ٹیگ کے محفوظات: دُعا

کیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 76
میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئی
کیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئی
ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں
زندگی کا یقیں کس کو تھا ، بس یہ کہیے ، دوا لگ گئی
جُھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا ، سنگ اُٹھائے ہُوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خُدا لگ گئی
جنگلوں کے سفر میں توآسیب سے بچ گئی تھی ، مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی
نیم تاریک تنہائی میں سُرخ پُھولوں کا بن کِھل اُٹھا
ہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئی
وہ جو پہلے گئے تھے ، ہمیں اُن کی فرقت ہی کچھ کم نہ تھی
جان ! کیا تجھ کو بھی شہرِ نا مہرباں کی ہوا لگ گئی
دو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اُٹھانے لگی
میرے دل کو بھی شاید ترے حوصلوں کی ادا لگ گئی
میز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر ،
درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئی
پروین شاکر

کام ، پت جھڑ کے اسیروں کی دُعا آئی ہو

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 47
سبز موسم کی خبر لے کے ہَوا آئی ہو
کام ، پت جھڑ کے اسیروں کی دُعا آئی ہو
لَوٹ آئی ہو وہ شب جس کے گُزر جانے پر
گھاٹ سے پائلیں بجنے کی صدا آئی ہو
اِسی اُمید میں ہر موجِ ہَوا کو چُوما
چُھو کے شاید میرے پیاروں کی قبا آئی ہو
گیت جِتنے لِکھے اُن کے لیے اے موج صبا!
دل یہی چاہا کہ تو اُن کو سُناآئی ہو
آہٹیں صرف ہَواؤں کی ہی دستک نہ بنیں
اب تو دروازوں پہ مانوس صدا آئی ہو
یُوں سرِ عام، کُھلے سر میں کہاں تک بیٹھوں
کِسی جانب سے تو اَب میری ردا آئی ہو
جب بھی برسات کے دن آئے ،یہی جی چاہا
دُھوپ کے شہر میں بھی گِھر کے گھٹا آئی ہو
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موجِ بہار!
اب کے میرے لیے خوشبوئے حِنا آئی ہو
پروین شاکر

حالتِ حال یک صدا مانگو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 72
کوئے جاناں میں اور کیا مانگو
حالتِ حال یک صدا مانگو
ہر نفس تم یقینِ منعم سے
رزق اپنے گمان کا مانگو
ہے اگر وہ بہت ہی دل نزدیک
اس سے دُوری کا سلسلہ مانگو
درِ مطلب ہے کیا طلب انگیز
کچھ نہیں واں سو کچھ بھی جا مانگو
گوشہ گیرِ غبارِ ذات ہوں میں
مجھ میں ہو کر مرا پتا مانگو
مُنکرانِ خدائے بخشزہ
اس سے تو اور اک خدا مانگو
اُس شکمِ رقص گر کے سائل ہو
ناف پیالے کی تم عطا مانگو
لاکھ جنجال مانگنے میں ہیں
کچھ نہ مانگو فقط دُعا مانگو
جون ایلیا

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 23
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ دُعا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ رسمِ وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و وفا گیا
فیض احمد فیض

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 26
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ دُعا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ رسمِ وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و وفا گیا
فیض احمد فیض

دُعا

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا

کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی

زہر امروز میں شیرینیِ فردا بھردے

وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں

ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے

جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں

ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے

جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں

ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے

جن کا دیں پیرویِ کذب وریا ہے ان کو

ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے

جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو

دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے

آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے

حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح

آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے

(یومِ آزادی)

فیض احمد فیض

کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 343
بادبانوں کی طرف دیکھنے والا میں کون
کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے
کس نے اس ریت پہ گلبرگ بچھا رکھے ہیں
یہ زمیں کس کی ہے‘ یہ موجِ صبا کس کی ہے
کس نے بھیجا ہے غبارِ شبِ ہجرت ہم کو
کیا خبر اپنے سروں پر یہ رِدا کس کی ہے
کون بجھتے ہوئے منظر میں جلاتا ہے چراغ
سرمئی شام، یہ تحریرِ حنا کس کی ہے
کیسے آشوب میں زندہ ہے مرادوں کی طرح
جانے بھاگوں بھری بستی پہ دُعا کس کی ہے
عرفان صدیقی

ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 339
اب زباں خنجرِ قاتل کی ثنا کرتی ہے
ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے
پھر کوئی رات بجھا دیتی ہے میری آنکھیں
پھر کوئی صبح دریچے مرے وا کرتی ہے
ایک پیمانِ وفا خاک بسر ہے سرِ شام
خیمہ خالی ہوا تنہائی عزا کرتی ہے
ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
کیسی مٹی ہے کہ دامن سے لپٹتی ہی نہیں
کیسی ماں ہے کہ جو بچوں کو جدا کرتی ہے
اب نمودار ہو اس گرد سے اے ناقہ سوار
کب سے بستی ترے ملنے کی دُعا کرتی ہے
عرفان صدیقی

اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 313
نرم جھونکے سے یہ اِک زَخم سا کیا لگتا ہے
اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے
ہٹ کے دیکھیں گے اسے رونقِ محفل سے کبھی
سبز موسم میں تو ہر پیڑ ہرا لگتا ہے
وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری
ابر پھیلا ہوا دامانِ دُعا لگتا ہے
اَے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اَپنے منظر ہی میں ہر رَنگ بھلا لگتا ہے
ایسی بے رَنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دُنیا
پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے
دیکھنے والو! مجھے اُس سے الگ مت جانو
یوں تو ہر سایہ ہی پیکر سے جدا لگتا ہے
زَرد دَھرتی سے ہری گھاس کی کونپل پھوٹی
جیسے اک خیمہ سرِ دشت بلا لگتا ہے
عرفان صدیقی

تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 295
میں تو اِک بادل کا ٹکڑا ہوں، اُڑالے چل مجھے
تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے
خوُد ہی نیلے پانیوں میں پھر بلالے گا کوئی
ساحلوں کی ریت تک اَے نقشِ پا لے چل مجھے
تجھ کو اِس سے کیا میں اَمرت ہوں کہ اِک پانی کی بوُند
چارہ گر، سوکھی زبانوں تک ذرا لے چل مجھے
کب تک اِن سڑکوں پہ بھٹکوں گا بگولوں کی طرح
میں بھی کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں صبا لے چل مجھے
اَجنبی رَستوں میں آخر دُھول ہی دیتی ہے ساتھ
جانے والے اَپنے دامن سے لگا لے چل مجھے
بند ہیں اس شہرِ ناپرساں کے دروازے تمام
اَب مرے گھر اَے مری ماں کی دُعا لے چل مجھے
عرفان صدیقی

کہ لکھ دیں گے سب ماجرا لکھنے والے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 277
چھپانے سے کیا فائدہ لکھنے والے
کہ لکھ دیں گے سب ماجرا لکھنے والے
بہت بے اماں پھر رہے ہیں مسافر
کہاں ہیں خطوں میں دُعا لکھنے والے
ہمیں سرکشی کا سلیقہ عطا کر
مقدر میں تیغِ جفا لکھنے والے
مجھے کوئی جاگیرِ وحشت بھی دینا!
مرے نام زنجیر پا لکھنے والے
زمیں پر بھی سبزے کی تحریر لکھ دے
سمندر پہ کالی گھٹا لکھنے والے
سلامت رہیں بے ہوا بستیوں میں
پرندے، پیامِ ہوا لکھنے والے
عرفان صدیقی

اے اندھیری بستیو! تم کو خدا روشن کرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 267
کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے
اے اندھیری بستیو! تم کو خدا روشن کرے
ننھے ہونٹوں پر کھلیں معصوم لفظوں کے گلاب
اور ماتھے پر کوئی حرفِ دُعا روشن کرے
زرد چہروں پر بھی چمکے‘ سرخ جذبوں کی دھنک
سانولے ہاتھوں کو بھی رنگِ حنا روشن کرے
ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے
خیر‘ اگر تم سے نہ جل پائیں وفاؤں کے چراغ
تم بجھانا مت جو کوئی دوسرا روشن کرے
آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے
جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے
دل ہی فانوسِ وفا‘ دل ہی خس و خارِ ہوس
دیکھنا یہ ہے کہ اس کا قرب کیا روشن کرے
یا تو اس جنگل میں نکلے چاند تیرے نام کا
یا مرا ہی لفظ میرا راستہ روشن کرے
عرفان صدیقی

ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 238
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دُعا نکل آئے
بڑی گھٹن ہے‘ چراغوں کا کیا خیال کروں
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
خدا کرے صفِ سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
عرفان صدیقی

ہوا کبھی سرِ دشتِ بلا چلی ہی نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 202
مری طرف تری موج نوا چلی ہی نہیں
ہوا کبھی سرِ دشتِ بلا چلی ہی نہیں
تمام فیصلے بس ایک شخص کرتا تھا
وہاں یہ بحثِ خطا و سزا چلی ہی نہیں
دِل و زَباں میں کبھی جیسے رابطہ ہی نہ تھا
اُٹھے بھی ہاتھ تو رسمِ دُعا چلی ہی نہیں
یہ مت سمجھ کہ ترے قتل کا خیال نہ تھا
نکل چکی تھی مگر بے وفا چلی ہی نہیں
میں چاہتا تھا کہ کچھ سرکشی کی داد ملے
تو اَب کے شہر میں تیغِ جفا چلی ہی نہیں
بہت خراب تھی شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے، ہوا چلی ہی نہیں
عرفان صدیقی

