یاد بھی تُم کو نَہ ہو شاید زمانہ ہو گیا
ایک چھوٹی سی کہانی جو فسانہ ہو گیا
تھے حَسیں لیکن نہ تھا تُم کو ہنوز احساسِ حُسن
جو قدم اُٹّھا ادائے کافرانہ ہو گیا
چارَہ گَر! کُچھ تھا مِزاجِ حُسن ہی بَدلا ہُوا
میرا حَرفِ آرزُو تَو بَس بَہانہ ہو گیا
باغباں کا حُکم ہے سو کُوچ کر اے مُرغِ دِل
اِس چمن میں ختم تیرا آب و دانَہ ہو گیا
کون سی نیکی خُدا جانے تِرے کام آگئی
ہو مبارک اُن سے ضامنؔ دوستانہ ہو گیا
ضامن جعفری