ٹیگ کے محفوظات: دگراں

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 61
تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موج گل ہے نہ کہیں آب رواں ہے جاناں
ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں
ابھی آتا ہے نظر چاند میں چہرہ تیرا
ایک دو پل میں یہ منظر بھی دھواں ہے جاناں
تو جو بولے تو سنوں میں تری آواز کا سچ
ہر طرف خاموشی وہم و گماں ہے جاناں
موسم ہجر سے اس درجہ سبک سار ہے دل
اس پہ اب حرف محبت بھی گراں ہے جاناں
آج تک جو نہ کیا اس کی تلافی کے لیے
اب یہ ذکر لب و رخسار بتاں ہے جاناں
ہم کچھ اس طرح سناتے ہیں کہانی اپنی
کوئی سمجھے کہ حدیث دگراں ہے جاناں
جو کبھی تونے کہا اور نہ کبھی ہم نے سنا
وہی اک لفظ تو سرنامۂ جاں ہے جاناں
عرفان صدیقی

کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 123
تم جو عرفانؔ یہ سب دردِ نہاں لکھتے ہو
کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو
جانتے ہو کہ کوئی موج مٹا دے گی اسے
پھر بھی کیا کیا سرِ ریگِ گزراں لکھتے ہو
جس کے حلقے کا نشاں بھی نہیں باقی کوئی
اب تک اس رشتے کو زنجیرِ گراں لکھتے ہو
یہ بھی کہتے ہو کہ احوال لکھا ہے جی کا
اور یہ بھی کہ حدیثِ دگراں لکھتے ہو
یہ بھی لکھتے ہو کہ معلوم نہیں ان کا پتا
اور خط بھی طرفِ گمشدگاں لکھتے ہو
سایہ نکلے گا جو پیکر نظر آتا ہے تمہیں
وہم ٹھہرے گا جسے سروِ رواں لکھتے ہو
اتنی مدت تو سلگتا نہیں رہتا کچھ بھی
اور کچھ ہو گا جسے دل کا دھواں لکھتے ہو
کوئی دلدار نہیں تھا تو جتاتے کیا ہو
کیا چھپاتے ہو اگر اس کا نشاں لکھتے ہو
تم جو لکھتے ہو وہ دُنیا کہیں ملتی ہی نہیں
کون سے شہر میں رہتے ہو‘ کہاں لکھتے ہو
عرفان صدیقی

کون بچھڑا تھا وہاں یاد نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 139
چشمک ہم سفراں یاد نہیں
کون بچھڑا تھا وہاں یاد نہیں
دل شوریدہ سے الجھا تھا کوئی
تم تھے یا درد جہاں یاد نہیں
ہم تھے شاکی کہ جہاں تھا شاکی
کون تھا کس پہ گراں یاد نہیں
زندگی چال نہ چل جائے کہیں
کوئی بھی اپنا نشاں یاد نہیں
ہم کہاں ہیں کہ ہمیں اب کچھ بھی
جز حدیث دگراں یاد نہیں
آگ گلشن میں لگی تھی باقیؔ
فصل گل تھی کہ خزاں یاد نہیں
باقی صدیقی