ٹیگ کے محفوظات: دھول

مُرجھا گئے کھِل کے پُھول یارو

ہم آج ہیں پھر مَلُول یارو
مُرجھا گئے کھِل کے پُھول یارو
گزرے ہیں خزاں نصیب ادھر سے
پیڑوں پہ جمی ہے دُھول یارو
تا حدِّ خیال‘ لالہ و گُل
تا حدِّ نظر‘ ببُول یارو
جب تک کہ ہوس رہی گُلوں کی
کانٹے بھی رہے قبول یارو
ہاں ‘ کوئی خطا نہیں تمھاری
ہاں ‘ ہم سے ہوئی ہے بھول یارو
شکیب جلالی

اب ہے وہی اپنا معمول

تھا جو کبھی اک شوقِ فضول
اب ہے وہی اپنا معمول
کیسی یاد رہی تجھ کو
میری اک چھوٹی سی بھول
غم برگد کا گھنا درخت
خوشیاں ننھے ننھے پھول
اب دل کو سمجھائے کون
بات اگرچہ ہے معقول
آنسو خشک ہوئے جب سے
آنگن میں اُڑتی ہے دھول
تم ہی بدل جاؤ باصرِؔ
کیوں بدلیں دنیا کے اصول
باصر کاظمی

بدلیں چمن کے بس ایسے سارے ہی اصول تو کیا اچّھا ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
پھول پہ منڈلاتی تتلی لے بھاگے پُھول تو کیا اچّھا ہو
بدلیں چمن کے بس ایسے سارے ہی اصول تو کیا اچّھا ہو
ہجر کی گھڑیاں بُجھتی سی چنگاریوں سی راکھ ہوتی جائیں
اُس کے وصل کا لمحہ لمحہ پکڑے طُول تو کیا اچّھا ہو
جو پودا بھی بیج سے پھوٹے کاش وہ پودا سرو نشاں ہو
خاک پہ اُگنے ہی سے اگر باز آئیں ببول تو کیا اچّھا ہو
کاش ہماری جلدوں کے اندر سے جھلکے علم کا غازہ
اپنے چہروں سے دھل جائے جُہل کی دھول تو کیا اچّھا ہو
جس سے بہم میدانِ عمل ہو پھر سے کسی گستاخِ خدا کو
گاہے گاہے سرزد ہو گر ہم سے وہ بھول تو کیا اچّھا ہو
ماجِد کرتے رہو نت تازہ اپنے گلشنِ ذہن کا منظر
پیڑوں سے جھڑ جھڑجائے جو کچھ ہو فضول تو کیا اچّھا ہو
ماجد صدیقی

مردُود، بہت مقبول ہُوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا
مردُود، بہت مقبول ہُوا
ہر طُول کو عرض کیا اُس نے
اور عرض تھا جو وہ طُول ہُوا
پھولوں پہ تصّرف تھا جس کا
وہ دشت و جبل کی دھُول ہُوا
اِک بھول پہ ڈٹنے پر اُس نے
جو کام کیا، وہ اصول ہُوا
گنگا بھی بہم جس کو نہ ہُوا
جلنے پہ وہ ایسا پھول ہُوا
ہو کیسے سپھل پیوندوں سے
ماجد جو پیڑ، ببول ہُوا
ماجد صدیقی

جو بے اصول ہو، کب چاہئیں اصول اُس کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
جو بے اصول ہو، کب چاہئیں اصول اُس کو
کھِلا نہیں ہے ابھی پھول اور یہ عالم ہے
بھنبھوڑ نے پہ تُلی ہے، چمن کی دھول اُس کو
ذرا سی ایک رضا دے کے، ابنِ آدم کو
پڑے ہیں بھیجنے، کیا کیا نہ کچھ رسول اُس کو
ہُوا ہے جو کوئی اک بار، ہم رکابِ فلک
زمیں کا عجز ہو ماجد، کہاں قبول اُس کو
ماجد صدیقی

