منصور آفاق ۔ غزل نمبر 89
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ، کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا
پھر اک فریبِ ذات ہوا اپنا شاٹ کٹ
پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا
جبہ تھا ’دہ خدا‘ کا تو دستار سیٹھ کی
حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنی ہے ملکیت
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا
میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ، کہیں کا تھا
سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار
پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا
بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے
دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا
وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی میری تھیں
چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں
وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا
صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب
بہنا کہیں پڑا اسے، دریا کہیں کا تھا
تاروں بھری وہ رات بھی کچھ کچھ کمینی تھی
کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا
گاہے شبِ وصال تھی گاہے شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے
وہ آسماں پہ ابر کا ٹکڑا کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم
پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر
تحریر تھی کہیں کی، حوالہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