منصور آفاق ۔ غزل نمبر 398
آسماں ! بول کہ اُس پار جہاں ہے کہ نہیں
تُو جہاں ہے کوئی موجود وہاں ہے کہ نہیں
اس خلاباز کی آواز میں سناٹے تھے
چاند پر جس نے کہا ’کوئی یہاں ہے کہ نہیں
مجھ میں موجود ہے کیسے ،یہ سمجھنا ہے ابھی
یہ سوال اور ہے ذرہ میں کہاں ہے کہ نہیں
کوئی لوٹا ہی نہیں روح کے تہہ خانے سے
کیسے معلوم ہو وہ مجھ میں نہاں ہے کہ نہیں
سو گئی تھی جو زرِ فاحشہ کے بستر میں
وہ سپہ آج کفِ شعلہ دھاں ہے کہ نہیں
پھر نکل عرشِ محبت کے سفر پر منصور
پہلے یہ دیکھ وہاں جان جہاں ہے کہ نہیں
منصور آفاق