ٹیگ کے محفوظات: درمیاں

بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں

کبھی حُسنِ گُل و لالہ، کبھی رنگِ خزاں ہم ہیں
بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں
نرالا ہے زمانے ہی سے ذوقِ رہ روی اپنا
امیرِ کارواں ہم ہیں، نہ گردِ کارواں ہم ہیں
حوادث کی کشاکش ہے، وہ ساحل ہے، یہ طوفاں ہے
زمانہ جن سے بچتا ہے انھیں کے درمیاں ہم ہیں
ہمارا ذوقِ خودبینی یہاں پر جلوہ ساماں ہے
اگر سچ پوچھیے تو رونقِ بزمِ جہاں ہم ہیں
جنوں میں ایک سجدہ وُسعتِ عالم پہ حاوی ہے
شکیبؔ، اس درجہ گویا بے نیازِ آستاں ہم ہیں
شکیب جلالی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے
جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے
عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی
کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے
تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے
وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا
یہ کون ہیں جو پسِ جسم و جاں بھی زندہ رہے
جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے
یہ کائنات فقط منفعت کا نام نہیں
یہاں پہ کوئی برائے زیاں بھی زندہ رہے
عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا
یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دل نوازیٔ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر گزر گئی
اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے

کر کے رَقَم قَدَم قَدَم ہم نئی داستاں گئے
بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے
گھر سے یونہی نکل چلے، زادِ سَفَر تھے وَلوَلے
آگ لگی تَو قافلے، ہو کے دُھواں دُھواں گئے
رَقصِ اَجَل چہار سُو، وحشت و یاس کُو بہ کُو
ذکرِ نشاطِ آرزو لے کے جہاں جہاں گئے
رکّھا ہے کیا سُراغ میں ؟ لکّھا ہے داغ داغ میں
آگ لگانے باغ میں ، جب گئے باغباں گئے
شہر تَو خیر جَل چکا، آتشِ جہل! یہ بتا
کیا ہُوا اہلِ عِلم کا؟ لوگ کہاں کہاں گئے؟
ضامنِؔ قلبِ سخت کوش! کوچہ ہے یہ اَجَل بَدوش
علم و خِرَد، حواس و ہوش، کہتے اَماں اَماں گئے
ضامن جعفری

کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل

سُن اے ہجومِ تَمَنّا! اَب اِس مَکاں سے نکل
کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل
بَتا دِیا تھا کہ کھُل جائے گا یقیں کا بھَرَم
کَہا تھا عَقل سے مَت حَلقَہِ گُماں سے نکل
یہ کائنات سَنبھَل جائے گی پَہ شَرط یہ ہے
اِدھَر مَکاں سے میں نکلوں تُو لامکاں سے نکل
خِرَد پُکاری جو دیکھا مُجھے حضورِ جنوں
یہ تیرے بَس کا نہیں ہے اِس اِمتحاں سے نکل
چَمَن میں اَب تُو اَکیلا نہیں ہے بَرق بھی ہے
یہ باغ و غُنچَہ و گُل چھوڑ! آشیاں سے نکل
قَدَم نَہ چَپقَلِشِ خَیر و شَر میں رَکھ ضامنؔ
کَہیِں کا بھی نَہ رَہے گا تُو دَرمیاں سے نکل
ضامن جعفری

ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے

حریمِ ناز کے قصّے اگر بیاں ہوں گے
ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے
عَجَب شناخت ہے یہ شاہراہِ ہَستی کی
تَمام قافلے سُوئے عَدَم رَواں ہوں گے
نہ سمجھیں سہل پسند آپ اہلِ ساحل کو
ذرا سی دیر میں موجوں کے درمیاں ہوں گے
ہمارے ضبطِ سخن پر نہ جائیے صاحب
یہ بند ٹُوٹا تَو پھر آپ بھی کہاں ہوں گے
کہاں کہاں اُنہیَں ڈھونڈا مِرے تَخَیُّل نے
خیال تھا وہ ستاروں کے درمیاں ہوں گے
مِرا خیال ہے کوئی یہاں نہیں آتا
جو عِلم ہوتا یہاں اِتنے اِمتحاں ہوں گے
رَوِش حَسیِنوں کی ضامنؔ اِس اعتماد پہ ہے
ہمارے زَخم بھی ہم جیسے بے زباں ہوں گے
ضامن جعفری

برق میرے بھی آشیاں سے چلی

جب کبھی میری آسماں سے چلی
برق میرے بھی آشیاں سے چلی
عشق اَور آرزوئے عشق کی بات
حُسنِ خود بین و خوش گماں سے چلی
اُس نے پوچھا تَو کہہ دیا میں نے
رَوِشِ خونِ دل یہاں سے چلی
حُسنِ خودبیں کی رسمِ نخوت و ناز
عشق کی سعیِ رایگاں سے چلی
یادِ ماضی سے روز کہتا ہُوں
ٹھیَر جا! تُو ابھی کہاں سے چلی
آج فکرِ غزل مری ضامنؔ
کہکشاؤں کے درمیاں سے چلی
ضامن جعفری