یعنی خیال سر میں ہے نعت رسولؐ کا

دیوان پنجم غزل 1535
ہے حرف خامہ دل زدہ حسن قبول کا
یعنی خیال سر میں ہے نعت رسولؐ کا
رہ پیروی میں اس کی کہ گام نخست میں
ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا
وہ مقتداے خلق جہاں اب نہیں ہوا
پہلے ہی تھا امام نفوس و عقول کا
سرمہ کیا ہے وضع پئے چشم اہل قدس
احمدؐ کے رہگذار کی خاک اور دھول کا
ہے متحد نبیؐ و علیؓ و وصی کی ذات
یاں حرف معتبر نہیں ہر بوالفضول کا
دھو منھ ہزار پانی سے سو بار پڑھ درود
تب نام لے تو اس چمنستاں کے پھول کا
حاصل ہے میر دوستی اہل بیت اگر
تو غم ہے کیا نجات کے اپنی حصول کا
میر تقی میر

دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا

دیوان دوم غزل 665
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا
حق کی طلب ہے کچھ تو محمدؐ پرست ہو
ایسا وسیلہ ہے بھی خدا کے حصول کا
مطلوب ہے زمان و مکان و جہان سے
محبوب ہے ملک کا فلک کا عقول کا
احمدؐ کو ہم نے جان رکھا ہے وہی احد
مذہب کچھ اور ہو گا کسی بوالفضول کا
جن مردماں کو آنکھیں دیاں ہیں خدا نے وے
سرمہ کریں ہیں رہ کی تری خاک دھول کا
مقصود ہے علیؓ کا ولی کا سبھی کا تو
ہے قصد سب کو تیری رضا کے حصول کا
تھی گفتگوے باغ فدک جڑ فساد کی
جانے ہے جس کو علم ہے دیں کے اصول کا
دعویٰ جو حق شناسی کا رکھیے سو اس قدر
پھر جان بوجھ کریے تلف حق بتولؓ کا
پرواے حشر کیا ہے تجھے میر شاد رہ
ہے عذر خواہ جرم جو وہ تجھ ملول کا
میر تقی میر

ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو

دیوان اول غزل 380
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو
چاہوں تو بھرکے کولی اٹھا لوں ابھی تمھیں
کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو
سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی
شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو
جاویں نثار ہونے کو ہم کس بساط پر
اک نیم جاں رکھیں ہیں سو وہ جب قبول ہو
ہم ان دنوں میں لگ نہیں پڑتے ہیں صبح و شام
ورنہ دعا کریں تو جو چاہیں حصول ہو
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی تو میر صاحب و قبلہ عجول ہو
میر تقی میر

کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 11
دلوں پہ شوق اطاعت کا وہ نزول ہوا
کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا
فنا کے بعد پیامِ بقا بھی لایا ہے
یہ پھول کل جو اسی راستے کی دھول ہوا
گرفتِ فیصلہ میں آ کے کیا سے کیا ہو جائے
ابھی وہ مثلِ شرر تھا، ابھی وہ پھول ہوا
میں اس کی راکھ کے صدقے، اُڑا دیا جس نے
وجود،جس کے لئے جبر نا قبول ہوا
میں عمر کے نہیں کونین کے سفر میں ہوں
کسی زیاں سے کبھی میں نہیں ملول ہوا
آفتاب اقبال شمیم

دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 1
اک کیفیت پیاس کی، دائم ہمیں قبول
دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول
ایک پیالہ دھوپ کا، پی کر ہوئے نہال
سائیں ترے بام سے، اُترا کون ملول
منظر میری آنکھ کا، تیری شام کا رنگ
سرخ شفق کی جھیل میں ، زرد کنول کا پھول
دیکھا تیرے بھیس میں اپنا پہلا رُوپ
آئی دل کے بھید میں ، صدیاں گہری بھول
دستک ہے پیغام کی، کھولو ہند کواڑ
اُڑتے دیکھو دور تک، روشنیوں کی دھول
دیکھو تو اُس شخص کے، ہونے کے انداز
جیسے دکھ کی دھوپ میں ، پیلا سبز ببول
آفتاب اقبال شمیم

