ٹیگ کے محفوظات: دکھن

دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں

جنگل میں پھر رہے ہیں ، چمن چھوڑ آئے ہیں
دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں
اس کا علاج کر نہ سکے گی کبھی بہار
پھولوں میں چٹکیوں کی دُکھن چھوڑ آئے ہیں
چبھتی ہیں ان کی رُوح میں پھانسیں بہار کی
جو لوگ فصلِ گل میں چمن چھوڑ آئے ہیں
زنداں سے ساتھ لائے ہیں زنجیرِ خامشی
دیوانے رسمِ دار و رسن چھوڑ آئے ہیں
اے اجنبی دیار! محبت کی اک نگاہ!
ہم خانماں خراب وطن چھوڑ آئے ہیں
کچھ تم نے چُن لیے ہیں ہمارے طریقِ زیست
کچھ ہم خصوصیاتِ کُہن چھوڑ آئے ہیں
کاش ان کی جستجو کو اُٹھیں کاروانِ نو
کچھ نقشِ پا شہیدِ وطن چھوڑ آئے ہیں
خوابوں کی دیویوں نے بلایا ہے جب، شکیبؔ
ہم دو جہاں بچشمِ زَدَن چھوڑ آئے ہیں
شکیب جلالی

تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ

دیوان دوم غزل 790
دل کھو گیا ہوں میں یہیں دیوانہ پن کے بیچ
تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ
کیا جانے دل میں چائو تھے کیا کیا دم وصال
مہجور اس کا تھا ہمہ حسرت کفن کے بیچ
کنعاں سے جا کے مصر میں یوسفؑ ہوا عزیز
عزت کسو کی ہوتی نہیں ہے وطن کے بیچ
سن اے جنوں کہ مجھ میں نہیں کچھ سواے دم
تار ایک رہ گیا ہے یہی پیرہن کے بیچ
سرسبز ہند ہی میں نہیں کچھ یہ ریختہ
ہے دھوم میرے شعر کی سارے دکھن کے بیچ
ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست
پر ویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ
بلبل خموش و لالہ و گل دونوں سرخ و زرد
شمشاد محو بے کلی اک نسترن کے بیچ
کل ہم بھی سیر باغ میں تھے ساتھ یار کے
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے چمن کے بیچ
یا ساتھ غیر کے ہے تمھیں ویسی بات چیت
سو سو طرح کے لطف ہیں اک اک سخن کے بیچ
یا پاس میرے لگتی ہے چپ ایسی آن کر
گویا زباں نہیں ہے تمھاری دہن کے بیچ
فرہاد و قیس و میر یہ آوارگان عشق
یوں ہی گئے ہیں سب کی رہی من کی من کے بیچ
میر تقی میر

تج دو کہ برت لو، دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو، دن تو یہی

مجید امجد ۔ غزل نمبر 148
اک سانس کی مدھم لو تو یہی، اک پل تو یہی، اک چھن تو یہی
تج دو کہ برت لو، دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو، دن تو یہی
لرزاں ہے لہو کی خلیجوں میں، پیچاں ہے بدن کی نسیجوں میں
اک بجھتے ہوئے شعلے کا سفر، کچھ دن ہو اگر کچھ دن تو یہی
بل کھائے، دکھے، نظروں سے رِسے، سانسوں میں بہے، سوچوں میں جلے
بجھتے ہوئے اس شعلے کے جتن، ہے کچھ بھی اگر کچھ دن تو یہی
میں ذہن پہ اپنے گہری شکن، میں صدق میں اپنے بھٹکا ہوا
ان بندھنوں میں اک انگڑائی، منزل ہے جو کوئی کٹھن تو یہی
اس ڈھب سے جییں سینوں کے شرر، جھونکوں میں گھلیں، قدروں میں تلیں
کاوش ہے کوئی مشکل تو یہی، کوشش ہے کوئی ممکن تو یہی
پھر برف گری، اک گزری ہوئی پت جھڑ کی بہاریں یاد آئیں
اس رُت کی نچنت ہواؤں میں ہیں، کچھ ٹیسیں اتنی دکھن تو یہی
مجید امجد