سنی بھی میری کہانی تو درمیاں سے سنی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
نہ ابتدا سے نہ انجامِ ناگہاں سے سنی
سنی بھی میری کہانی تو درمیاں سے سنی
اُٹھی نہ تھی جو ابھی حلق سے پرندے کے
وہ چیخ ہم نے چمن میں تنی کماں سے سنی
ملا تھا نطق اُسے بھی پہ نذرِ عجز ہُوا
کتھا یہی تھی جو ہر فردِ بے زباں سے سنی
دراڑ دُور سے اَیوان کی نمایاں تھی
زوالِ شہ کی حکایت یہاں وہاں سے سنی
زباں سے خوف میں کٹ جائے جیسے لفظ کوئی
صدائے درد کچھ ایسی ہی آشیاں سے سنی
گماں قفس کا ہر اک گھونسلے پہ ہے ماجد
خبر یہ خَیر سے ہر کنجِ گلستا ں سے سنی
ماجد صدیقی

اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
شہ بہ شہ اِک کھیل برپا ہے جہاں ہم آپ ہیں
اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں
خم نہیں ہے ابروؤں میں چِیں جبینوں پر نہیں
جو نہیں تنتی کبھی ایسی کماں ہم آپ ہیں
مژدۂ کربِ لحد، ذکرِ خدائے محتسب
جانے کن کن دبدبوں کے درمیاں ہم آپ ہیں
حرف کی توقیر ہے، زور آوری پر منحصر
مقتدر ہی معتبر ہے بے زباں ہم آپ ہیں
زیر کرتی ہے ہمیں ہی دانشِ اہلِ ریا
جو بھی دَور آتا ہے صیدِ مُفسداں ہم آپ ہیں
اِک ذرا سی جس کو دانائی و عّیاری ملی
رہنما وہ اور جیشِ ابلہاں ہم آپ ہیں
دھند چھٹتی ہے تو پھر اِک دھند چھا جانے لگے
کُھل نہیں پاتا یہی ماجدؔ کہاں ہم آپ ہیں
ماجد صدیقی

میرے انگناں بھی آسماں اُترا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
دل میں وُہ رشکِ گلستاں اُترا
میرے انگناں بھی آسماں اُترا
زعم ذہنوں سے، عدل خواہی کا
خاک اور خوں کے درمیاں اُترا
پستیوں نے جو، بعدِ اَوج دیا
تاپ خفت کا وہ، کہاں اُترا
رَن میں جیسے مجاہدِ اوّل
حرفِ حق، یُوں سرِ زباں اُترا
نُچ کے آندھی میں، پیڑ سے ماجدؔ
پھر ندی میں ہے، آشیاں اُترا
ماجد صدیقی

جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 149
اُٹھ کے جو اُس کے آستاں سے گیا
جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا
چھیڑتے کیوں ہو تذکرے اس کے
جو مرے وہم سے گماں سے گیا
یوں مری داستاں سے نکلا وہ
باب جیسے ہو درمیاں سے گیا
اب یہ آنکھیں اُسے نہ دیکھیں گی
حسن جو ابکے گلستاں سے گیا
آنے پایا نہ اختیار میں وہ
تیر اک بار جو کماں سے گیا
کیا وہ من موہنا خزانہ تھا
شخص جو ہند میں سواں سے گیا
بن کے بندہ غرض کا ماجدؔ بھی
دیکھ لو بزمِ دوستاں سے گیا
ماجد صدیقی

کرلی ہے مفاہمت خزاں سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کرلی ہے مفاہمت خزاں سے
سنبھلے بھی تو کب سنبھل سکے ہم
جب تیر نکل چکا کماں سے
دیتے ہیں پتہ ہمارا اَب بھی
کُچھ پر، کہ گرے تھے آشیاں سے
اِک عمر رہا قیام جس پر
ٹوٹی ہے وہ شاخ درمیاں سے
شاخوں سے جھڑے ہیں پُھول کیونکر
شل ہوں اِسی رنجِ رفتگاں سے
دیوار اِک اور سامنے ہے
لے چاٹ اِسے بھی اب زباں سے
ماجدؔ ہے سفر جدا ہمارا
لینا ہمیں کیا ہے کارواں سے
ماجد صدیقی

تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گل ہیں خوشبُو ہیں کہکشاں ہیں ہم
تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم
کل بھی تھا ساتھ ولولوں کا ہجوم
آج بھی میرِ کارواں ہیں ہم
اِک تمنّا کا ساتھ بھی تو نہیں
کس بھروسے پہ یوں رواں ہیں ہم
دل میں سہمی ہے آرزوئے حیات
کن بگولوں کے درمیاں ہیں ہم
جانتی ہیں ہمیں ہری شاخیں
زرد پتّوں کے ترجمان ہیں ہم
دل کا احوال کیا کہیں ماجدؔ
گو بظاہر تو گلستاں ہیں ہم
ماجد صدیقی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 100
یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 99
بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے
جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے
عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی
کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے
تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے
وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا
یہ کون ہیں جو پسِ جسم و جاں بھی زندہ رہے
جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے
یہ کائنات فقط منفعت کا نام نہیں
یہاں پہ کوئی برائے زیاں بھی زندہ رہے
عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا
یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 78
تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 56
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 54
یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دل نوازیٔ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر گزر گئی
اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 48
زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 27
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 9
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

