ٹیگ کے محفوظات: دہراتے

رسم یہ منصوری ہے اِسے دُہراتے رہنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
حق سمجھو جو بات زباں پر لاتے رہنا
رسم یہ منصوری ہے اِسے دُہراتے رہنا
برگ اور بار جھڑے تو کیا ہے، باغ کے پیڑو!
آنگن میں اُمید کے تم اِٹھلاتے رہنا
اِس کی شہ پر کاہے کو جی میلا کیجے
موسم کی تو خُو ہے یہی، گدراتے رہنا
سُن ہو جاؤگے للکار ستم کی سنتے
عزم کا جادو اپنے لہو میں جگاتے رہنا
ظلم کو سخت دلی کی آنچ سے ہی پیش آنا
اپنے کیے پر پھر چاہے پچھتاتے رہنا
دیکھنا وقت لگے زخموں کو مٹا ہی نہ ڈالے
رنج کی شدّت اِس شاطر کو جتاتے رہنا
لاکھ زباں پر جبر کے پہرے لگتے رہیں پر
ماجدؔ دل کا حال ہمیں ہے سناتے رہنا
ماجد صدیقی

کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
پھول کچھ لمحے تو کچھ تھے سنگ برساتے رہے
کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے
تھپکیوں سے بھی رہے تھے رس اُنہی کا چوستے
مہرباں جھونکے تھے جن پتّوں کو سہلاتے رہے
تھا اُنہی کے جسم میں وقتِ سحر خوں جم گیا
جو فصیلِ شب سے ساری رات ٹکراتے رہے
خوب تھا وہ آتے جاتے موسموں کا سا ملاپ
تم ملا کرتے تو تھے گرچہ بچھڑ جاتے رہے
خاک تھی وہ لذّتِ خواب سکوں جس کے عوض
آنے والے دن بھی گروی رکھ دئیے جاتے رہے
شاخچوں کے پھول پھل پڑنے سے پہلے توڑنا
ایسی رسمیں بھی یہاں کچھ لوگ دُہراتے رہے
یاد سے ہو محو ماجدؔ کیسے اُن چہروں کا عکس
شدّتِ خواہش سے جو دل میں اُتر آتے رہے
ماجد صدیقی

اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 82
وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم
اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم
کاٹتے ہیں رات جانے کس طرح
صبح دم گھر سے نکل آتے ہیں ہم
بند کمرے میں سکوں ملنے لگا
جب ہوا چلتی ہے گھبراتے ہیں ہم
ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں
اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم
زندگی کی کشمکش باقیؔ نہ پوچھ
نیند جب آتی ہے سو جاتے ہیں ہم
باقی صدیقی