ٹیگ کے محفوظات: دربدری

کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 108
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی
یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
قمر جلالوی

گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 16
ارماں ہو مجھے نزع میں کیا چارہ گری کا
گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا
اِک وہ بھی ہے بیمار تری کم نظر کا
مر جائے مگر نام نہ لے چارہ گری کا
برہم ہوئے کیوں سن کے مرا حالِ محبت
شِکوہ نہ تھا آپ کی بیداد گری کا
بیگانۂ احساس یہاں تک ہوں جنوں میں
اب گھر کی خبر ہے نہ پتہ دربدری کا
اور اس کے سوا پھول کی تعریف ہی کیا ہے
احسان فراموش نسیمِ سحری کا
دنیا پہ قمر داغِ جگر ہے مرا روشن
لیکن نہ لیا نام کبھی چارہ گری کا
قمر جلالوی

سخن یہ بے خبری میں کہاں سے آتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 180
پرند نامہ بری میں کہاں سے آتے ہیں
سخن یہ بے خبری میں کہاں سے آتے ہیں
ہمیں بھی یاد نہیں ہے کہ ہم شرر کی طرح
ہوا کی ہم سفری میں کہاں سے آتے ہیں
مسافتیں کوئی دیکھے کہ ہم سرابوں تک
گمانِ خوش نظری میں کہاں سے آتے ہیں
گھروں میں آنکھیں‘ دروں میں چراغ جلتے ہوئے
یہ خواب دربدری میں کہاں سے آتے ہیں
یہ کون جادۂ گم گشتگاں اجالتا ہے
فرشتے دشت و تری میں کہاں سے آتے ہیں
اگر تراوشِ زخم جگر نہیں کوئی چیز
تو رنگ بے ہنری میں کہاں سے آتے ہیں
عرفان صدیقی