عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 239
جو دل میں ہے وہ حرف و حکایت میں تو آئے
سب سچ ہی سہی، پہلے سماعت میں تو آئے
اب تک جو ترے دست ستم میں ہے وہ تلوار
اک بار مرے دست مروت میں تو آئے
ہم ایسے ہوس کار نہیں جو نہ سدھر جائیں
تھوڑا سا مزہ کار محبت میں تو آئے
مشکل تو یہی ہے کہ قیامت نہیں آتی
قاتل مرا میدان قیامت میں تو آئے
اس نے ابھی دیکھا ہے سر پُل مجھے تنہا
وہ شخص مری رات کی دعوت میں تو آئے
عرفان صدیقی