پھر آپ لوگ کس کے خدا ہونے والے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 189
ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں
پھر آپ لوگ کس کے خدا ہونے والے ہیں
اس طرح مطمئن ہیں مرے شب گزیدگاں
جیسے یہ سائے ظلِّ ہما ہونے والے ہیں
بے چارے چارہ سازئ آزار کیا کریں
دو ہاتھ ہیں سو محوِ دُعا ہونے والے ہیں
اک روز آسماں کو بھی تھکنا ضرور ہے
کب تک زمیں پہ حشر بپا ہونے والے ہیں
ہم پہلے تشنگی کی حدوں سے گزر تو جائیں
سارے سراب آبِ بقا ہونے والے ہیں
لگتا نہیں ہے دل کو جفا کا کوئی جواز
نامہرباں، یہ تیر خطا ہونے والے ہیں
ہم دل میں لکھ رہے ہیں حسابِ ستم گراں
کچھ دن میں سب کے قرض ادا ہونے والے ہیں
ان راستوں میں دل کی رفاقت ہے اصل چیز
جو صرف ہم سفر ہیں جدا ہونے والے ہیں
اچھا نہیں غزل کا یہ لہجہ مرے عزیز
بس چپ رہو کہ لوگ خفا ہونے والے ہیں
عرفان صدیقی

کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 114
خوُشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اَب اِس بات کا کیا ذِکر
اِک موج بہرحال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دُور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو!
ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اُترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دُعا لے گئی ہم کو
اُس شہر میں غارت گرِ اِیماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو
عرفان صدیقی

چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 92
الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر
غزل میں اس کو ستم گر کہا تو روٹھ گیا
چلو‘ یہ حرفِ ملامت لگا نشانے پر
میں اپنے سینے سے شرمندہ ہونے والا تھا
کہ آگیا کوئی تیرِ جفا نشانے پر
خدا سے آخری رشتہ بھی کٹ نہ جائے کہیں
کہ اب کے ہے مرا دستِ دُعا نشانے پر
وہ شعلہ اپنی ہی تیزی میں جل بجھا ورنہ
رکھا تھا خیمۂ صبر و رضا نشانے پر
میں انتظار میں ہوں کون اسے شکار کرے
بہت دنوں سے ہے میری نوا نشانے پر
عرفان صدیقی

وَرنہ ٹوٹے ہوئے رِشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 54
ایک ضد تھی مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
وَرنہ ٹوٹے ہوئے رِشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا
تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا
اَب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے وَرنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا
یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اِک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سب تری دین ہے، یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دَامن میں تو اَے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا
اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دَھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دُعا کچھ بھی نہ تھا
لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اِس میں تیرا ہنر اَے دستِ جفا کچھ بھی نہ تھا
سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتّے نے کہا کچھ بھی نہ تھا
عرفان صدیقی

دُور تک لیکن سفر کا سلسلہ جیسے ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 31
کوئی وحشی چیز سی زنجیرِ پا جیسے ہوا
دُور تک لیکن سفر کا سلسلہ جیسے ہوا
بند کمرے میں پراگندہ خیالوں کی گھٹن
اور دروازے پہ اِک آوازِ پا، جیسے ہوا
گرتی دیواروں کے نیچے سائے، جیسے آدمی
تنگ گلیوں میں فقط عکسِ ہوا، جیسے ہوا
آسماں تا آسماں سنسان سنّاٹے کی جھیل
دائرہ در دائرہ میری نوا، جیسے ہوا
دو لرزتے ہاتھ جیسے سایہ پھیلائے شجر
کانپتے ہونٹوں پہ اک حرفِ دُعا، جیسے ہوا
پانیوں میں ڈوبتی جیسے رُتوں کی کشتیاں
ساحلوں پر چیختی کوئی صدا، جیسے ہوا
کتنا خالی ہے یہ دامن، جس طرح دامانِ دشت
کچھ نہ کچھ تو دے اِسے میرے خدا، جیسے ہوا
عرفان صدیقی

بدن صحرا ہوئے‘ آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 11
دھنک سے پھول سے‘ برگِ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
بدن صحرا ہوئے‘ آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا
بہت کچھ دوستو‘ بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اس خنجرِ دستِ جفا سے کچھ نہیں ہوتا
اگر وسعت نہ دیجے وحشتِ جاں کے علاقے کو
تو پھر آزادیِ زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی کونپل نہیں اس ریت کی تہ میں تو کیا نکلے
یہاں اے سادہ دل کالی گھٹا سے کچھ نہیں ہوتا
ازل سے کچھ خرابی ہے کمانوں کی سماعت میں
پرندو! شوخیِ صوت و صدا سے کچھ نہیں ہوتا
چلو‘ اب آسماں سے اور کوئی رابطہ سوچیں
بہت دن ہو گئے حرفِ دُعا سے کچھ نہیں ہوتا
عرفان صدیقی