ٹیگ کے محفوظات: دیدہ

میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 162
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں
ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں
نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ@
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں
ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لاگ
نے دانۂ فتادہ ہوں ،نے دامِ چیدہ ہوں
جو چاہئے، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں
ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نُغز، ولے ناشنیدہ ہوں
اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے@ میں مَیں برگزیدہ ہوں
ہوں گرمئ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں@
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخئِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں@
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں @
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
@ واسطہ۔ نسخۂ مہر @ کچھ نسخوں میں ‘فرقے’ @ مشہور شعر مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں@ یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

الفت گزیدہ مردم کلفت کشیدہ مردم

دیوان ششم غزل 1840
وے ہم ہیں جن کو کہیے آزار دیدہ مردم
الفت گزیدہ مردم کلفت کشیدہ مردم
ہے حال اپنا درہم تس پر ہے عشق کا غم
رہتے ہیں دم بخود ہم آفت رسیدہ مردم
وہ دیکھے ہم کو آکر جن نے نہ دیکھے ہوویں
آزردہ دل شکستہ خاطر کبیدہ مردم
جو ہے سو لوہو مائل بے طور اور جاہل
اہل جہاں ہیں سارے صحبت نہ دیدہ مردم
جاتے ہیں اس کی جانب مانند تیر سیدھے
مثل کمان حلقہ قامت خمیدہ مردم
اوباش بھی ہمارا کتنا ہے ٹیڑھا بانکا
دیکھ اس کو ہو گئے ہیں کیا کیا کشیدہ مردم
مت خاک عاشقاں پر پھر آب زندگی سا
جاگیں کہیں نہ سوتے یہ آرمیدہ مردم
لے لے کے منھ میں تنکا ملتے ہیں عاجزانہ
مغرور سے ہمارے برخویش چیدہ مردم
تھے دست بستہ حاضر خدمت میں میر گویا
سیمیں تنوں کے عاشق ہیں زرخریدہ مردم
میر تقی میر

آب اس کے پوست میں ہے جوں میوئہ رسیدہ

دیوان پنجم غزل 1719
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ
آب اس کے پوست میں ہے جوں میوئہ رسیدہ
آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا کروں میں
دنبالہ گردی تیری اے آہوے رمیدہ
پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب
وے کس مزے کے ہوں گے لب ہاے نامکیدہ
سائے کو اس پری کے لگتا نہ تھا چمن میں
مغرور کاہے پر ہے شمشاد قد کشیدہ
آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں اہل نظر کی یکسر
چلتے ہوئے زمیں پر رکھ پائوں دیدہ دیدہ
چل سیر کرنے تو بھی تا صبح آنکھیں کھولیں
منھ پر ترے چمن میں گل ہاے نو دمیدہ
محراب میں رہو نہ سجدہ کیا کرو نہ
بے وقت کیا ہے طاعت قد اب ہوا خمیدہ
پروانہ گرد پھر کر جل بھی بجھا ولیکن
خاموش رات کو تھی شمع زباں بریدہ
دیکھا مجھے شب گل بلبل نے جو چمن میں
بولا کی میرے منھ پر کیا کیا دہن دریدہ
قلب و کبد تو دونوں تیروں سے چھن رہے ہیں
وہ اس ستم کشی پر ہم سے رہے کبیدہ
اشعار میر سب نے چن چن کے لکھ لیے ہیں
رکھیں گے یاد ہم بھی کچھ بیتیں چیدہ چیدہ
میر تقی میر

گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ

دیوان دوم غزل 939
ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ
گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ
اب خاک تو ہماری سب سبز ہو چلی ہے
کب منھ ادھر کرے گا وہ آہوے رمیدہ
یوسف سے کوئی کیونکر اس ماہ کو ملاوے
ہے فرق رات دن کا از دیدہ تا شنیدہ
بندے کے درد دل کو کوئی نہیں پہنچتا
ہر ایک بے حقیقت یاں ہے خدا رسیدہ
کیا وسوسہ ہے مجھ کو عزت سے جینے کا یاں
نکلا نہ میرے دل سے یہ خار ناخلیدہ
ہم کاڑھ کر جگر بھی آگے تمھارے رکھا
پھر یا نصیب اس پر تم جو ہوئے کبیدہ
سائے سے اپنے وحشت ہم کو رہی ہمیشہ
جوں آفتاب ہم بھی کیسے رہے جریدہ
منصور کی نظر تھی جو دار کی طرف سو
پھل وہ درخت لایا آخر سر بریدہ
ذوق سخن ہوا ہے اب تو بہت ہمیں بھی
لکھ لیں گے میر جی کے کچھ شعر چیدہ چیدہ
میر تقی میر

ہے تو کس آفریدہ کے مانند

دیوان اول غزل 201
اے گل نو دمیدہ کے مانند
ہے تو کس آفریدہ کے مانند
ہم امید وفا پہ تیری ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
خاک کو میری سیر کرکے پھرا
وہ غزال رمیدہ کے مانند
سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزئہ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتار حال ہیں اپنے
طائر پر بریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشک خونیں میں
صید درخوں طپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیونکے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میر صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندئہ زرخریدہ کے مانند
میر تقی میر

سینہ کشادہ گردن کشیدہ

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 5
اب تک وہی دھج او نارسیدہ
سینہ کشادہ گردن کشیدہ
بستی میں ہم اور جنگل میں آہو
دونوں گریزاں دونوں رمیدہ
اچھی تمہاری دنیائے نو ہے
جب دیکھئے تب ناآفریدہ
جو کچھ سنا تھا خود ہم پہ بیتا
نکلا شنیدہ مانند دیدہ
جوگی کہ بھوگی سب ایک جیسے
لذت چشیدہ حسرت گزیدہ
زلفوں سے بڑھ کر زنجیر تیری
مری نگاہ گیسو بریدہ
لگتی نہیں یاں موتی کی قیمت
کیسا تمہارا اشک چکیدہ
سب شاعری ہے عرفانؔ صاحب
تم کون ایسے دامن دریدہ
عرفان صدیقی

مری مجذوب خاموشی کو افسانہ بنانے میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 348
زمانہ… تجھ کو کیا حاصل ہوا قصہ بنانے میں
مری مجذوب خاموشی کو افسانہ بنانے میں
غزل کہنا پڑی ایسے سخن آباد میں مجھ کو
خدا مصلوب ہوتے ہیں جہاں مصرعہ بنانے میں
نجانے کون سے دکھ کی اداسی کا تعلق ہے
مری اس سائیکی کو اتنا رنجیدہ بنانے میں
تجھے دل نے کسی بہتر توقع پر بلایا تھا
لگے ہو تم مسائل اور پیچیدہ بنانے میں
اگر آ ہی گئے ہو تو چلو آؤ یہاں بیٹھو
ذرا سی دیر لگنی ہے مجھے قہوہ بنانے میں
کسے معلوم کیا کیا کر دیا قربان آنکھوں نے
یہ تنہائی کی آبادی، یہ ویرانہ بنانے میں
مری صبح منور کی جسے تمہید بننا تھا
کئی صدیاں لگا دی ہیں وہ اک لمحہ بنانے میں
کہاں سے آ گئی اتنی لطافت جسم میں میرے
شبیں ناکام پھرتی ہیں مرا سایہ بنانے میں
کھڑا ہے لاش پر میری وہ کیسی تمکنت کے ساتھ
جسے تکلیف ہوتی تھی مجھے زینہ بنانے میں
مرے منزل بکف جن پہ تُو طعنہ زن دکھائی دے
یہ پاؤں کام آئے ہیں ترا رستہ بنانے میں
مجھ ایسے آسماں کو گھر سے باہر پھینکنے والو
ضرورت چھت کی پڑتی ہے کوئی کمرہ بنانے میں
کہیں رہ جاتی تھیں آنکھیں کہیں لب بھول جاتا تھا
بڑی دشواریاں آئیں مجھے چہرہ بنانے میں
پلٹ کر دیکھتے کیا ہو۔ صفِ دشمن میں یاروں کو
بڑے ماہر ہیں اپنے دل کو یہ کوفہ بنانے میں
کسی کرچی کے اندر کھو گیا میرا بدن مجھ سے
جہانِ ذات کو اک آئینہ خانہ بنانے میں
مٹھاس ایسے نہیں آئی مرے الفاظِ تازہ میں
لگی ہے عمر مجھ کو دودھ کا چشمہ بنانے میں
بڑا دل پھینک ہے یہ دل بڑی آوارہ آنکھیں ہیں
کوئی عجلت ہوئی شاید دل و دیدہ بنانے میں
کسی ہجرِ مسلسل کا بڑا کردار ہے منصور
محبت کی کہانی اتنی سنجیدہ بنانے میں
انا الحق کی صداؤں میں کہیں گم ہو گیا میں بھی
اسے منصور اپنی ذات کا حصہ بنانے میں
مرے ہمزاد اپنا آپ نادیدہ بنانے میں
تجھے کیا مل گیا آنکھوں کو لرزیدہ بنانے میں
منصور آفاق

جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 198
فردوس سے آگے ہے وہ سرچشمۂ مخصوص
جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص
اپنی تو رسائی نہیں اس بامِ فلک تک
معلوم کیا جائے کوئی بندۂ مخصوص
اے شہرِ گداگر ترے والی کے لیے کیا
بنوانا ضروری ہے کوئی کاسۂ مخصوص
انکارِ مسلسل کی فصیلیں ہیں جہاں پر
تسخیر کروں گا میں وہی رشتۂ مخصوص
اک نرم سے ریشے کی کسی نس کے نگر میں
بس دیکھتا پھرتا ہوں ترا چہرۂ مخصوص
کہتے ہیں کہ آسیب وہاں رہنے لگے ہیں
ہوتا تھا کسی گھر میں مرا کمرۂ مخصوص
سنتے ہیں نکلتا ہے فقط دل کی گلی سے
منزل پہ پہنچ جاتا ہے جو جادۂ مخصوص
لوگوں سے ابوزر کے روابط ہیں خطرناک
صحرا میں لگایا گیا پھر خیمۂ مخصوص
ہنستے ہوئے پانی میں نیا زہر ملا کر
بھیجا ہے کسی دوست نے مشکیزۂ مخصوص
آواز مجھے دیتا ہے گرداب کے جیسا
منصور سمندر میں کوئی دیدۂ مخصوص
منصور آفاق

لے آیا کہاں دل تپیدہ

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 25
اک سانس ہے نوحہ، اک قصیدہ
لے آیا کہاں دل تپیدہ
ہیں لفظ کہ کاغذی شگوفے
ہیں شعر کہ داغ چیدہ چیدہ
ہر بات ہے اک ورق پرانا
ہر فکر ہے اک نیا جریدہ
کچھ مثل خدنگ ہیں ہوا میں
کچھ مثل کماں ہیں سرکشیدہ
گلشن میں ہو کے بھی نہیں ہیں
ہم صورت شاخ نو بریدہ
تکتے ہیں رقص ساغر گل
پیتے ہیں شبنم چکیدہ
اپنی خوشبو ہے طنز ہم پر
ہم گل ہیں مگر صبا گزیدہ
ہر راہ میں گرد بن کے ابھرا
یہ زیست کا آہوئے رمیدہ
دل تک نہ گئی نگاہ اپنی
پردہ بنا دامن دریدہ
یا میری نظر نظر نہیں ہے
یا رنگ حیات ہے پریدہ
اس راہ پہ چل رہے ہیں باقیؔ
جس سے واقف نہ دل نہ دیدہ
باقی صدیقی