ٹیگ کے محفوظات: دکھا

اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے

عشق کے حق میں کچھ گواہی دے
اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے
اے سَرِشک! اے سفیِرِ خاموشی
آج تُو نُطق کو ہَرا ہی دے
کب تلک روز روز کی قَسمیں
ایک دن داغِ دِل دِکھا ہی دے
اُس سے شکوہ دَبی زبان سے کر
یہ نہ ہو بزم سے اُٹھا ہی دے
وہ تغافل پہ مائل اَور اِدَھر
ہَر نیا زخم اِک مزا ہی دے
جاؤ! لا کَر دِکھاؤ! ایسا دِل
جو دُکھے جائے اُور دُعا ہی دے
کوئی اُس سے کہے یہ ہیں ضامنؔ
پِھر تعارف مِرا کَرا ہی دے
ضامن جعفری

نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں

سیاحتِ کوئے گلعذاراں میں جو بھی سیکھا بھُلا رہا ہوں
نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں
میں مد و جذر نَفَس رہا ہوں کبھی قرارِ نظر کسی کا
بہت سہانی رُتیں تھیں جب میں دلوں کی دھڑکن بنا رہا ہوں
کسی کی دُھن میں مگن ہوں دنیا مجھے شکارِ جنوں نہ سمجھے
یہ ایک ہی نقش جو مسلسل بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں
مٹا سکیں تو مٹا دیں بالکل بیاضِ دل سے وہ نام میرا
پر اُس حقیقت کا کیا کریں گے وہ دل میں جو میں بسا رہا ہوں
خبر کرو بجلیوں کو کوئی کہ میری ہمّت جواں ہے اب بھی
ابھی کہاں سے ہے مات بازی میں پھر نشیمن بنا رہا ہوں
نکل ہی آ ئے گا اِک نہ اِک دن مسائلِ زیست کا کوئی حل
سکون فی الحال تو یہی ہے گذر رہی ہے نبھا رہا ہوں
نہ جانے کس چیز کا تھا دھڑکا کھٹک رہا تھا وجود میرا
رہو سکوں سے اب اہلِ دنیا یہ لو میں دنیا سے جا رہا ہوں
حضورِ داور کھڑا ہوا ہوں مصر ہوں سننے پہ فردِ عصیاں
بہت سی نظریں یہ کہہ رہی ہیں میں سوئے فتنے جگا رہا ہوں
میں جاتے جاتے بھی اس جہاں سے رہا ہوں مصروفِ کار ضامنؔ
بلندیٔ دوشِ اقرباء سے مآلِ ہستی دکھا رہا ہوں
ضامن جعفری

ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا

دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا
وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
جدائیوں کے زخم دردِ زِندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہی ں کہ آسمان کھا گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
گئے دِنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اُٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
ناصر کاظمی

کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا

کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا
جدائیوں کے مرحلے بھی حسن سے تہی نہ تھے
کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا
کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں
زمانہ اُس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا
یہ کیا مقامِ شوق ہے نہ آس ہے نہ یاس ہے
یہ کیا ہوا کہ لب پہ تیرا نام آ کے رہ گیا
کوئی بھی ہم سفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں
بہت ہوا تو رفتگاں کا دھیان آ کے رہ گیا
چراغِ شامِ آرزو بھی جھلملا کے رہ گئے
ترا خیال راستے سجھا سجھا کے رہ گیا
چمک چمک کے رہ گئیں نجوم و گل کی منزلیں
میں درد کی کہانیاں سنا سنا کے رہ گیا
ترے وصال کی اُمید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا
وہی اُداس روز و شب، وہی فسوں، وہی ہوا
ترے وصال کا زمانہ یاد آ کے رہ گیا
ناصر کاظمی

نہ مل سکیں جو کہیں سے تو خود بنا خبریں

مقابلہ ہے کہ ہیں کس کے پاس کیا خبریں
نہ مل سکیں جو کہیں سے تو خود بنا خبریں
ہے میرے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ
اگر مرے لیے لانا ہے کچھ تو لا خبریں
سنی سنائی پہ کرتا نہیں یقین کوئی
سنانی چھوڑ مرے دوست اب دکھا خبریں
دیا نہ دھیان کسی نے کھلا نہ در کوئی
نگر نگر لیے پھرتی رہی ہوا خبریں
ہوئی کسی کی توجہ نہ جس عمارت پر
اُسی کے ملبے میں بکھری ہیں جا بجا خبریں
باصر کاظمی

دیکھ کے کیا پلٹا ہے کچھ تو بتا او یار!

