ٹیگ کے محفوظات: دلبراں

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

جہاں ، جہاں ، جہاں کھُلا، صراطِ مُستقیم سے

خدائے مہرباں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
جہاں ، جہاں ، جہاں کھُلا، صراطِ مُستقیم سے
میں چل پڑا تو حد ہوئی، ہر اک جگہ مدد ہوئی
قدیم آسماں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
نظر کی پیش گوئیاں ہیں آج بھی عُروج پر
عُروج، جاں بہ جاں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
ترا حُصول انتہائے معرفت ہے یا خدا!
فرازِ کُن فکاں کھُلا، صراطِ مُستقیم سے
بسر کیا گیا یہاں حیاتِ بے ثبات کو
ثبات بعد ازاں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
بُتوں کو چھوڑنا پڑا، مجھے یہ کھولنا پڑا
خدائے دِلبراں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
افتخار فلک

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 57
مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 79
عجب خواب و حقیقت کے جہاں میں رہ رہا ہوں
میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں
رواں رہتا ہوں عالم گیر ہجرت کے سفر میں
زمیں پر رہ رہاں ہوں اور زماں میں رہ رہا ہوں
ذرا پہلے گماں آبادِ فردا کا مکیں تھا
اور اب نسیاں سرائے رفتگاں میں رہ رہا ہوں
مرے پرکھوں نے جو میرے لئے خالی کیا تھا
میں اگلے وارثوں کے اس مکاں میں رہ رہا ہوں
مکاں میں لامکاں کا چور دروازہ بنا کر
ہمیشہ سے ہجومِ دلبراں میں رہ رہا ہوں
زمین و آسماں کا فاصلہ ہے درمیاں میں
میں سجدہ ہوں تمہارے آستاں میں رہ رہا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

جملہ ہائے عاشقاں را شب بخیر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 180
دشمناں را ، دوستاں را شب بخیر
جملہ ہائے عاشقاں را شب بخیر
در فلک مانندِنجم آوارہ ام
چاکرِ حسنِ بتاں را شب بخیر
خواب را سرمایہ ء آشوبِ دل
ساغراں را ساحراں را شب بخیر
از رخ ام صبحِ آسودہ گرفت
زلفِ دوتا دلبراں را شب بخیر
صحبتِ چشمِ سکوں تسخیر کرد
شورشِ سوداگراں را شب بخیر
چینِ ابرودل کتاں آید بروں
پیشِ مرغِ آشیاں را شب بخیر
دیدہِ منصور از چشمم تمام
دامنِ پُرحسرتاں را شب بخیر
منصور آفاق