ٹیگ کے محفوظات: دہاں

دل کو تسکین کہاں سے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
روز اک آنچ سی جاں سے آئے
دل کو تسکین کہاں سے آئے
کس توقع پہ لیا نام ترا
ایک خوشبو سی دہاں سے آئے
ضبط سے جسم پگھلتے ہوں جہاں
ہو کے ہم لوگ وہاں سے آئے
جسم آیا ہے کھنڈر ہونے کو
کیا خبر اور خزاں سے آئے
اتنا روئے ہیں مسلسل کہ ہمیں
اب تو دہشت سی فغاں سے آئے
لُطفِ مضموں بھی جُدا ہے ماجدؔ
کیا مزہ تیری زباں سے آئے
ماجد صدیقی

اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 178
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں
ہر چند جاں گدازئِ قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمئِ تاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂِ الاَماں نہیں
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِدل نفس اگر آذر فشاں نہیں
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں“
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 89
گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہوجائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہوجائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہوجائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں” ہوجائے گا
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا
مرزا اسد اللہ خان غالب

نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے

دیوان ششم غزل 1891
کہو سو کریے علاج اپنا طپیدن دل بلاے جاں ہے
نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے
تلاش دل کی جو دلبری سے ہمارے پاس آ تمھیں رہے ہے
ستم رسیدہ شکستہ وہ دل گیا بھی خوں ہوکے یاں کہاں ہے
کڑھا کریں ہیں ہوا ہے مورد جہان اجسام جب سے اپنا
غم جدائی جہان جاں کا ہمارے دل میں جہاں جہاں ہے
نہیں جو دیکھا ہے ہم نے اس کو ہوا ہے نقصان جان اپنا
ادھر نہ دیکھے ہے وہ کبھو تو نگہ کا اس کی مگر زیاں ہے
بجا بھی ہے جو نہ ہووے مائل نگار سیر چمن کا ہرگز
گلوں میں ہمدم ہو کوئی اس کا سو کس کا ایسا لب و دہاں ہے
کسے ہے رنج و غم و الم سے دماغ سر کے اٹھانے کا اب
مصیبت اس کے زمانے میں تو ہمارے اوپر زماں زماں ہے
نہیں ہے اب میر پیر اتنا جو ذکر حق سے تو منھ چھپاوے
پگاہ نعرہ زنی کیا کر ابھی تو نام خدا جواں ہے
میر تقی میر

آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک

دیوان ششم غزل 1832
وہ تو نہیں کہ اودھم رہتا تھا آشیاں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک
لبریز جلوہ اس کا سارا جہاں ہے یعنی
ساری ہے وہ حقیقت جاوے نظر جہاں تک
ہجراں کی سختیوں سے پتھر دل و جگر ہیں
صبر اس کی عاشقی میں کوئی کرے کہاں تک
سوداے عاشقی میں نقصاں ہے جی کا لیکن
ہم راضی ہورہے ہیں اپنے زیان جاں تک
وا ماندہ نقش پا سے یک دشت ہم ہیں بیکس
دشوار ہے پہنچنا اب اپنا کارواں تک
جی مارتے ہیں دلبر عاشق کا اس خطر سے
حرف وفا نہ آیا اپنی کبھو زباں تک
دل دھڑکے ہے جو بجلی چمکے ہے سوے گلشن
پہنچے مبادا میری خاشاک آشیاں تک
دیواروں سے بھی مارا پتھروں سے پھوڑ ڈالا
پہنچا نہ سر ہمارا حیف اس کے آستاں تک
یہ تنگی و نزاکت اس رنگ سے کہاں ہے
گل برگ و غنچے پہنچیں کب ان لب و دہاں تک
ان جلتی ہڈیوں پر ہرگز ہما نہ بیٹھے
پہنچی ہے عشق کی تب اے میر استخواں تک
میر تقی میر

کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر

دیوان ششم غزل 1823
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر
پھولوں سے اٹھ نگاہیں مکھڑے پہ اس کے ٹھہریں
وہ گل فروش کا جو آیا دکاں کے اوپر
برسات اب کے گذری خوف و خطر میں ساری
چشمک زناں رہی ہے برق آشیاں کے اوپر
رخسار سا کسو کے کاہے کو ہے فروزاں
ہر چند ماہ تاباں ہے آسماں کے اوپر
بے سدھ پڑا رہوں ہوں بستر پہ رات دن میں
کیا آفت آگئی ہے اس نیم جاں کے اوپر
عشق و ہوس میں کچھ تو آخر تمیز ہو گی
آئی طبیعت اس کی گر امتحاں کے اوپر
الفت کی کلفتوں میں معلوم ہے ہوئی وہ
تھا اعتماد کلی تاب و تواں کے اوپر
محو دعا تھا اکثر غیرت سے لیک گاہے
آیا نہ نام اس کا میری زباں کے اوپر
وہ جان و دل کی خواہش آیا نہیں جہاں میں
آئی ہے اک قیامت اہل جہاں کے اوپر
کیا لوگ ہیں محباں سوداے عاشقی میں
اغماض کرتے ہیں سب جی کے زیاں کے اوپر
حیرت سے اس کے روکی چپ لگ گئی ہے ایسی
گویا کہ مہر کی ہے میرے دہاں کے اوپر
جو راہ دوستی میں اے میر مرگئے ہیں
سر دیں گے لوگ ان کے پا کے نشاں کے اوپر
میر تقی میر

پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات

دیوان چہارم غزل 1365
کرتا ہے گرچہ یاروں سے وہ ٹیڑھی بانکی بات
پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات
تھی بحر کی سی لہر کہ آئی چلی گئی
پہنچی ہے اس سرے تئیں طبع رواں کی بات
اب تو وفا و مہر کا مذکور ہی نہیں
تم کس سمیں کی کہتے ہو ہے یہ کہاں کی بات
مرغ اسیر کہتے تھے کس حسرتوں سے ہائے
ہم بھی کبھی سنیں گے گلوں کے دہاں کی بات
شب باش ان نے کہتے ہیں آنے کہا ہے میر
دن اچھے ہوں تو یہ بھی ہو اس مہرباں کی بات
میر تقی میر

شعلہ ہے شمع ساں یاں ہر یک سخن زباں پر

دیوان سوم غزل 1130
گرمی سے گفتگو کی کرلے قیاس جاں پر
شعلہ ہے شمع ساں یاں ہر یک سخن زباں پر
دیکھ اس کے خط کی خوبی لگ جاتی ہے چپ ایسی
گویا کہ مہر کی ہے ان نے مرے دہاں پر
ہوں خاک مجھ کو ان سے نسبت حساب کیا ہے
میں گنتی میں نہیں ہوں وے ہفتم آسماں پر
گھر باغ میں بنایا پر ہم نے یہ نہ جانا
بجلی سے بھی پڑے گا پھول آ کے آشیاں پر
روتے ہیں دوست اکثر سن سرگذشت عاشق
تو بھی تو گوش وا کر ٹک میری داستاں پر
کیا بات میں تب اس کی جاوے کسو سے بولا
ہونے لگے ہوں خوں جب ہونٹوں کے رنگ پاں پر
تڑپے ہے دل گھڑی بھر تو پہروں غش رہے ہے
کیا جانوں آفت آئی کیا طاقت و تواں پر
سودا بنے جو اس سے تو میر منفعت ہے
اپنی نظر نہیں ہے پھر جان کے زیاں پر
میر تقی میر

سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات

دیوان سوم غزل 1113
جب سے چلی چمن میں ترے رنگ پاں کی بات
سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات
یاں شہر حسن میں تو کہیں ذکر بھی نہیں
کیا جانیے کہ مہر و وفا ہے کہاں کی بات
اختر شناس کو بھی خلل ہے دماغ کا
پوچھو اگر زمیں سے کہیں آسماں کی بات
ایسا خدا ہی جانے کہ ہو عرش یا نہ ہو
دل بولنے کی جا نہیں کیا اس مکاں کی بات
کیا لطف جو سنو اسے کہتے پھرا کرو
یوں چاہیے کہ بھول وہیں ہو جہاں کی بات
لے شام سے جہاں میں ہے تاصبح ایک شور
اپنی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتی یاں کی بات
اوباش کس کو پوچھتے ہیں التفات سے
سیدھی کبھو سنی نہیں اس بدزباں کی بات
ہر حرف میں ہے ایک کجی ہر سخن میں پیچ
پنہاں رہے ہے کب کسو کی ٹیڑھی بانکی بات
کینے سے کچھ کہا ہی کیا زیرلب مجھے
کیا پوچھتے ہو میر مرے مہرباں کی بات
میر تقی میر

آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے

دیوان دوم غزل 976
کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوری بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے
تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے
جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے
کیا خوبی اس کے منھ کی اے غنچہ نقل کریے
تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے دہاں سے
آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے
سبزان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے
کی شست و شو بدن کی جس دن بہت سی ان نے
دھوئے تھے ہاتھ میں نے اس دن ہی اپنی جاں سے
خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر یک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے
اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھائو ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
میر تقی میر

برہم زدہ شہر ہے جہاں تو

دیوان دوم غزل 911
سب حال سے بے خبر ہیں یاں تو
برہم زدہ شہر ہے جہاں تو
اس تن پہ نثار کرتے لیکن
اپنی بھی نظر میں ٹھہرے جاں تو
برباد نہ دے کہیں سراسر
رہتی نہیں شمع ساں زباں تو
کیا اس کے گئے ہے ذکر دل کا
ویران پڑا ہے یہ مکاں تو
کیا کیا نہ عزیز خوار ہوں گے
ہونے دو اسے ابھی جواں تو
غنچہ لگے منھ تمھارے لیکن
صحبت کا اسے بھی ہو دہاں تو
کیا اس سے رکھیں امید بہبود
پھرتا ہے خراب آسماں تو
یہ طالع نارسا بھی جاگیں
سو جائے ٹک اس کا پاسباں تو
مت تربت میر کو مٹائو
رہنے دو غریب کا نشاں تو
میر تقی میر

جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور

دیوان دوم غزل 811
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگے ہے فنا میں کہ رفتگاں
منھ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگ سخن تو دیکھ کہ حیرت سے باغ میں
رہ جاتے ہیں گے دیکھ کے گل اس دہاں کی اور
آنکھیں سی کھل ہی جائیں گی جو مر گیا کوئی
دیکھا نہ کر غضب سے کسو خستہ جاں کی اور
کیا بے خبر ہے رفتن رنگین عمر سے
جوے چمن میں دیکھ ٹک آب رواں کی اور
یاں تاب سعی کس کو مگر جذب عشق کا
لاوے اسی کو کھینچ کسو ناتواں کی اور
یارب ہے کیا مزہ سخن تلخ یار میں
رہتے ہیں کان سب کے اسی بد زباں کی اور
یا دل وہ دیدنی تھی جگہ یا کہ تجھ بغیر
اب دیکھتا نہیں ہے کوئی اس مکاں کی اور
آیا کسے تکدر خاطر ہے زیرخاک
جاتا ہے اکثر اب تو غبار آسماں کی اور
کیا حال ہو گیا ہے ترے غم میں میر کا
دیکھا گیا نہ ہم سے تو ٹک اس جواں کی اور
میر تقی میر

ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح

دیوان دوم غزل 793
آنے کی اپنے کیا کہیں اس گلستاں کی طرح
ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح
کیا میں ہی چھیڑ چھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں
اچھی لگے ہے سب کو مرے بد زباں کی طرح
آگے تو بے طرح نہ کبھو کہتے تھے ہمیں
اب تازہ یہ نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
یہ شور دل خراش کب اٹھتا تھا باغ میں
سیکھے ہے عندلیب بھی ہم سے فغاں کی طرح
کرتے تو ہو ستم پہ نہیں رہنے کے حواس
کچھ اور ہو گئی جو کسو خستہ جاں کی طرح
نقشہ الٰہی دل کا مرے کون لے گیا
کہتے ہیں ساری عرش میں ہے اس مکاں کی طرح
مرغ چمن نے زور رلایا سبھوں کے تیں
میری غزل پڑھی تھی شب اک روضہ خواں کی طرح
لگ کر گلے سے اس کے بہت میں بکا کیا
ملتی تھی سرو باغ میں کچھ اس جواں کی طرح
جو کچھ نہیں تو بجلی سے ہی پھول پڑ گیا
ڈالی چمن میں ہم نے اگر آشیاں کی طرح
یہ باتیں رنگ رنگ ہماری ہیں ورنہ میر
آجاتی ہے کلی میں کبھو اس دہاں کی طرح
میر تقی میر

بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا

دیوان دوم غزل 716
لے رنگ بے ثباتی یہ گلستاں بنایا
بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا
اڑتی ہے خاک یارب شام و سحر جہاں میں
کس کے غبار دل سے یہ خاکداں بنایا
اک رنگ پر نہ رہنا یاں کا عجب نہیں ہے
کیا کیا نہ رنگ لائے تب یہ جہاں بنایا
آئینے میں کہاں ہے ایسی صفا کہے تو
جبہوں سے راستوں کے وہ آستاں بنایا
سرگشتہ ایسی کس کی ہاتھ آگئی تھی مٹی
جو چرخ زن قضا نے یہ آسماں بنایا
نقش قدم سے اس کے گلشن کی طرح ڈالی
گرد رہ اس کی لے کر سرو رواں بنایا
ہونے پہ جمع اپنے پھولا بہت تھا لیکن
کیا غنچہ تنگ آیا جب وہ دہاں بنایا
اس صحن پر یہ وسعت اللہ رے تیری صنعت
معمار نے قضا کے دل کیا مکاں بنایا
دل ٹک ادھر نہ آیا ایدھر سے کچھ نہ پایا
کہنے کو ترک لے کر اک سوانگ یاں بنایا
دریوزہ کرتے گذری گلیوں میں عمر اپنی
درویش کب ہوئے ہم تکیہ کہاں بنایا
وہ تو مٹا گیا تھا تربت بھی میر جی کی
دو چار اینٹیں رکھ کر پھر میں نشاں بنایا
میر تقی میر

ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے

دیوان اول غزل 574
دو سونپ دود دل کو میرا کوئی نشاں ہے
ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے
بیٹھا جگر سے اپنے کھینچوں ہوں اس کے پیکاں
جینے کی اور سے تو خاطر مری نشاں ہے
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
اے شمع کچھ تو کہہ تو تیرے بھی تو زباں ہے
بھڑکے ہے آتش گل اے ابرتر ترحم
گوشے میں گلستاں کے میرا بھی آشیاں ہے
ہم زمزمہ تو ہو کے مجھ نالہ کش سے چپ رہ
اے عندلیب گلشن تیرا لب و دہاں ہے
کس دور میں اٹھایا مجھ سینہ سوختہ کو
پیوند ہو زمیں کا جیسا یہ آسماں ہے
کتنی ہی جی نے تجھ سے لی خاک گر اڑائی
وابستگی کر اس سے پر وہی جہاں ہے
ہے قتل گاہ کس کی کوچہ ترا ستمگر
یک عمر خضر ہو گئی خوں متصل رواں ہے
پیرمغاں سعادت تیری جو ایسا آوے
یہ میر مے کشوں میں اک طرز کا جواں ہے
میر تقی میر

شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ

دیوان اول غزل 422
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ
شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ آنکھوں کی
ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ
روسفیدی ہے نقاب رخ شور مستی
ریش قاضی کے سبب پنبہ دہاں ہے شیشہ
منزل مستی کو پہنچے ہے انھیں سے عالم
نشۂ مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ
درمیاں حلقۂ مستاں کے شب اس کی جا تھی
دور ساغر میں مگر پیر مغاں ہے شیشہ
جاکے پوچھا جو میں یہ کارگہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کرکے گداز
شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ
جھک گیا دیکھ کے میں میر اسے مجلس میں
چشم بد دور طرحدار جواں ہے شیشہ
میر تقی میر