ٹیگ کے محفوظات: دوانے

اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے

دیوان پنجم غزل 1757
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے
اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے
دامن پر فانوس کے تھا کچھ یوں ہی نشاں خاکستر کا
شوق کی میں جو نہایت پوچھی جان جلے پروانے سے
ننگے سامنے آتے تھے تو کیا کیا زجر اٹھاتے تھے
ننگ لگا ہے لگنے انھیں اب بات ہماری مانے سے
پاس غیرت تم کو نہیں کچھ دریا پرسن غیر کو تم
گھر سے اٹھ کے چلے جاتے ہو نہانے کے بھی بہانے سے
تم نے کہا مر رہ بھی جاکر بندہ جاکر مر ہی رہا
کس دن میں نے عدول کیا ہے صاحب کے فرمانے سے
سوکھ کے ہوں لکڑی سے کیوں نہ زرد و زبوں ہم عاشق زار
کچھ نہیں رہتا انساں میں ہر لحظہ غم کے کھانے سے
جب دیکھو تب تربت عاشق جھکڑ سے ہے تزلزل میں
عشق ہے باد صرصر کو یاں ان کی خاک اڑانے سے
برسوں میں پہچان ہوئی تھی سو تم صورت بھول گئے
یہ بھی شرارت یاد رہے گی ہم کو نہ جانا جانے سے
سنی سنائی بات سے واں کی کب چیتے ہیں ہم غافل
دونوں کان بھرے ہیں اپنے بے تہ یاں کے فسانے سے
میر کی تیری کیا سلجھے گی حرف و سخن میں گنجلک ہے
کوئی بھی عاقل الجھ پڑے ہے ناصح ایسے دوانے سے
میر تقی میر

خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی

دیوان سوم غزل 1299
کہو کچھ میر کی وحشت سے ان گلیوں میں آنے کی
خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی
جہاں سے دل کو دیکھو منھ نظر جوں کان طلق آوے
نہ کی کچھ قدر اس نے حیف اس آئینہ خانے کی
ہمیں لیتے ہو آنکھیں موند کر لو تم کہ جنس اپنی
وفا و مہر ہے سو وہ نہیں بابت دکھانے کی
کہو ہو زیرلب کیا دیکھ کر ہم ناتوانوں کو
ہماری جان میں طاقت نہیں باتیں اٹھانے کی
برنگ طائر نوپر ہوئے آوارہ ہم اٹھ کر
کہ پھر پائی نہ ہم نے راہ اپنے آشیانے کی
عجب چوپڑ بچھی ہے ہر زماں اڑتا ہے رنگ اپنا
سمجھ میں چال کچھ آتی نہیں اپنے زمانے کی
اگر طالع کرے یاری تو مریے کربلا جا کر
عبیر اپنے کفن کی خاک ہو اس آستانے کی
غزل اک اور بھی اس گل زمیں میں قصد ہے کہیے
ہوئی ہے اب تو خو آخر ہمیں باتیں بنانے کی
میر تقی میر

نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں

دیوان سوم غزل 1189
نہ کر شوق کشتوں سے جانے کی باتیں
نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں
سماجت جو کی بوس لب پر تو بولا
نہیں خوب یہ مار کھانے کی باتیں
زبانیں بدلتے ہیں ہر آن خوباں
یہ سب کچھ ہیں بگڑے زمانے کی باتیں
نظر جب کرو زیر لب کچھ کہے ہے
کہو یار کے آستانے کی باتیں
سہی جائے گالی اگر دوستی ہو
بری بھی بھلی ہیں لگانے کی باتیں
ہمیں دیر و کعبے سے کیا گفتگو ہے
چلی جاتی ہیں یہ سیانے کی باتیں
بگڑ بھی چکے یار سے ہم تو یارو
کرو کچھ اب اس سے بنانے کی باتیں
کیا سیر کل میں نے دیوان مجنوں
خوش آئیں بہت اس دوانے کی باتیں
بہت ہرزہ گوئی کی یاں میر صاحب
کرو واں کے کچھ منھ دکھانے کی باتیں
میر تقی میر

خوبرو کس کی بات مانے ہیں

دیوان دوم غزل 882
کرتے ہیں جوکہ جی میں ٹھانے ہیں
خوبرو کس کی بات مانے ہیں
میں تو خوباں کو جانتا ہی ہوں
پر مجھے یہ بھی خوب جانے ہیں
جا ہمیں اس گلی میں گر رہنا
ضعف و بے طاقتی بہانے ہیں
پوچھ اہل طرب سے شوق اپنا
وے ہی جانیں جو خاک چھانے ہیں
اب تو افسردگی ہی ہے ہر آن
وے نہ ہم ہیں نہ وے زمانے ہیں
قیس و فرہاد کے وہ عشق کے شور
اب مرے عہد میں فسانے ہیں
دل پریشاں ہوں میں تو خوش وے لوگ
عشق میں جن کے جی ٹھکانے ہیں
مشک و سنبل کہاں وہ زلف کہاں
شاعروں کے یہ شاخسانے ہیں
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں
میر تقی میر

مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا

دیوان دوم غزل 727
کجی اس کی جو میں جتانے لگا
مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا
تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں
ستم کیسے کیسے اٹھانے لگا
رندھے عشق میں کوئی یوں کب تلک
جگر آہ منھ تک تو آنے لگا
پریشاں ہیں اس وقت میں نیک و بد
موا جو کوئی وہ ٹھکانے لگا
کروں یاد اسے ہوں جو میں آپ میں
سو یاں جی ہی اب بھول جانے لگا
پس از عمر اودھر گئی تھی نگاہ
سو آنکھیں وہ مجھ کو دکھانے لگا
نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر
کہیں میر دل کو دوانے لگا
میر تقی میر

ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے

دیوان اول غزل 597
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے
سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے
ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے
پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور
پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے
مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت
اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے
ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری
شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے
ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے
ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے
لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت
رہتے ہیں ترے تیرستم ہی کے نشانے
کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا
ظاہر ہے کہ منھ پھر لیا ہم سے خدا نے
ان ہی چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھائوں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے
کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے
پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے
خاک اس کی سرراہ کی کوئی کب تئیں چھانے
کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے
آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے
مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے
کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے
آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار
ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے
گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں
اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے
میر تقی میر

ہائے رے ذوق دل لگانے کے

دیوان اول غزل 596
نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
میرے تغئیر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے
اب گریباں کہاں کہ اے ناصح
چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے
چشم نجم سپہر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے
دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمھارے آنے کے
کب تو سوتا تھا گھر مرے آکر
جاگے طالع غریب خانے کے
مژہ ابرو نگہ سے اس کی میر
کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے
تیر و تلوار و سیل یک جا ہیں
سارے اسباب مار جانے کے
میر تقی میر

اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے

دیوان اول غزل 540
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے
سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے
اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گردباد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے
بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے
بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے
اک دم میں تونے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے
سودا ہو تب ہو میر کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
میر تقی میر

دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 19
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے”
فیض احمد فیض