ٹیگ کے محفوظات: دوبھر

آشتی باہر نمایاں اور بگاڑ اندر یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
خَیر کے چرچے فراواں اور زیادہ شر یہاں
آشتی باہر نمایاں اور بگاڑ اندر یہاں
جس نے بھی چاہا اُٹھائے رتبۂ نادار کو
کیا سے کیا برسا کِیے اُس شخص پر پتّھر یہاں
سرگرانی جن سے ہو وہ آنکھ سے ہٹتے نہیں
جی کو جو اچّھے لگیں ٹھہریں نہ وہ منظر یہاں
دیکھتے ہیں چونک کر سارے خدا اُن کی طرف
فائدے میں ہیں جو ہیں اعلانیہ، آذر یہاں
کاش ایسا ہو کہ پاس اُس کے خبر ہو خَیر کی
جب بھی آئے کاٹتا ہے ہونٹ، نامہ بر یہاں
اور ہی انداز سے دمکے گی اب اردو یہاں
اس سے وابستہ رہے گر خاورؔ و یاورؔ یہاں
محض گرد و دُود ہی کیا اور بھی اسباب ہیں
سانس تک لینا بھی ماجدؔ ہو چلا دُوبھر یہاں
ماجد صدیقی

اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ننگے سچ کے لفظ زباں پر کیا کیا تھے
اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے
چھو ڈالیں تو پھول کہیں تحلیل نہ ہو
پہلے پہل کے عشق کے بھی ڈر کیا کیا تھے
پیروں میں جب کوئی بھی زنجیر نہ تھی
ان وقتوں میں ہم بھی خودسر کیا کیا تھے
دُور نشیمن سے برسے جو مسافت میں
ژالے تن پر سہنے دُوبھر کیا کیا تھے
حرص کی بین پہ کھنچ کر نکلے تو یہ کھُلا
دیش پٹاری میں بھی اژدر کیا کیا تھے
جھانکا اور پھر لوٹ نہ پائے ہم جس سے
اُس آنگن کے بام تھے کیا در کیا کیا تھے
طاق تھے ماجدؔ تاج محل بنوانے میں
اپنے ہاں بھی دیکھ! اکابر کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
تلاطم بحر کا آ کر نہ دیکھا
ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا
کسی کے ہجر کا اب ہے جو، ایسا
کوئی بھی مرحلہ دُوبھر نہ دیکھا
ملا جیسے وہ اب کے، جان و دل پر
کھُلا جنّت کا ایسا در نہ دیکھا
نگل لیتا ہے جاں جس آن چاہے
زمانے سا کوئی اژدر نہ دیکھا
کبھی تھے چہچہے جس گھونسلے میں
ہُوا پھر یُوں، وہاں اِک پر نہ دیکھا
گھِرا ہے اَب کے یہ ژالوں میں جیسے
چمن کا حال یوں ابتر نہ دیکھا
خود اُس پر ختم ہے ماجدؔ ہنر یہ
گیا جس سے فنِ آذر نہ دیکھا
ماجد صدیقی

موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
میں ابھی موت سے بچ کر نکلا
موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا
اشک تھے سو تو چھُپائے مَیں نے
پھول کالر پہ سجا کر نکلا
مَیں تو ہوں مُہر بلب بھی لیکن
کام کچھ یہ بھی ہے دُوبھر نکلا
یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا
گھر سے تو اُس کے برابر نکلا
خاک سے جس کا اُٹھایا تھا خمیر
ہم رکابِ مہ و اختر نکلا
مَیں کہ عُریاں نہ ہُوا تھا پہلے
بن کے اُس شوخ کا ہمسر نکلا
غم کی دہلیز نہ چھوڑی میں نے
میں نہ گھر سے کبھی باہر نکلا
جو اُڑاتا مجھے ہم دوشِ صبا
مجھ میں ایسا نہ کوئی پر نکلا
اُس نے بے سود ہی پتھر پھینکے
حوصلہ میرا سمندر نکلا
درد اظہار کو پہنچا ماجدؔ
دل سے جیسے کوئی نشتر نکلا
ماجد صدیقی