جنوں کو دامِ خِرد سے کبھی رہائی تو دے
ذرا سی دھول چَھٹے راستہ سجھائی تو دے
میں بندگی کو بھی نادیدہ رفعتیں دے دُوں
وہ ایک پل کے لیے ہی مجھے خدائی تو دے
سکوتِ مرگ ہو کیسے حیات کا قائل
کبھی کبھی کوئی آوازِ پا سُنائی تو دے
یہ کیا کہ چھوڑ دیا نائبِ خدا کہہ کر
بشر کو اوجِ بشر تک کبھی رسائی تو دے
ابھی نہ دعویِٰ تکمیلِ عشق کر ضامنؔ
نظر کو منزلِ جذب و فنا دِکھائی تو دے
ضامن جعفری