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
شاہ نگر سے وہ کہ ہے شہرِ ریا او یار!
دیکھ کے کیا پلٹا ہے کچھ تو بتا او یار!
کب تک اور ہمیں بے دم ٹھہرائے گی
ذکر سے شاہوں کے مسموم ہوا او یار!
اپنا مقدّر جنیں یا آفت سمجھیں
جس میں گھرے ہیں ہم وہ حبس ہے کیا او یار!
زورآور خوشبو بردار بتائیں جسے
کیوں وہ صبا لگتی ہے تعفّن زا او یار!
ذہن میں در آئے ہیں یہ کون سے اندیشے
بستر تک کیوں لگنے لگا ہے چِتا او یار!
جبر نے کونسا اور اب طیش دکھایا ہے
عدل کے حجلوں میں بھی شور بپا او یار!
رُخ پہ سرِ میداں نہ یہ کالک مَل اپنے
ماجِد تجھ سے کہے مت پیٹھ دکھا او یار!
ماجِد جبر کی رُت میں سخن کو دھیما رکھ
دھیان میں اپنے پیری بھی کچھ لا او یار!
ماجد صدیقی

کہ جو گفتنی ہے، زبان پر نہ کوئی بھی شہر میں لا سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
جو مِلے تو والیٔ شہر کو یہی بات ہم بھی بتا سکے
کہ جو گفتنی ہے، زبان پر نہ کوئی بھی شہر میں لا سکے
جو ٹلا عقاب تو برق نے ہیں چڑھائے تیر سرِکماں
ہے کوئی کہ جور سے فاختہ کو جو آسماں کے بچا سکے
ہے یہی تو اُس کا کمالِ فن، کہ ہے راستی میں وُہ پُرفتن
نہ بچا کوئی سرِانجمن، جو فریب اُس کا نہ کھا سکے
سبھی کشتیاں سرِ آب ہیں کہ جو مبتلائے عذاب ہیں
جو بُکا کسی کی سُنے بھی تو کوئی کیا کرشمہ دکھا سکے
جو نہیں ہے ابرِ کرم کہیں تو فلک سے بھیج وُہ آگ ہی
کہ جو کشتِ جاں میں بسی ہوئی نمِ آرزو ہی جلا سکے
ہوئے شل جو وار سے غیر کے اُنہی بازوؤں کی کمان پر
یہ ہمِیں تھے تیرِ سخن تلک کسی طَور جو نہ چڑھا سکے
سبھی مصلحت کے اسیر تھے کوئی تھا نہ ہم ساخسارہ جُو
ہمِیں ایکِماجدؔ سادہ دل‘ نہ ابال دل کا دبا سکے
ماجد صدیقی

جینے کا ذرا تو حوصلہ دے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 99
چہرہ نہ دکھا،صدا سُنادے
جینے کا ذرا تو حوصلہ دے
دِکھلا کسی طور اپنی صُورت
آنکھوں مزید مت سزا دے
چُھو کر مری سوچ میرے تن میں
بیلیں ہرے رنگ کی اُگا دے
جاناں ! نہ خیالِ دوستی کر
دے زہر جو اَب تو تیز سادے
شدّت ہے مزاج میرے خُوں کا
نفرت کی بھی دے تو انتہا دے
ٹوٹی ہُوئی شام منتظرِ ہے
جُھک کر مجھے آئینہ دکھا دے
دل پھٹنے لگاہے ضبطِ غم سے
مالک ! کوئی درد آشنا دے
سوئی ہے ابھی تو جاکے شبنم
ایسا نہ ہو موجِ گل اُٹھا دے
چکھّوں ممنوعہ ذائقے بھی
دل!سانپ سے دوستی بڑھا دے
پروین شاکر

کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 126
نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے
اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو
ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تو نے
مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا
مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تو نے
یہ کہو پیش خدا حشر میں منثا کیا تھا
میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تو نے
ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے
وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں کہ دغا دی تو نے
کھلبلی مچ گئی تاروں میں قمر نے دیکھا
شب کو یہ چاند سی صورت جو دکھا دی تو نے
قمر جلالوی

