ٹیگ کے محفوظات: دلبر

آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دُھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہِ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
ناصر کاظمی

کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 40
دشمن سے ہے میرے دلِ مضطر کی شکایت
کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت
دیوانۂ اُلفت ادب آموزِ خرد ہے
سودے میں نہیں زلفِ معنبر کی شکایت
تاخیر نہ کر قتلِ شہیدانِ وفا میں
ہر ایک کو ہے تیزیِ خنجر کی شکایت
تاثیر ہو کیا، ان لب و دنداں کا ہوں بیمار
نے لعل کا شکوہ ہے نہ گوہر کی شکایت
کیوں بوالہوسوں سے دلِ عاشق کا گلہ ہے
غیروں سے بھی کرتا ہے کوئی گھر کی شکایت
اب ظلم سرشتوں کی نگہ سے ہوں مقابل
ہوتی تھی کبھی کاوشِ نشتر کی شکایت
یاں کانٹوں پہ بھی لوٹنے میں چین نہیں ہے
واں غیر سے ہے پھولوں کے بستر کی شکایت
تعلیم بد آموز کو ہم کرتے ہیں ، یعنی
ہے شکرِ وفا، جورِ ستم گر کی شکایت
بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہو گی
اے شیفتہ ہنگامۂ محشر کی شکایت
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 27
قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا
وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا
ہم بھی کیا خوب ہیں، سچ مچ ہمیں باور آیا
مجھ سے وہ صلح کو اس شان سے آئے گویا
جنگ کے واسطے دارا سے سکندر آیا
جذبۂ شوق کی تاثیر اسے کہتے ہیں
سن کے قاصد کی خبر آپ وہ در پر آیا
خاک ہونے کا مرے ذکر نہ آیا ہو کہیں
آج اس بزم سے کچھ غیر مکدر آیا
اڑ گئے ہوش کہ پیغامِ اجل ہے یہ جواب
کوچۂ یار سے زخمی جو کبوتر آیا
دلِ صد چاک میں ہے کاکلِ مشکیں کا خیال
کہ مجھے گریہ جو آیا تو معطر آیا
اے اجل نیم نگہ کی تو مجھے مہلت دے
اہلِ ماتم میں یہ چرچا ہے کہ دلبر آیا
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
یہ دیا ہائے مجھے لذتِ آزار نے چین
دل ہوا رنج سے خالی بھی تو جی بھر آیا
آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئے گی
شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستم گر آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

کیوں کر اڑ کر پہنچیں اس تک طائر بے پر ہیں ہم

دیوان پنجم غزل 1680
کیا کریں بیکس ہیں ہم بے بس ہیں ہم بے گھر ہیں ہم
کیوں کر اڑ کر پہنچیں اس تک طائر بے پر ہیں ہم
سر نہ بالیں سے اٹھاویں کاشکے بیمار عشق
ہو گا یک ہنگامہ برپا فتنہ زیر سر ہیں ہم
سو طرف لے جاتی ہے ہم کو پریشاں خاطری
یاں کسے ڈھونڈو ہو تم کیا جانیے کیدھر ہیں ہم
گر نہ روئیں کیا کریں ہر چار سو ہے بیکسی
بیدل و بے طاقت و بے دین و بے دلبر ہیں ہم
وہ جو رشک مہ کبھی اس راہ سے نکلا نہ میر
ہم نہ رکھتے تھے ستارہ یعنی بداختر ہیں ہم
میر تقی میر

دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا

دیوان سوم غزل 1094
کیا کہے حال کہیں دل زدہ جاکر اپنا
دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا
دوری یار میں ہے حال دل ابتر اپنا
ہم کو سو کوس سے آتا ہے نظر گھر اپنا
یک گھڑی صاف نہیں ہم سے ہوا یار کبھی
دل بھی جوں شیشۂ ساعت ہے مکدر اپنا
ہر طرف آئینہ داری میں ہے اس کے رو کی
شوق سے دیکھیے منھ ہووے ہے کیدھر اپنا
لب پہ لب رکھ کے نہ اس گل کے کبھو ہم سوئے
یہ بساط خسک و خار ہے بستر اپنا
کس طرح حرف ہو ناصح کا موثر ہم میں
سختیاں کھینچتے ہی دل ہوا پتھر اپنا
کیسی رسوائی ہوئی عشق میں کیا نقل کریں
شہر و قصبات میں مذکور ہے گھر گھر اپنا
اس گل تر کی قبا کے کہیں کھولے تھے بند
رنگوں گل برگ کے ناخن ہے معطر اپنا
تجھ سے بے مہر کے لگ لگنے نہ دیتے ہرگز
زور چلتا کچھ اگر چاہ میں دل پر اپنا
پیش کچھ آئو یہیں ہم تو ہیں ہر صورت سے
مثل آئینہ نہیں چھوڑتے ہم گھر اپنا
دل بہت کھینچتی ہے یار کے کوچے کی زمیں
لوہو اس خاک پہ گرنا ہے مقرر اپنا
میر خط بھیجے پر اب رنگ اڑا جاتا ہے
کہ کہاں بیٹھے کدھر جاوے کبوتر اپنا
میر تقی میر

گاڑ دیویں کاش مجھ کو بیچ میں در کے ترے

دیوان دوم غزل 971
آہ روکوں جانے والے کس طرح گھر کے ترے
گاڑ دیویں کاش مجھ کو بیچ میں در کے ترے
لالہ و گل کیوں نہ پھیکے اپنی آنکھوں میں لگیں
دیکھنے والے ہیں ہم تو رنگ احمر کے ترے
بے پرو بالی سے اب کے گوکہ بلبل تو ہے چپ
یاد ہیں سب کے تئیں وے چہچہے پر کے ترے
آج کا آیا تجھے کیا پاوے ہم حیران ہیں
ڈھونڈنے والے جو ہیں اے شوخ اکثر کے ترے
دیکھ اس کو حیف کھا کر سب مجھے کہنے لگے
واے تو گر ہیں یہی اطوار دلبر کے ترے
تازہ تر ہوتے ہیں نوگل سے بھی اے نازک نہال
صبح اٹھتے ہیں بچھے جو پھول بستر کے ترے
مشک عنبر طبلہ طبلہ کیوں نہ ہو کیا کام ہے
ہم دماغ آشفتہ ہیں زلف معنبر کے ترے
جی میں وہ طاقت کہاں جو ہجر میں سنبھلے رہیں
اب ٹھہرتے ہی نہیں ہیں پائوں ٹک سر کے ترے
داغ پیسے سے جو ہیں بلبل کے دل پر کس کے ہیں
یوں تو اے گل ہیں ہزاروں آشنا زر کے ترے
کوئی آب زندگی پیتا ہے یہ زہراب چھوڑ
خضر کو ہنستے ہیں سب مجروح خنجر کے ترے
نوح کا طوفاں ہمارے کب نظر چڑھتا ہے میر
جوش ہم دیکھے ہیں کیا کیا دیدئہ تر کے ترے
میر تقی میر

طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا

دیوان دوم غزل 753
ٹپکتی پلکوں سے رومال جس گھڑی سرکا
طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا
کبھو تو دیر میں ہوں میں کبھو ہوں کعبے میں
کہاں کہاں لیے پھرتا ہے شوق اس در کا
غم فراق سے پھر سوکھ کر ہوا کانٹا
بچھا جو پھول اٹھا کوئی اس کے بستر کا
اسیر جرگے میں ہوجائوں میں تو ہوجائوں
وگرنہ قصد ہو کس کو شکار لاغر کا
ہمیں کہ جلنے سے خوگر ہیں آگ میں ہے عیش
محیط میں تو تلف ہوتا ہے سمندر کا
قریب خط کا نکلنا ہوا سو خط موقوف
غبار دور ہو کس طور میرے دلبر کا
بتا کے کعبے کا رستہ اسے بھلائوں راہ
نشاں جو پوچھے کوئی مجھ سے یار کے گھر کا
کسو سے مل چلے ٹک وہ تو ہے بہت ورنہ
سلوک کاہے کو شیوہ ہے اس ستمگر کا
شکستہ بالی و لب بستگی پر اب کی نہ جا
چمن میں شور مرا اب تلک بھی ہے پر کا
تلاش دل نہیں کام آتی اس زنخ میں گئے
کہ چاہ میں تو ہے مرنا برا شناور کا
پھرے ہے خاک ملے منھ پہ یا نمد پہنے
یہ آئینہ ہے نظر کردہ کس قلندر کا
نہ ترک عشق جو کرتا تو میر کیا کرتا
جفا کشی نہیں ہے کام ناز پرور کا
میر تقی میر

پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے

دیوان اول غزل 553
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے
میں نے اس قطعۂ صناع سے سر کھینچا ہے
کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنر ور کتنے
کشور عشق کو آباد نہ دیکھا ہم نے
ہر گلی کوچے میں اوجڑ پڑے تھے گھر کتنے
آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوس سیر بہار
آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے
دیکھیو پنجۂ مژگاں کی ٹک آتش دستی
ہر سحر خاک میں ملتے ہیں در تر کتنے
کب تلک یہ دل صد پارہ نظر میں رکھیے
اس پر آنکھیں ہی سیے رہتے ہیں دلبر کتنے
عمر گذری کہ نہیں دودئہ آدم سے کوئی
جس طرف دیکھیے عرصے میں ہیں اب خر کتنے
تو ہے بیچارہ گدا میر ترا کیا مذکور
مل گئے خاک میں یاں صاحب افسر کتنے
میر تقی میر

مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل

دیوان اول غزل 271
کرو تم یاد گر ہم کو رہے تم میں بھی اکثر دل
مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل
بھلا تم نقد دل لے کر ہمیں دشمن گنو اب تو
کبھو کچھ ہم بھی کرلیں گے حساب دوستاں در دل
میر تقی میر

جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 384
یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں
جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں
بنا کر فرش سے بستر تلک ٹوٹی ہوئی چوڑی
گذشتہ رات کا تصویر میں منظر بناتے ہیں
لکھا ہے اس نے لکھ بھیجو شبِ ہجراں کی کیفیت
چلو ٹھہرے ہوئے دریا کو کاغذ پر بناتے ہیں
سمندر کے بدن جیسا ہے عورت کا تعلق بھی
لہو کی آبدوزوں کے سفر گوہر بناتے ہیں
مکمل تجربہ کرتے ہیں ہم اپنی تباہی کا
کسی آوارہ دوشیزہ کو اب دلبر بناتے ہیں
شرابوں نے دیا سچ بولنے کا حوصلہ منصور
غلط موسم مجھے کردار میں بہتر بناتے ہیں
منصور آفاق

ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 362
جیتے ہوئے لوگوں کے سوئمبر کی طرح ہیں
ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں
ہر لمحہ پیانو سے نئی شکل ابھاریں
یہ انگلیاں اپنی، کسی بت گر کی طرح ہیں
کیا چھاؤں کی امید لیے آئے گا کوئی
ہم دشت میں سوکھے ہوئے کیکر کی طرح ہیں
الحمدِ مسلسل کا تسلسل ہے ہمی سے
ہم صبحِ ازل زاد کے تیتر کی طرح ہیں
جلتے ہوئے موسم میں ہیں یخ بستہ ہوا سے
ہم برف بھری رات میں ہیٹر کی طرح ہیں
حیرت بھری نظروں کے لیے جیسے تماشا
ہم گاؤں میں آئے ہوئے تھیٹر کی طرح ہیں
یہ بینچ بھی ہے زانوئے دلدار کی مانند
یہ پارک بھی اپنے لیے دلبر کی طرح ہیں
پیاسوں سے کہو آئیں وہ سیرابیِ جاں کو
ہم دودھ کی بہتی ہوئی گاگر کی طرح ہیں
منصور ہمیں چھیڑ نہ ہم شیخِ فلک کے
مسجد میں لگائے ہوئے دفتر کی طرح ہیں
منصور آفاق

بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 116
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا
اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ
گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا
بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ
دیکھا تو میں نے آنکھ کو پتھر بنا لیا
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا
پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر
اپنا دماغ گنبدِ بے در بنا لیا
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کربِ ذات میں کیا یوں کربِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا
منصور آفاق

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 61
اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب
تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی گھونسلے کے بیچ
میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے
کمرے میں ہے میڈونا کا بستر بنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ کورٹ کا محشر بنا ہوا
منصور آفاق