ٹیگ کے محفوظات: دریچہ

دریچہ

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں

ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے

ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے

کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں

کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں

کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم

کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں

ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال

لہو میں‌ غرق مرے غمکدے میں‌ آتے ہیں

اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے

شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں

(منٹگمری جیل)

فیض احمد فیض

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 57
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
آج تک ہیں اسی کوچے میں نگاہیں آباد
صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا
ایک چلو سے بھرے گھر کا بھلا کیا ہو گا
ہم کو بھی نہر سے پیاسا پلٹ آنا اچھا
پھول چہروں سے بھی پیارے تو نہیں ہیں جنگل
شام ہوجائے تو بستی ہی کا رستہ اچھا
رات بھر رہتا ہے زخموں سے چراغاں دل میں
رفتگاں، تم نے لگا رکھا ہے میلہ اچھا
جا کے ہم دیکھ چکے، بند ہے دروازہ شہر
ایک رات اور یہ رُکنے کا بہانہ اچھا
عرفان صدیقی

صبحوں کی کالی کملی کا جلوہ کہیں جسے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 550
وہ تیری چشمِ ناز ہے قبلہ کہیں جسے
صبحوں کی کالی کملی کا جلوہ کہیں جسے
تیری عظیم ذات سے منسوب اگر نہ ہو
پتھر کا اک مکان ہے کعبہ کہیں جسے
اک تیرا نام ہے کہ مدینہ صبا کا ہے
شہرِ بہارِ دل کا دریچہ کہیں جسے
گونجے نمازِ عصر کی آسودہ دھوپ میں
قوسِ قزح کے رنگوں کا نغمہ کہیں جسے
منصور دیکھتا ہوں میں تیرے جمال میں
صبحِ ازل نژاد کا چہرہ کہیں جسے
منصور آفاق

محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 233
گزرتا ہے کوئی برسوں میں تارہ دیکھتے کیا ہو
محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو
مرے برجِ جدی تم ہو یہ خوش بختی تمہی سے ہے
لکیریں دیکھتے کیا ہو ستارہ دیکھتے کیا ہو
محبت وہ نہیں حاصل جہاں لا حاصلی بس ہو
جو کھلتا ہی نہیں ہے وہ دریچہ دیکھتے کیا ہو
یہاں کاغذ پہن کر صرف میرے خواب رہتے ہیں
یہ بے ترتیب سا نظموں کا کمرہ دیکھتے کیا ہو
ہے بندو بست ، لمس و ذائقہ کی پیاس کا منصور
نگاہوں سے کسی کا صرف چہرہ دیکھتے کیا ہو
منصور آفاق

وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 89
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ، کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا
پھر اک فریبِ ذات ہوا اپنا شاٹ کٹ
پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا
جبہ تھا ’دہ خدا‘ کا تو دستار سیٹھ کی
حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنی ہے ملکیت
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا
میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ، کہیں کا تھا
سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار
پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا
بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے
دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا
وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی میری تھیں
چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں
وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا
صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب
بہنا کہیں پڑا اسے، دریا کہیں کا تھا
تاروں بھری وہ رات بھی کچھ کچھ کمینی تھی
کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا
گاہے شبِ وصال تھی گاہے شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے
وہ آسماں پہ ابر کا ٹکڑا کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم
پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر
تحریر تھی کہیں کی، حوالہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
منصور آفاق