دیوان پنجم غزل 1568
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا
کاشکے آہوچشم اپنا آنکھوں کو پائوں سے مل جاتا
آتش دل کی لپٹوں کا ہے یارو کچھ عالم ہی جدا
لائحہ کوئی کھینچتا سر تو سارا عالم جل جاتا
نعرہ کرنا عاشق کا ہے ساتھ اک ہیبت کے یعنی
سن آواز اس شیرنر کی سیل بلا سے دہل جاتا
اہل زمیں تو کیا ہیں ان کا سہل تھا راہ سے لے جانا
چرخ پہ ہوتا وہ جو چھلاوا خیل ملک کو چھل جاتا
کشتی زبردستوں کی اس سے پاک ہوئی تو کیا ہے عجب
رستم سامنے ہوجاتا تو راہ بچا کر ٹل جاتا
غم سے ہو گر زرد سراسر صورت ساری خزاں کی سی
آن نکلتے سوے چمن تو رنگ ہوا کا بدل جاتا
ڈھلتے ڈھلتے ضعف سے آئے میر سو ان نے منھ پھیرا
یاقوتی سے بوسۂ لب کی جی شاید کہ سنبھل جاتا
میر تقی میر