالی ہے
کہیں گر ہی نہ جائے نیلی چھت منصور
کہ سارا شہر دیواروں سے خالی ہے
منصور آفاق

نیند سے بولائی دستک تیری دیواروں کے بیچ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 251
ڈھونڈتی ہے آسماں پر در کوئی تاروں کے بیچ
نیند سے بولائی دستک تیری دیواروں کے بیچ
گفتگو کیا ہو مقابل جب ہیں خالی پگڑیاں
پہلے تو سر بھی ہوا کرتے تھے دستاروں کے بیچ
اے خدا میرا بھرم رکھنا، فراتِ وقت پر
اک انا کا بانکپن ہے کتنی تلواروں کے بیچ
ریل کی پٹری بچھائی جا رہی ہے اس کے ساتھ
ایک کاٹج کیا بنایا میں نے گلزاروں کے بیچ
جانتی تھی اور سب کو ایک بس میرے سوا
وہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی چند فنکاروں کے بیچ
دھوپ بھی ہے برف تیری سرد مہری کے طفیل
رات بھی پھنکارتی ہے تیرے آزاروں کے بیچ
منصور آفاق