یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا
یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا
خیالِ حسن میں کتنا بہار پرور ہے
شبِ خزاں کی خنک چاندنی کا نظارا
چلے تو ہیں جرسِ گل کا آسرا لے کر
نہ جانے اب کہاں نکلے گا صبح کا تارا
چلو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر بہار کی لایا ہے کوئی گل پارا
چلے چلو اِنھی گمنام برف زاروں میں
عجب نہیں یہیں مل جائے درد کا چارا
کسے مجال کہ رُک جائے سانس لینے کو
رواں دواں لیے جاتا ہے وقت کا دھارا
بگولے یوں اُڑے پھرتے ہیں خشک جنگل میں
تلاشِ آب میں جیسے غزالِ آوارہ
ہمیں وہ برگِ خزاں دیدہ ہیں جنھیں ناصر
چمن میں ڈھونڈتی پھرتی ہے بوئے آوارہ
ناصر کاظمی