لفافے میں نہ رکھ لی نامہ بر میری زباں تو نے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 125
خدا معلوم کیا سے کیا کیا ہو گا بیاں تو نے
لفافے میں نہ رکھ لی نامہ بر میری زباں تو نے
مٹا کر رکھ دیے ہیں یوں ہزاروں بے زباں تو نے
نہ رکھا اپنے عہدِ ظلم کا کوئی نشاں تو نے
تجھ فوراَ ہی میرا قصہ روک دینا تھا
ترا دکھتا تھا دل تو کیوں سنی تھی داستاں تو نے
ہرے پھر کر دیے زخمِ جگر صیاد بلبل کے
قفس کے سامنے کہہ کر گلوں کی داستاں تو نے
اسی وعدے پہ کھائی تھی قسم روئے کتابی کی
اسی صورت میں قرآں کو رکھا تھا درمیاں تو نے
عدو کہتے ہیں اب سہرا فصاحت کا ترے سر ہے
قمر بالکل بنا دی ہے تو نے دلھن اردو زباں تو نے
قمر جلالوی

از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 220
زیرِ محراب ابرواں خوں ہے
از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے
ایک بسمل کا رقصِ رنگ تھا آج
سرِ مقتل جہاں تہاں خوں ہے
زخم کے خرمنوں کا مژدہ ہو
آب۔ کشت بلا کشاں خوں ہے
سادہ پوشانِ عیدِ شوق، نوید
آبِ حوض نمازیاں خوں ہے
باب ہے حسرتوں کی محنت گاہ
دل یارانہ خوں فشاں خوں ہے
زخم انگیز ہے خراشِ امید
ہے دیدار۔ گل رخاں خوں ہے
ہو گئے باریاب اہل غرض
روئے دہلیز و آسماں خوں ہے
دل خونیں ہے میزباں
عمدہ خوانِ میزبان خوں ہے
فصل آئی ہے رنگِ مستوں کی
تابہ دیوارِ گلستاں خوں ہے
ہر تماشائی مدعی ٹھہرا
پر تو زخمِ خوں چکا خوں ہے
میں ہوں بے داغ دامناں محتاط
نفسِ خوں گرفتگاں خوں ہے
غنچہ ہا زخم، زخم ہا الماس
شبنم باغ امتحاں خوں ہے
اس طرف کوہکن ادھر شیریں
اور دونوں کے درمیاں خوں ہے
بے دلوں کو نہ چھیڑیو کہ یہ قوم
امتِ شوق رائیگاں خوں ہے
جون ایلیا

رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 214
اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے
دھول ہے ساری زمیں، دھند ہے سب آسماں
شکل کی صورت کہاں؟ شہر بگولوں کا ہے
گرد کی شکلیں سی دو ہونے کو ہیں ہمکنار
بیچ میں ہیں آندھیاں، شہر بگولوں کا ہے
گرد ہیں تعمیر کی ساری فلک بوسیاں
گرد میں ہوُ کا مکاں، شہر بگولوں کا ہے
ہیں اسی دم رُوبرُو، پھر نہ کوئی میں نہ توُ
اُس پہ وعدے بھی جاں ؟ شہر بگولوں کا ہے
اب سے ہے جو اب تلک، سود میں ہے وہ پلک
کس کا زیاں، کیا زیاں، شہر بگولوں کا ہے
ایک نفس ہی سہی، اس کی ہوس ہی سہی
رشتہ ہو اک درمیاں، شہر بگولوں کا ہے
دھند ہے بکھراو ہے، دھول ہے اندھیاو ہے
خود سے لگا چل میاں، شہر بگولوں کا ہے
ہائیں یہ آشفتگی، پائے نہ جاو گے پھر
شہر یہ آشفتگاں، شہر بگولوں کا ہے
وہم گماں کا گماں، عیشِ یقیں ہے یہاں
یہ بھی گماں ہے گماں، شہر بگولوں کا ہے
جون ایلیا

کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 179
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخِ جاں سے
دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے
تھا اب تک معرکہ باہر کا در پیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے
فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے
خبر کیا دوں میں شہرِ رفتگاں کی
کوئی لوٹے بھی شہرِ رفتگاں سے
یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا
کوئی پوچھے تو میرِ داستاں سے
جون ایلیا

اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 158
کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی
یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی
کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی
میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی
یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی
تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی
جون ایلیا

بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 140
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو اندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
جون ایلیا

کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 107
ہوں میں یکسر رایگاں ، افسوس میں
کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں
اب عبث کا کارواں ہے گرم سیر
میں ہوں میرِ کارواں ، افسوس میں
کیسے پہنچوں آخر اپنے آپ تک
میں ہوں اپنے درمیاں ، افسوس میں
شعلہء یاقوت فامِ زخمِ دل
میں ہوں کتنا تیرہ جاں ، افسوس میں
یاد اُس لب کی عطش انگیز ہے
ہوں میں دوزخ درمیاں ، ، افسوس میں
بازوانِ مرمرینِ ۔۔ آرزو
وائے ہجرِ جاداں ، افسوس میں
سبزہ زارِ خوابِ لالہ فام میں
کس قدر ہوں میں تپاں ، افسوس میں
پرتوِ سمیینِ مہتابِ گماں
گم ہوئی شمعِ ، افسوس میں
مجھ کو ہے درپیش اپنے سے فراق
میں کہاں اور میں کہاں ، افسوس میں
دل میں نالہ توڑنا ہے جس کا فن
میں ہوں وہ آوازہ خواں ، افسوس میں
میں ہوں گوشہ گیرِ گردِ صد ملال
اے غبارِ کارواں ، افسوس میں
میرے ہی دل پر لگا ہے جس کا تیر
ہے وہ میری ہی کماں افسوس میں
جون ایلیا

ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 84
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں
رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا
پر ہوا خوب رائیگاں جاناں
میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے
کس سے پوچھوں ترا نشاں جاناں
علام و بیکرانِ رنگ ہے تو
تجھ میں ٹھہروں کہاں کہاں جاناں
میں ہواؤں سے کیسے پیش آؤں
یہی موسم ہے کیا وہاں جاناں؟
روشنی بھر گئی نگاہوں میں
ہو گئے خواب بے اماں جاناں
درد مندانِ کوئے دلداری
گئے غارت جہاں تہاں جاناں
اب بھی جھیلوں میں عکس پڑتے ہیں
اب بھی نیلا ہے آسماں جاناں
ہے پرخوں تمہارا عکس خیال
زخم آئے کہاں کہاں جاناں
جون ایلیا

میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 69
حساب داریِ سودوزیاں سے چل نکلو
میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو
میری سُنو زمان و مکاں میں رہتے ہوئے
بہ صد سلیقہ زمان و مکاں سے چل نکلو
یہ تیرے لوگ نہیں ہیں یہ تیرا شہر نہیں
یہ مشورہ ہے مرا تو یہاں سے چل نکلو
یہ جو بھی کچھ ہے نہیں کچھ بھی جُز فریبائی
یقیں کو چھوڑ دو یعنی گماں سے چل نکلو
شبِ گزشتہ خراباتیوں میں تھا یہ سوال
کہاں کا رُخ کرو آخر کہاں سے چل نکلو
نفس نفس ہے وجود و عدم میں اک پیکار
ہے مشورہ یہ میرا درمیاں سے چل نکلو
جون ایلیا

صحن ہوا دھواں دھواں ! شام بخیر شب بخیر ۔۔۔

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 51
جاؤ قرار بے دلاں ! شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں ! شام بخیر شب بخیر ۔۔۔
شام وصال ہے قریب ، صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سر گراں ، شام بخیر شب بخیر
وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم جاں بہ جاں
جسم بہ جسم جاں بہ جاں، شام بخیر شب بخیر
اے مرے شوق کی امنگ میرے شباب کی ترنگ
تجھ پہ شفق کا سائباں، شام بخیر شب بخیر
تو مری شاعری میں ہے رنگِ طراز و گل فشاں
تیری بہار بے خزاں، شام بخیر شب بخیر
تیرا خیال خواب خواب خلوتِ جاں کی آب و تاب
جسم جمیل و نوجواں، شام بخیر شب بخیر
ہے مرا نام ارجمند تیرا حصارِ سر بلند
بانو شہر جسم و جاں، شام بخیر شب بخیر
درد سے جان دید تک دل سے رخِ امید تک
کوئی نہیں ہے درمیاں، شام بخیر شب بخیر
ہو گئی دیر جاؤ تم مجھ کو گلے لگاؤ تم
تو مری جاں ہے مری جاں، شام بخیر شب بخیر
شام بخیر شب بخیر، موجِ شمیمِ پیرہن
تیری مہک رہے گی یاں، شام بخیر شب بخیر
زاہدہ حنا کے نام
جون ایلیا

وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 24
جانے کہاں گیا وہ، وہ جو ابھی یہاں تھا؟
وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟
تا لمحہ گزشتہ یہ جسم اور بہار آئے
زندہ تھے رائیگاں میں، جو کچھ تھا رائیگاں تھا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا
کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائیگاں تھا
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر؟
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی جو ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصلیں اور گرد کا مکاں تھا
تھی اک عجب فضا سی امکانِ خال و خد کی
تھا اک عجب مصور اور وہ مرا گماں تھا
عمریں گزر گئیں تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا، صدیوں میں بے اماں تھا
میں ڈوبتا چلا گیا تاریکیوں کہ تہہ میں
تہہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا
جون ایلیا

اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 178
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں
ہر چند جاں گدازئِ قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمئِ تاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂِ الاَماں نہیں
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِدل نفس اگر آذر فشاں نہیں
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں“
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 146
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں@
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
یہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں” پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
@ کچھ نسخوں میں ’وضع کیوں بدلیں‘ ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ

دیوان پنجم غزل 1648
غم کھنچا رائیگاں دریغ دریغ
ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ
عشق میں جی بھی ہم گنوا بیٹھے
ہو گیا کیا زیاں دریغ دریغ
سب سے کی دشمنی جنھوں کے لیے
وے ہیں نامہرباں دریغ دریغ
قطع امید ہے قریب اس سے
تیغ ہے درمیاں دریغ دریغ
دل گئے پر نہ ورد نے تسبیح
کہتے ہیں ہر زماں دریغ دریغ
اٹھنے دیتا نہیں شکستہ دل
ڈھہ گیا کیا مکاں دریغ دریغ
تب کھلی آنکھ میر اپنی جب
جاچکا کارواں دریغ دریغ
میر تقی میر

سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے

دیوان دوم غزل 1004
یاں ہم براے بیت جو بے خانماں رہے
سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے
تھا ملک جن کے زیرنگیں صاف مٹ گئے
تم اس خیال میں ہو کہ نام و نشاں رہے
آنسو چلے ہی آنے لگے منھ پہ متصل
کیا کیجے اب کہ راز محبت نہاں رہے
ہم جب نظر پڑیں تو وہ ابرو کو خم کرے
تیغ اپنے اس کے کب تئیں یوں درمیاں رہے
کوئی بھی اپنے سر کو کٹاتا ہے یوں ولے
جوں شمع کیا کروں جو نہ میری زباں رہے
یہ دونوں چشمے خون سے بھر دوں تو خوب ہے
سیلاب میری آنکھوں سے کب تک رواں رہے
دیکھیں تو مصر حسن میں کیا خواریاں کھنچیں
اب تک تو ہم عزیز رہے ہیں جہاں رہے
مقصود گم کیا ہے تب ایسا ہے اضطراب
چکر میں ورنہ کاہے کو یوں آسماں رہے
کیا اپنی ان کی تم سے بیاں کیجیے معاش
کیں مدتوں رکھا جو تنک مہرباں رہے
گہ شام اس کے مو سے ہے گہ رو سے اس کے صبح
تم چاہو ہو کہ ایک سا ہی یاں سماں رہے
کیا نذر تیغ عشق سرِتیر میں کیا
اس معرکے میں کھیت بہت خستہ جاں رہے
اس تنگناے دہر میں تنگی نفس نے کی
جوں صبح ایک دم ہی رہے ہم جو یاں رہے
اک قافلے سے گرد ہماری نہ ٹک اٹھی
حیرت ہے میر اپنے تئیں ہم کہاں رہے
میر تقی میر

ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو

دیوان دوم غزل 917
نہ میرے باعث شور و فغاں ہو
ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو
یہی مشہور عالم ہیں دوعالم
خدا جانے ملاپ اس سے کہاں ہو
جہاں سجدے میں ہم نے غش کیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہو
نہ ہووے وصف ان بالوں کا مجھ سے
اگر ہر مو مرے تن پر زباں ہو
جگر تو چھن گیا تیروں کے مارے
تمھاری کس طرح خاطر نشاں ہو
نہ دل سے جا خدا کی تجھ کو سوگند
خدائی میں اگر ایسا مکاں ہو
تم اے نازک تناں ہو وہ کہ سب کے
تمناے دل و آرام جاں ہو
ہلے ٹک لب کہ اس نے مار ڈالا
کہے کچھ کوئی گر جی کی اماں ہو
سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمھارا
کہو جو کچھ کہ چاہو مہرباں ہو
کنارہ یوں کیا جاتا نہیں پھر
اگر پاے محبت درمیاں ہو
ہوئے ہم پیر سو ساکت ہیں اب میر
تمھاری بات کیا ہے تم جواں ہو
میر تقی میر

جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں

دیوان دوم غزل 865
کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب واں عیاں نہیں
جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں
دفتر بنے کہانی بنی مثنوی ہوئی
کیا شرح سوز عشق کروں میں زباں نہیں
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں
ہنگامہ و فساد کی باعث ہے وہ کمر
پھر آپ خوب دیکھیے تو درمیاں نہیں
جی ہی نکل گیا جو گیا یار پاس سے
جسم ضعیف و زار میں اب میرے جاں نہیں
ہے عشق ہی سے چار طرف بحث و گفتگو
شور اس بلاے جاں کا جہاں میں کہاں نہیں
اس عہد کو نہ جانیے اگلا سا عہد میر
وہ دور اب نہیں وہ زمیں آسماں نہیں
میر تقی میر

حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ

دیوان دوم غزل 846
غافل ہیں ایسے سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
کیونکر کہیں کہ شہر وفا میں جنوں نہیں
اس خصم جاں کے سارے دوانے ہیں یاں کے لوگ
رونق تھی دل میں جب تئیں بستے تھے دلبراں
اب کیا رہا ہے اٹھ گئے سب اس مکاں کے لوگ
تو ہم میں اور آپ میں مت دے کسو کو دخل
ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ
مرتے ہیں اس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طور سے اس کام جاں کے لوگ
پتی کو اس چمن کی نہیں دیکھتے ہیں گرم
جو محرم روش ہیں کچھ اس بدگماں کے لوگ
بت چیز کیا کہ جس کو خدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیرچشم ہیں کوے بتاں کے لوگ
کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے
یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ
منھ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر محو ہیں میری زباں کے لوگ
میر تقی میر

ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے

دیوان اول غزل 585
نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے
گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی لب ودہاں ہے
لیکن سخن کا تجھ سے غنچے کو منھ کہاں ہے
ہنگام جلوہ اس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا
چتون ہے دل کی آفت چشمک بلاے جاں ہے
پتھر سے توڑنے کے قابل ہے آرسی تو
پر کیا کریں کہ پیارے منھ تیرا درمیاں ہے
باغ و بہار ہے وہ میں کشت زعفراں ہوں
جو لطف اک ادھر ہے تو یاں بھی اک سماں ہے
ہر چند ضبط کریے چھپتا ہے عشق کوئی
گذرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
عالم میں آب و گل کا ٹھہرائو کس طرح ہو
گر خاک ہے اڑے ہے ورآب ہے رواں ہے
چرچا رہے گا اس کا تاحشر مے کشاں میں
خونریزی کی ہماری رنگین داستاں ہے
ازخویش رفتہ اس بن رہتا ہے میر اکثر
کرتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے
میر تقی میر

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

دیوان اول غزل 383
اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بردل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک بائو گل فشاں ہو
میر اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو
میر تقی میر

پر مطلقاً کہیں ہم اس کا نشاں نہ پایا

دیوان اول غزل 90
یاں نام یار کس کا ورد زباں نہ پایا
پر مطلقاً کہیں ہم اس کا نشاں نہ پایا
وضع کشیدہ اس کی رکھتی ہے داغ سب کو
نیوتا کسو سے ہم وہ ابرو کماں نہ پایا
پایا نہ یوں کہ کریے اس کی طرف اشارت
یوں تو جہاں میں ہم نے اس کو کہاں نہ پایا
یہ دل کہ خون ہووے برجا نہ تھا وگرنہ
وہ کون سی جگہ تھی اس کو جہاں نہ پایا
فتنے کی گرچہ باعث آفاق میں وہی تھی
لیکن کمر کو اس کی ہم درمیاں نہ پایا
محروم سجدہ آخر جانا پڑا جہاں سے
جوش جباہ سے ہم وہ آستاں نہ پایا
ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا
میر تقی میر

یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 330
جو سر پہ کل تھا وہی آسماں ابھی تک ہے
یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے
کسی جزیرے پہ شاید مجھے بھی پھینک آئے
سمندروں پہ ہوا حکمراں ابھی تک ہے
یہاں سے پیاسوں کے خیمے تو اٹھ گئے کب کے
یہ کیوں رکی ہوئی جوئے رواں ابھی تک ہے
تو رہزنوں کو بھی توفیقِ خواب دے یارب
کہ دشتِ شب میں مرا کارواں ابھی تک ہے
میں کس طرح مرے قاتل گلے لگاؤں تجھے
یہ تیر تیرے مرے درمیاں ابھی تک ہے
عرفان صدیقی

گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 232
سروں کو ربط رہا ہے سناں سے پہلے بھی
گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی
یہ پہلی چیخ نہیں ہے ترے خرابے میں
کہ حشر اُٹّھے ہیں میری فغاں سے پہلے بھی
ہماری خاک پہ صحرا تھا مہرباں بہت
ہوائے کوفۂ نامہرباں سے پہلے بھی
بجھا چکے ہیں پرانی رفاقتوں کے چراغ
بچھڑنے والے شبِ درمیاں سے پہلے بھی
ہمیں نہیں ہیں ہلاکِ وفا کہ لوگوں پر
چلے ہیں تیر صفِ دوستاں سے پہلے بھی
عرفان صدیقی

یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 228
زمیں پہ ہو گا کہیں آسماں ہمارا بھی
یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی
خبر نہیں کہ ہمیں بھی ہوا کہاں لے جائے
کھلا ہوا ہے ابھی بادباں ہمارا بھی
بہت ہے یہ بھی کہ موجوں کے روبرو کچھ دیر
رہا ہے ریگِ رواں پر نشاں ہمارا بھی
یہ تیر اگر کبھی دونوں کے بیچ سے ہٹ جائے
تو کم ہو فاصلۂ درمیاں ہمارا بھی
اُسی سفر پہ نکلتے ہیں رفتگاں کی طرح
اب انتظار کریں بستیاں ہمارا بھی
سواد قریۂ نامہرباں میں یاد آیا
کہ لکھنؤ میں ہے اک مہرباں ہمارا بھی
عرفان صدیقی