سخن دیا ہے تو حسن قبول بھی دے گا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 43
وہ جس نے پود لگائی ہے پھول بھی دے گا
سخن دیا ہے تو حسن قبول بھی دے گا
ابھی تو اور جلو گے اگر چراغ ہو تم
یہ رات ہے تو خدا اس کو طول بھی دے گا
کبھی تو کوئی پڑھے گا لکھا ہوا میرا
کبھی تو کام یہ شوق فضول بھی دے گا
پناہ چاہو تو پھر پیرہن بچاؤ نہیں
جو راستہ تمہیں گھر دے گا، دھول بھی دے گا
وہی بچائے گا تم کو، اور امتحاں کے لیے
وہی کبھی کوئی چھوٹی سی بھول بھی دے گا
بچا بھی لے گا وہ کچھ آزمائشوں سے تمہیں
اور امتحاں کے لیے کوئی بھول بھی دے گا
چلیں تو پیاس کہاں اور آبلے کیسے
وہ دشت اوس بھی دے گا، تو پھول بھی دے گا
MERGED وہ جس نے باغ اُگایا ہے پھول بھی دے گا
دیے ہیں لفظ تو حسنِ قبول بھی دے گا
یہ لَو سنبھال کے رکھو اگر چراغ ہو تم
یہ رات ہے تو خدا اِس کو طول بھی دے گا
مسافرت میں ہیں کیا پیرہن کی فکر کریں
جو راستہ ہمیں گھر دے گا دُھول بھی دے گا
زمانہ مجھ کو سکھا دے گا جنگ کے آداب
وہ زخم ہی نہیں دے گا اُصول بھی دے گا
عرفان صدیقی

دیے ہیں لفظ تو حسن قبول بھی دے گا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 42
یہ باغ جس نے اُگایا ہے پھول بھی دے گا
دیے ہیں لفظ تو حسن قبول بھی دے گا
بچا بھی لے گا بڑی آزمائشوں سے مگر
وہی کبھی کوئی چھوٹی سی بھول بھی دے گا
چلیں تو پیاس کہاں اور آبلے کیسے
یہ دشت اوس بھی دے گا، ببول بھی دے گا
ابھی سے لو نہ بڑھاؤ اگر چراغ ہو تم
یہ رات ہے تو خدا اس کو طول بھی دے گا
مسافروں کو کہاں آتا پیرہن کا خیال
جو راستہ ہمیں گھر دے گا، دھول بھی دے گا
کبھی تو سمجھے گا کوئی لکھا ہوا میرا
کبھی تو کام یہ شوق فضول بھی دے گا
عرفان صدیقی

تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 276
یہ دعا کے چند حرف بس قبول ہوں
تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں
گرفت میں کائناتِ ذات کا خرام
تمہارے ذہن پر علوم کے نزول ہوں
لغاتِ کن فکاں کھلے تمہارے نام سے
کتابیں رازداں سخن سرا رسول ہوں
ہمیشہ ہم قدم رہے بہار رقص میں
اداس چاند ہو نہ گل رتیں ملول ہوں
وہاں وہاں پہ تم سے زعفران کھل اٹھیں
جہاں جہاں پہ خار ہوں ببول ہوں
ہوں منزلِ یقیں کے اونٹ دشتِ وقت میں
خیامِ صبر و انتظار باشمول ہوں
انہیں بھی دیکھنا ضمیرِ عالمین سے
دل و دماغ کے جو طے شدہ اصول ہوں
ہزار حاصلی سہی قیام ، موت ہے
سدا نئے سفر ، نئے حصول ہوں
رکو تو گردشیں رکیں طلسمِ چاک کی
چلو تو چاند تارے راستے کی دھول ہوں
بہشت ماں کی قبر ہوتمہارے کام سے
وہ فاطمہ تھی اس پہ مہرباں بتول ہوں
منصور آفاق