ٹیگ کے محفوظات: دکان

بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اُڑان پر

ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اُڑان پر
آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہُو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتا
دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر
یارو! میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں
سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر
کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر
جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دُور تک
بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر
حق بات آ کے رُک سی گئی تھی کبھی‘ شکیبؔ
چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر
شکیب جلالی

طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 53
اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش
کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش
فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش
یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے
یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش
قدح سے دل ہے مراد اور مے سے عشق غرض
میں وہ نہیں کہ نہ سمجھوں زبانِ بادہ فروش
عجب نہیں کہ کسی روز وہ بھی آ نکلیں
کہ ہے گزرگہِ خلق، آستانِ بادہ فروش
مے و سرود کے اسرار آپ آ کر دیکھ
نہ پوچھ مجھ سے کہ ہوں راز دانِ بادہ فروش
شراب دیکھ کہ کس رنگ کی پلاتا ہے
جز اس کے اور نہیں امتحانِ بادہ فروش
تری شمیم نے گلزار کو کیا برباد
تری نگاہ نے کھولی دکانِ بادہ فروش
عبث ہے شیفتہ ہر اک سے پوچھتے پھرنا
ملے گا بادہ کشوں سے نشانِ بادہ فروش
مصطفٰی خان شیفتہ

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 43
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آگیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
جون ایلیا

رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر

دیوان دوم غزل 805
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر
کچھ ہورہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر
یہ دلبری کے فن و فریب اتنی عمر میں
جھنجھلاہٹ اب تو آوے ہے اس کے سیان پر
محتاج کر خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال
تشہیر کون شہر میں ہو پارہ نان پر
دیکھا نہ ہم نے چھوٹ میں یاقوت کی کبھو
تھا جو سماں لبوں کے ترے رنگ پان پر
کیا رہروان راہ محبت ہیں طرفہ لوگ
اغماض کرتے جاتے ہیں جی کے زیان پر
پہنچا نہ اس کی داد کو مجلس میں کوئی رات
مارا بہت پتنگ نے سر شمع دان پر
یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھائو کی
ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان پر
بزاز کے کو دیکھ کے خرقے بہت پھٹے
بیٹھا وہ اس قماش سے آکر دکان پر
موزوں کرو کچھ اور بھی شاید کہ میر جی
رہ جائے کوئی بات کسو کی زبان پر
میر تقی میر

سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے

دیوان اول غزل 511
کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے
سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے
دی آگ دل کو محبت نے جب سے پھرتا ہوں
میں جس طرح کسو کا خانمان جل جاوے
دوا پذیر نہیں اے طبیب تپ غم کی
بدن میں ٹک رہے تو استخوان جل جاوے
نہ آوے سوز جگر منھ پہ شمع ساں اے کاش
بیان کرنے سے آگے زبان جل جاوے
ہمارے نالے بھی آتش ہی کے ہیں پرکالے
سنے تو بلبل نالاں کی جان جل جاوے
ہزار حیف کہ دل خار و خس سے باندھے کوئی
خزاں میں برق گرے آشیان جل جاوے
متاع سینہ سب آتش ہے فائدہ کس کا
خیال یہ ہے مبادا دکان جل جاوے
نہ پوچھ کچھ لب ترسا بچے کی کیفیت
کہوں تو دختر رز کی فلان جل جاوے
نہ بول میر سے مظلوم عشق ہے وہ غریب
مبادا آہ کرے سب جہان جل جاوے
میر تقی میر

یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں

دیوان اول غزل 300
نکلے ہے جنس حسن کسی کاروان میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں
جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اس بھی جہان میں
یارب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عشق بھر رہا ہے تمام آسمان میں
ہم اس سے آہ سوز دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتش دروں سے پھپھولے زبان میں
غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سویاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں
غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں
وے دن گئے کہ آتش غم دل میں تھی نہاں
سوزش رہے ہے اب تو ہر اک استخوان میں
دل نذر و دیدہ پیش کش اے باعث حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں
کھینچا نہ کر تو تیغ کہ اک دن نہیں ہیں ہم
ظالم قباحتیں ہیں بہت امتحان میں
پھاڑا ہزار جا سے گریبان صبر میر
کیا کہہ گئی نسیم سحر گل کے کان میں
میر تقی میر

ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 6
پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر
ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر
برسوں درونِ سینہ سلگنا ہے پھر ہمیں
لگتا ہے قفلِ حبس ہوا کے مکان پر
اک دھاڑ ہے کہ چاروں طرف سے سنائی دے
گردابِ چشم بن گئیں آنکھیں مچان پر
موجود بھی کہیں نہ کہیں التوا میں ہے
جو ہے نشان پر وہ نہیں ہے نشان پر
اس میں کمال اس کی خبر سازیوں کا ہے
کھاتا ہوں میں فریب جو سچ کے گمان پر
سرکش کو نصف عمر کا ہو لینے دیجئے
بک جائے کا کسی نہ کسی کی دکان پر
آفتاب اقبال شمیم

بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 521
فراق بیچتے کیسے، پلان کیا کرتے
بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے
ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی
سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے
نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے
یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے
تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر
ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے
بدن کا روح سے تھا اختلاف لیکن ہم
خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے
فلک نژاد تھے اور لوٹ کے بھی جانا تھا
زمیں کے کس طرح ہوتے، مکان کیا کرتے
نمازاوڑھ کے رکھتے تھے، حج پہنتے تھے
ترے ملنگ تھے ہم ،دو جہان کیا کرتے
دکانِ دین فروشی پہ بِک رہا تھا تُو
تجھے خریدتے کیسے ، گمان کیا کرتے
نہ ہوتی صبحِ محمدثبوتِ حق کیلئے
تو یہ چراغوں بھرے آسمان کیا کرتے
پھر اس کے بعد بلندی سے کیا ہمیں منصور
مقامِ عرش سے کوئی اڑان کیا کرتے
منصور آفاق