جو دل میں ہے وہ دل آزردگاں علیؑ سے کہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 125
وہی ہیں مرجعِ لفظ و بیاں علیؑ سے کہو
جو دل میں ہے وہ دل آزردگاں علیؑ سے کہو
شکایتِ ہنر چارہ گر علیؑ سے کرو
حکایتِ جگر خونچکاں علیؑ سے کہو
بدل چکا ہے یہی آفتاب سمتِ سفر
سو حالِ گردش سیارگاں علیؑ سے کہو
تمہارے غم کا مداوا انہیں کے ہاتھ میں ہے
نہ جاؤ روبروئے خسرواں علیؑ سے کہو
اُنہیں کے سامنے اپنا مرافعہ لے جاؤ
اُنہیں کے پاس ہے اذنِ اماں علیؑ سے کہو
کرے کمند تعاقب تو ان کو دو آواز
بنے عذاب جو بندِ گراں علیؑ سے کہو
پہاڑ راستہ روکے تو اُن سے عرض کرو
رُکے اگر کوئی جوُئے رواں علیؑ سے کہو
پھر اب کے طائرِ وحشی نہ ہو سکا آزاد
یہ فصلِ گل بھی گئی رائیگاں علیؑ سے کہو
تمہیں مصاف میں نصرت عطا کریں مولاؑ
سبک ہو تم پہ شبِ درمیاں علیؑ سے کہو
پھرے تمہارے خرابے کی سمت بھی رہوار
اُٹھے تمہاری طرف بھی عناں علیؑ سے کہو
اُنہیں خبر ہے کہ کیا ہے ورائے صوت وصدا
لبِ سکوت کی یہ داستاں علیؑ سے کہو
عرفان صدیقی

کارواں میں کچھ غبارِ کارواں میرا بھی تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 55
اے ہوا‘ کل تیری راہوں پر نشاں میرا بھی تھا
کارواں میں کچھ غبارِ کارواں میرا بھی تھا
اب خیال آتا ہے سب کچھ راکھ ہوجانے کے بعد
کچھ نہ کچھ تو سائباں در سائباں میرا بھی تھا
اس کی آنکھوں میں نہ جانے عکس تھا کس کا مگر
انگلیوں پر ایک لمس رائیگاں میرا بھی تھا
کیوں تعاقب کر رہی ہے تشنگی‘ اے تشنگی
کیا کوئی خیمہ سرِ آب رواں میرا بھی تھا
جان پر کب کھیلتا ہے کوئی اوروں کے لیے
ایک بچہ دشمنوں کے درمیاں میرا بھی تھا
شہر کے ایوان اپنی مٹھیاں کھولیں ذرا
اس زمیں پر ایک ٹکڑا آسماں میرا بھی تھا
میں نے جس کو اگلی نسلوں کے حوالے کر دیا
یار سچ پوچھو تو وہ بارِ گراں میرا بھی تھا
عرفان صدیقی

وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 46
مروّتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا
وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا
بہت دِنوں میں یہ بادل اِدھر سے گزرا ہے
مرا مکان کبھی سائباں بھی رکھتا تھا
عجیب شخص تھا، بچتا بھی تھا حوادث سے
پھر اپنے جسم پہ الزامِ جاں بھی رکھتا تھا
ڈبو دیا ہے تو اَب اِس کا کیا گلہ کیجیے
یہی بہاؤ سفینے رواں بھی رکھتا تھا
توُ یہ نہ دیکھ کہ سب ٹہنیاں سلامت ہیں
کہ یہ درخت تھا اور پتّیاں بھی رکھتا تھا
ہر ایک ذرّہ تھا گردش میں آسماں کی طرح
میں اپنا پاؤں زمیں پر جہاں بھی رکھتا تھا
لپٹ بھی جاتا تھا اکثر وہ میرے سینے سے
اور ایک فاصلہ سا درمیاں بھی رکھتا تھا
عرفان صدیقی

شبیہیں بناتا تھا اور ان کے اطراف نقش و نگارِ گماں کھینچتا تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 45
میں جب تازہ تر تھا تو اکثر تصور میں عکس رخِ دیگراں کھینچتا تھا
شبیہیں بناتا تھا اور ان کے اطراف نقش و نگارِ گماں کھینچتا تھا
کسی شہرِ فردائے امن و اماں کی کرن اپنی جانب بلاتی تھی مجھ
اور اپنی طرف ایک خیمے میں روشن چراغِ شبِ درمیاں کھینچتا تھا
عجب سلسلہ تھا وہ جنگ آزما خاک پر جاں بہ لب چھوڑ جاتے تھے مجھ کو
پسِ معرکہ ایک دستِ کرم میرے سینے سے نوک سناں کھینچتا تھا
یہی شخص جو اب جہانِ مکافات میں قاتلوں سے اماں چاہتا ہے
کبھی پھینکتا تھا کمند آہوؤں پر کبھی طائروں پر کماں کھینچتا تھا
وصالِ بتاں کے لیے سوزِ جاں، عشق کا امتحاں، کچھ ضروری نہیں ہے
سو اب جا کے مجھ پر کھلا ہے کہ میں اتنے رنج و محن رائیگاں کھینچتا تھا
عرفان صدیقی

دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 617
عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے
دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے
جس سے گزرا ہی نہیں ہوں عمر بھر
وہ گلی وہ آستاں معشوق ہے
رفتہ رفتہ کیسی تبدیلی ہوئی
میں جہاں تھا اب وہاں معشوق ہے
ہے رقیبِ دلربا اک ایک آنکھ
کہ مرا یہ آسماں معشوق ہے
مشورہ جا کے زلیخا سے کروں
کیا کروں نامہرباں معشوق ہے
صبحِ ہجراں سے نشیبِ خاک کا
جلوۂ آب رواں معشوق ہے
ہیں مقابل ہر جگہ دو طاقتیں
اور ان کے درمیاں معشوق ہے
گھنٹیاں کہتی ہیں دشتِ یاد کی
اونٹنی کا سارباں معشوق ہے
وہ علاقہ کیا زمیں پر ہے کہیں
ان دنوں میرا جہاں معشوق ہے
میں جہاں دیدہ سمندر کی طرح
اور ندی سی نوجواں معشوق ہے
ہر طرف موجودگی منصور کی
کس قدر یہ بے کراں معشوق ہے
منصور آفاق

چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 597
کوئی دہلیزِ جاں سے اٹھتا ہے
چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے
ہے ابھی کوئی خالی بستی میں
وہ دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے
چھوڑ آتا ہے نقشِ پا کا چراغ
پاؤں تیرا جہاں سے اٹھتا ہے
جس بلندی کو عرش کہتے ہیں
ذکر تیراؐ وہاں سے اٹھتا ہے
اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا
درد سا کچھ یہاں سے اٹھتا ہے
اک ستارہ صفت سرِ آفاق
دیکھتے ہیں کہاں سے اٹھتا ہے
ہم ہی ہوتے ہیں اس طرف منصور
پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے
منصور آفاق

سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 13
ہیں کسی تکلیف کی کیا خوبرو تبدیلیاں
سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں
چھڑ گئے ہیں پھر مسائل ایک کالی رات کے
آرہی ہیں یاد پھر سے زندگی کی تلخیاں
میں نے مصرع کی کلائی کو نئے کنگن دئیے
شانِ دوشیزہ سخن میں ہو گئیں گستاخیاں
آخری تاریکیاں ہیں قریہء امکان میں
گن رہا ہوں ہچکیاں پچھلے پہر کی ہچکیاں
اک اشارہ چاہئے حرفِ کرم کا صبح کو
دیدۂ تقویم میں ہیں وقت کی بے تابیاں
امتِ مرحومہ کو پھر بخش دے روحِ حیات
سربکف تیرے لئے ہے ظالموں کے درمیاں
میں نے جو منصور لکھا اُس پہ شرمندہ نہیں
مجھ سے پائندہ ہوئی ہیں حرف کی رعنائیاں
منصور آفاق

بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 23
کل مدعی کو آپ پر کیا کیا گماں رہے
بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے
یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
یا کھینچ لائے دہر سے رندوں کو اہلِ وعظ
یا آپ بھی ملازمِ پیر مغاں رہے
وصل مدام سے بھی ہماری بجھی نہ پیاس
ڈوبے ہم آبِ خضر میں اور نیم جاں رہے
کل کی خبر ہو تو جھوٹے کا رو سیاہ
تم مدعی کے گھر گئے اور مہماں رہے
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
حالیؔ کے بعد کوئی نہ ہمدرد پھر ملا
کچھ راز تھے کہ دل میں ہمارے نہاں رہے
الطاف حسین حالی

کس حال میں قافلہ رواں ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 236
آواز جرس ہے یا فغان ہے
کس حال میں قافلہ رواں ہے
اٹھتے اٹھتے اٹھیں گے پردے
صدیوں کا غبار درمیاں ہے
کس کس سے بچائے کوئی دل کو
ہر گام پہ ایک مہرباں ہے
ہر چند زمیں زمیں ہے لیکن
تم ساتھ چلو تو آسماں ہے
ضو صبح کی چھو رہی ہے دل کو
ہر چند کہ رات درمیاں ہے
ہم ہوں کہ ہو گرد راہ باقیؔ
منزل ہے اسی کی جو رواں ہے
باقی صدیقی

تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 179
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی
ترے شگفتہ شگفتہ نقوش پا کے طفیل
مری نگاہ میں ہر راہ کہکشاں تھی کبھی
مرے خیال سے تیرا غرور روشن تھا
تری نگاہ سے دنیا میری جواں تھی کبھی
ترے تبسم رنگیں سے پھول کھلتے تھے
مری حیات بہاروں کی داستاں تھی کبھی
وہ بے خودی مری، وہ تیرے قرب کا احساس
نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں کھڑی ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
باقی صدیقی

وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 178
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی
ترے شگفتہ شگفتہ نقوش پا کے طفیل
مری نظر میں ہر اک راہ کہکشاں تھی کبھی
مری نگاہ سے تیرا غرور روشن تھا
تری نگاہ سے دنیا مری جواں تھی کبھی
براہ راست نظر تجھ سے بات کرتی تھی
نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں نہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
باقی صدیقی