منصور آفاق ۔ غزل نمبر 585
بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے
آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے
دل ہی کچھ کرنے پہ آمادہ نہیں تھا
ڈائری میں فون نمبر تو کئی تھے
میں نے بچپن میں کوئی وعدہ کیا تھا
ورنہ گاؤں میں حسیں بر تو کئی تھے
صبح تنہائی تھی اور خالی گلاس
ہم زباں ہم رقص شب بھر تو کئی تھے
تیرے آتش دان کی رُت ہی نہیں تھی
لمس کے دھکے دسمبر تو کئی تھے
ایک اک کمرے میں بستر موت کا تھا
آس کی بلڈنگ میں چیمبر تو کئی تھے
گیسوئوں کے آبشار آنکھوں کی جھیلیں
ہم پکھی واسوں کے امبر تو کئی تھے
خاک کا الہام تنہا ایک تُو تھا
آسمانوں کے پیمبر تو کئی تھے
شہر میں منصور بس کوئی نہیں تھا
رونقِ محراب و منبر تو کئی تھے
منصور آفاق