دھوپ کی مغویہ اور وہ
شعر کی کنجِ روشن میں سرگوشیاں کر رہے تھے
کہ پکڑے گئے
ظلمتوں کے کماں دار مقتل کی جانب
لئے جا رہے ہیں انہیں
ایک ہُو کی صدا آبنوسوں سے اٹھتی ہوئی
سُن ذرا دستکیں بستیوں میں
جہاں گیر پیغام کی
دیکھ! اس دار پر
چند چھینوں کی شہ سرخیاں
اور خبریں کنشت و کلیسا کی دیوار پر
کوہِ زندہ سے گرتے ہوئے پیڑ کی
دیکھ!
برگِ خزاں بر د ٹہنی پہ پھر سے نمودار ہوتا ہوا
ہر دریچے میں
آنکھوں کی کلیاں سلاخوں پہ چٹکی ہوئی
عکس سے عکس بنتے ہوئے
جیسے جشنِ چراغاں سرِ آب جُو۔۔۔۔
بارشِ اشک سے خشک جنگل میں ہریالیوں کی نمو
آفتاب اقبال شمیم