ٹیگ کے محفوظات: دہل

کاشکے آہوچشم اپنا آنکھوں کو پائوں سے مل جاتا

دیوان پنجم غزل 1568
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا
کاشکے آہوچشم اپنا آنکھوں کو پائوں سے مل جاتا
آتش دل کی لپٹوں کا ہے یارو کچھ عالم ہی جدا
لائحہ کوئی کھینچتا سر تو سارا عالم جل جاتا
نعرہ کرنا عاشق کا ہے ساتھ اک ہیبت کے یعنی
سن آواز اس شیرنر کی سیل بلا سے دہل جاتا
اہل زمیں تو کیا ہیں ان کا سہل تھا راہ سے لے جانا
چرخ پہ ہوتا وہ جو چھلاوا خیل ملک کو چھل جاتا
کشتی زبردستوں کی اس سے پاک ہوئی تو کیا ہے عجب
رستم سامنے ہوجاتا تو راہ بچا کر ٹل جاتا
غم سے ہو گر زرد سراسر صورت ساری خزاں کی سی
آن نکلتے سوے چمن تو رنگ ہوا کا بدل جاتا
ڈھلتے ڈھلتے ضعف سے آئے میر سو ان نے منھ پھیرا
یاقوتی سے بوسۂ لب کی جی شاید کہ سنبھل جاتا
میر تقی میر

کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا

دیوان چہارم غزل 1325
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا
بے یار حیف باغ میں دل ٹک بہل گیا
دے گل کو آگ چار طرف میں نہ جل گیا
اس آہوے رمیدہ کی شوخی کہیں سو کیا
دکھلائی دے گیا تو چھلاوا سا چھل گیا
دن رات خوں کیا ہی کیے ہم جگر کو پھر
گر پھول گل سے کوئی گھڑی جی بہل گیا
تیور بدلنے سے تو نہیں اس کے بے حواس
اندیشہ یہ ہے طور ہی اس کا بدل گیا
ہرچند میں نے شوق کو پنہاں کیا ولے
ایک آدھ حرف پیار کا منھ سے نکل گیا
کرتے ہیں نذر ہم کہ نہ الفت کریں کہیں
گر دل ضعیف اب کے ہمارا سنبھل گیا
چلنے لگے تھے راہ طلب پر ہزار شکر
پہلے قدم ہی پائوں ہمارا بچل گیا
میں دہ دلا تو آگے ہی تھا فرط شوق سے
طور اس کا دیکھ اور بھی کچھ دل دہل گیا
سر اب لگے جھکانے بہت خاک کی طرف
شاید کہ میرجی کا دماغی خلل گیا
میر تقی میر

رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا

دیوان دوم غزل 720
مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا
رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا
خواب میں کل پائوں اپنے دوست کے ملتا تھا میں
آنکھ دشمن کھل گئی سو ہاتھ مل کر رہ گیا
ہم تو تھے سرگرم پابوسی خدا نے خیر کی
نیمچہ کل خوش غلاف اس کا اگل کر رہ گیا
ہم بھی دنیا کی طلب میں سر کے بل ہوتے کھڑے
بارے اپنا پائوں اس رہ میں بچل کر رہ گیا
کیا کہوں بیتابی شب سے کہ ناچار اس بغیر
دل مرے سینے میں دو دو ہاتھ اچھل کر رہ گیا
کیا ہمیں کو یار کے تیغے نے کھاکر دم لیا
ایسے بہتیروں کو یہ اژدر نگل کر رہ گیا
دو قدم ساتھ اس جفا جو کے چلا جاتا ہے جی
بوالہوس عیار تھا دیکھا نہ ٹل کر رہ گیا
آنکھ کچھ اپنی ہی اس کے سامنے ہوتی نہیں
جن نے وہ خونخوار سج دیکھی دہل کر رہ گیا
ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جاے میر پر
برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا
میر تقی میر