ٹیگ کے محفوظات: دھری

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی
نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے
ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟
ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے
تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
ہمارا علم تو مرہُونِ لوحِ دل ہے میاں
کتابِ عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے
بناؤ سائے، حرارت بدن میں جذب کرو
کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے
نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی
تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے
عرفان ستار

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 93
کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی
نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے
ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟
ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے
تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
ہمارا علم تو مرہُونِ لوحِ دل ہے میاں
کتابِ عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے
بناؤ سائے، حرارت بدن میں جذب کرو
کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے
نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی
تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے
عرفان ستار

کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 108
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی
یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
قمر جلالوی

ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 376
رات جن کاجلی آنکھوں سے لڑی آنکھیں ہیں
ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں
آنکھ جھپکوں تو نکل آتی ہیں دیواروں سے
میرے کمرے میں دو آسیب بھری آنکھیں ہیں
ہجر کی جھیل ترا دکھ بھی ہے معلوم مگر
یہ کوئی نہر نہیں ہے یہ مری آنکھیں ہیں
دیکھتے ہیں کہ یہ سیلاب اترتا کب ہے
دیر سے ایک ہی پانی میں کھڑی آنکھیں ہیں
جن کی مژگاں پہ نمی دیکھ کے تُو روتی تھی
تیز بارش میں ترے در پہ وہی آنکھیں ہیں
کون بچھڑا ہے کہ گلیوں میں مرے چاروں طرف
غم زدہ چہرے ہیں او ر ر وتی ہوئی آنکھیں ہیں
انتظاروں کی دو شمعیں ہیں کہ بجھتی ہی نہیں
میری دہلیز پہ برسوں سے دھری آنکھیں ہیں
اب ٹھہر جا اے شبِ غم کہ کئی سال کے بعد
اک ذرا دیر ہوئی ہے یہ لگی آنکھیں ہیں
باقی ہر نقش اُسی کا ہے مرے سنگ تراش
اتنا ہے اس کی ذرا اور بڑی آنکھیں ہیں
خوف آتا ہے مجھے چشمِ سیہ سے منصور
دیکھ تو رات کی یہ کتنی گھنی آنکھیں ہیں
منصور آفاق