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 75
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
جون ایلیا

دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں

دیوان ششم غزل 1845
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آجاتا ہوں
دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں
سعی دشمن کو نہیں دخل مری ایذا میں
رنج سے عشق کے میں آپھی کھپا جاتا ہوں
گرچہ کھویا سا گیا ہوں پہ تہ حرف و سخن
اس فریبندۂ عشاق کی پا جاتا ہوں
خشم کیوں بے مزگی کاہے کو بے لطفی کیا
بدبر اتنا بھی نہ ہو مجھ سے بھلا جاتا ہوں
استقامت سے ہوں جوں کوہ قوی دل لیکن
ضعف سے عشق کے ڈھہتا ہوں گرا جاتا ہوں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
در و دیوار کو احوال سنا جاتا ہوں
گاہ باشد کہ سمجھ جائے مجھے رفتۂ عشق
دور سے رنگ شکستہ کو دکھا جاتا ہوں
یک بیاباں ہے مری بیکسی و بیتابی
مثل آواز جرس سب سے جدا جاتا ہوں
تنگ آوے گا کہاں تک نہ مرا قلب سلیم
بگڑی صحبت کے تئیں روز بنا جاتا ہوں
گرمی عشق ہے ہلکی ابھی ہمدم دل میں
روز و شب شام و سحر میں تو جلا جاتا ہوں
میر تقی میر

کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر

دیوان ششم غزل 1824
آیا جو اپنے گھر سے وہ شوخ پان کھاکر
کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر
شاید کہ منھ پھرا ہے بندوں سے کچھ خدا کا
نکلے ہے کام اپنا کوئی خدا خدا کر
کان اس طرف نہ رکھے اس حرف ناشنو نے
کہتے رہے بہت ہم اس کو سنا سنا کر
کہتے تھے ہم کسو کو دیکھا کرو نہ اتنا
دل خوں کیا نہ اپنا آنکھیں لڑا لڑا کر
آگے ہی مررہے ہیں ہم عشق میں بتاں کے
تلوار کھینچتے ہو ہم کو دکھا دکھا کر
وہ بے وفا نہ آیا بالیں پہ وقت رفتن
سو بار ہم نے دیکھا سر کو اٹھا اٹھا کر
جلتے تھے ہولے ہولے ہم یوں تو عاشقی میں
پر ان نے جی ہی مارا آخر جلا جلا کر
سوتے نہ لگ چل اس سے اے باد تو نے ظالم
بہتیروں کو سلایا اس کو جگا جگا کر
مدت ہوئی ہمیں ہے واں سے جواب مطلق
دفتر کیے روانہ لکھ لکھ لکھا لکھا کر
کیا دور میر منزل مقصود کی ہے اپنے
اب تھک گئے ہیں اودھر قاصد چلا چلا کر
میر تقی میر

تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا

دیوان پنجم غزل 1570
آیا سو آب تیغ ہی مجھ کو چٹا گیا
تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا
کیا شہر خوش عمارت دل سے ہے گفتگو
لشکر نے غم کے آن کے مارا چلا گیا
موقوف یار غیر جلانا مرا نہیں
جو کوئی اس کے کان لگا کچھ لگا گیا
تنہائی بیکسی مری یک دست تھی کہ میں
جیسے جرس کا نالہ جرس سے جدا گیا
کیا تم سے اپنے دل کی پریشانی میں کہوں
دریاے گریہ جوش زناں تھا بہا گیا
روزانہ اب تو اپنے تئیں سوجھتا نہیں
آخر کو رونا راتوں کا ہی دن دکھا گیا
سررفتگی بدی مری ننوشتنی ہے میر
قاصد جو لے کے نامہ گیا سو بھلا گیا
میر تقی میر

ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت

دیوان سوم غزل 1115
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت
ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت
منھ لگانا تو درکنار ان نے
نہ کہا ہے یہ آشنا صورت
منھ دکھاتی ہے آرسی ہر صبح
تو بھی اپنی تو ٹک دکھا صورت
خوب ہے چہرئہ پری لیکن
آگے اس کے ہے کیا بلا صورت
کب تلک کوئی جیسے صورت باز
آوے پیاری بنا بنا صورت
ایک دن تو یہ کہہ کہ ملنے کی
تو بھی ٹھہرا کے کوئی لا صورت
حلقے آنکھوں میں پڑ گئے منھ زرد
ہو گئی میر تیری کیا صورت
میر تقی میر

تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا

دیوان دوم غزل 729
آنسو مری آنکھوں میں ہر دم جو نہ آجاتا
تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا
اصلح ہے حجاب اس کا ہم شوق کے ماروں سے
بے پردہ جو وہ ہوتا تو کس سے رہا جاتا
طفلی کی ادا تیری جاتی نہیں یہ جی سے
ہم دیکھتے تجھ کو تو تو منھ کو چھپا جاتا
صد شکر کہ داغ دل افسردہ ہوا ورنہ
یہ شعلہ بھڑکتا تو گھر بار جلا جاتا
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
ان آنکھوں سے ہم چشمی برجاہے جو میں جل کر
بادام کو کل یارو مجلس ہی میں کھا جاتا
صحبت سگ و آہو کی یک عمر رہی باہم
وہ بھاگتا مجھ سے تو میں اس سے لگا جاتا
گر عشق نہیں ہے تو یہ کیا ہے بھلا مجھ کو
جی خودبخود اے ہمدم کاہے کو کھپا جاتا
جوں ابر نہ تھم سکتا آنکھوں کا مری جھمکا
جوں برق اگر وہ بھی جھمکی سی دکھا جاتا
تکلیف نہ کی ہم نے اس وحشی کو مرنے کی
تھا میر تو ایسا بھی دل جی سے اٹھا جاتا
میر تقی میر

کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

دیوان اول غزل 605
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلاکر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھاکر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھپاکر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہاکر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدے کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آکر چلے
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھاکر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
میر تقی میر

اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے

دیوان اول غزل 587
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے
اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے
ہم گرم رو ہیں راہ فنا کے شرر صفت
ایسے نہ جائیں گے کہ کوئی کھوج پا سکے
غافل نہ رہیو آہ ضعیفوں سے سرکشاں
طاقت ہے اس کو یہ کہ جہاں کو جلا سکے
میرا جو بس چلے تو منادی کیا کروں
تا اب سے دل نہ کوئی کسو سے لگا سکے
تدبیر جیب پارہ نہیں کرتی فائدہ
ناصح جگر کا چاک سلا جو سلا سکے
اس کا کمال چرخ پہ سر کھینچتا نہیں
اپنے تئیں جو خاک میں کوئی ملا سکے
یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ تو ہے بوالہوس
کھانا تجھے حرام ہے جو زخم کھا سکے
اس رشک آفتاب کو دیکھے تو شرم سے
ماہ فلک نہ شہر میں منھ کو دکھا سکے
کیا دل فریب جاے ہے آفاق ہم نشیں
دو دن کو یاں جو آئے سو برسوں نہ جا سکے
مشعر ہے اس پہ مردن دشوار رفتگاں
یعنی جہاں سے دل کو نہ آساں اٹھا سکے
بدلوں گا اس غزل کے بھی میں قافیے کو میر
پھر فکر گو نہ عہدے سے اس کے بر آسکے
میر تقی میر

یوں پھونک کرکے خاک مری سب اڑا گئی

دیوان اول غزل 442
کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی
یوں پھونک کرکے خاک مری سب اڑا گئی
کچھ تھی طپش جگر کی تو بارے مزاج داں
پر دل کی بے قراری مری جان کھا گئی
کس پاس جا کے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے
مجنوں کو موت کیسی شتابی سے آگئی
کون اس ہوا میں زخمی نہیں میری آہ کا
بجلی رہی تھی سو بھی تو سینہ دکھا گئی
سودا جو اس کے سر سے گیا زلف یار کا
تو تو بڑی ہی میر کے سر سے بلا گئی
میر تقی میر

تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں

دیوان اول غزل 291
اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
وقت خوش ان کا جو ہم بزم ہیں تیرے ہم تو
در و دیوار کو احوال سنا جاتے ہیں
جائے گی طاقت پا آہ تو کریے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں
ایک بیمار جدائی ہوں میں آپھی تس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
غیر کی تیغ زباں سے تری مجلس میں تو ہم
آ کے روز ایک نیا زخم اٹھا جاتے ہیں
عرض وحشت نہ دیا کر تو بگولے اتنی
اپنی وادی پہ کبھو یار بھی آجاتے ہیں
میر صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں
میر تقی میر

اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

دیوان اول غزل 144
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ باد صبح کہ آکر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما ومن کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا
کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا
گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا
مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا
تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
میر تقی میر

اب کے شرط وفا بجا لایا

دیوان اول غزل 85
بارہا گور دل جھنکا لایا
اب کے شرط وفا بجا لایا
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم میں میں دکھا لایا
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر

سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 589
ہوتے مرے بھی خال و خد، آئینہ دیکھتا مجھے
سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے
کشفِ وصال و ہجر میں کیسا شعورِ ذات ہے
عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے
اس کے خرامِ ناز پر کوئی چراغ کیا جلا
شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے
لکھی غزل ہے میر نے میرے چُرا چُرا کے خواب
غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے
قریہء ماہ تاب تک چھان کے آ گیا ہوں میں
منزلِ وصل کے لیے اتنا نہ اب پھرا مجھے
اس کو حیات بخش دی، مہر منیر ہو گیا
شاخِ صلیبِ شام پر جس نے کہا خدا مجھے
جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے
چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے
کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں
میرے قریب بیٹھ کر تُو بھی کبھی منا مجھے
مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک
میرا مقام و مرتبہ، پستی نہیں ، اٹھا مجھے
میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں
میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے
ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں
لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے
میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی
اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے
خیمۂ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو
حرف صدائے کن بتا، کیسے ہے تھامنا مجھے
اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے
لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے
میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے
اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے
ایک کرن شعور کی، ایک بہار نور کی
اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے
مجھ سے بڑا کوئی نہیں ‘ رات کے اک چراغ نے
کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے
آمدِ یار کے لیے جمع چراغِ چشم ہیں
کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے
پاؤں میں ہے غبارِ رہ، آنکھ میں منظرِ سیہ
دل ہے مرا طلب کدہ کوئی دیا دکھا مجھے
اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا
پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے
کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیوں ترے بغیر
دیتا تمام شہر ہے، جینے کا مشورہ مجھے
رستہ تھا روشنی بکف، گھر تھا چمن بنا ہوا
تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے
میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں
میرے بدن پہ پاؤں رکھ، قوس قزح بنا مجھے
کہتی ہے داستانِ نور، آ کے سیہ لباس میں
مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے
سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں
چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے
مستی سے بھر، ترنگ دے، دل کو کوئی امنگ دے
اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے
منصور آفاق

جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 3
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
رایوں کے راج چھینے شاہونکے تاج چھینے
گردن کشوں کو اکثر نیچا دکھا کے چھوڑا
فرہاد کوہکن کی لی تو نے جان شیریں
اور قیس عامری کو مجنوں بنا کے چھوڑا
یعقوب سے بشر کو دی تو نے ناصبوری
یوسف سے پارسا پر بہتان لگا کے چھوڑا
عقل و خرد نے تجھ سے کچھ چپقلش جہاں کی
عقل و خرد کا تو نے خاکہ اڑا کے چھوڑا
افسانہ تیرا رنگین، روداد تیری دلکش
شعر و سخن کا تو نے جادو بنا کے چھوڑا
اک دسترس سے تیری حالیؔ بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا
الطاف حسین حالی

تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 72
اک آئینہ نظر میں سما کر چلا گیا
تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا
ہم دیکھ کر جہاں کو ہراساں ہیں اس طرح
یک لخت جیسے کوئی جگا کر چلا گیا
دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
دل پر کھلا نہ تھا کبھی یہ تشنگی کا روپ
وہ میرا زہر مجھ کو پلا کر چلا گیا
رات اپنے سائے سائے میں چھپتا رہا ہوں میں
اتنے چراغ کوئی جلا کر چلا گیا
اس طرح چونک چونک اٹھا ہوں خیال میں
جیسے ابھی ابھی کوئی آ کر چلا گیا
اک پھول اتنے رنگ نہ لایا تھا اپنے ساتھ
راہوں میں جتنے خار بچھا کر چلا گیا
باقیؔ ابھی یہ کون تھا موج صبا کے ساتھ
صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا
باقی صدیقی