ٹیگ کے محفوظات: دربار

مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ اضافہ بھی ہُوا ماں باپ کے آزار میں
مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں
آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام
پیر چپکے رہ گئے ہیں جادۂ پر خار میں
تن بدن سے کھال تک جیسے ادھڑ جانے لگے
جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں
سخت مشکل ہے کوئی تریاق اُس کا مِل سکے
زہر جو شامل ملے، ذی جاہ کے انکار میں
خلق ناداری کے ہاتھوں جان دینے پر مصر
اور زر کی بانٹ کے جھگڑے ادھر دربار میں
کیا کہیں ہر آن ماجد مضطرب، پڑنے کو ہیں
سنگ ریزے کیا سے کیا ہر دیدۂ بیدار میں
ماجد صدیقی

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
لٹ جانے کے خدشوں سے دو چار ہوئے
جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے
شہرِ ستم میں حرص و ہوا کی سازش سے
کیا کیا اہلِ نظر، وقفِ دربار ہوئے
شاخ پہ کونپل بننے اور کھِل اٹھنے کے
کیا کیا سپنے آنکھوں کا آزار ہوئے
باغ میں جانے اور مہک لے آنے کے
بادِ صبا سے کیا کیا قول اقرار ہوئے
دریا میں منجدھار ہی دشمنِ جان نہ تھی
اور بھی کچھ دھاوے ہم پر اُس پار ہوئے
راہبری کا ماجد! قحط کہاں ایسا
جیسے اب ہیں، ہم کب یُوں نادار ہوئے
ماجد صدیقی

کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ہمارے عہد میں کب دیدۂ بیدار غالب ہے
کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے
بچے بھی گر بھنور سے تو اُسے ساحل نہ اپنائے
یہاں ہر ناتواں پر ایک سا آزار، غالب ہے
پہنچ کر عمر کو بھی یوں ہوا محصورِ نااہلاں
کہ جیسے شیرِ نر بھی دشت پر، ناچار غالب ہے
وُہی جو سانپ کی یورش سے اُٹھے آشیانوں میں
سماعت در سماعت، بس وُہی چہکار غالب ہے
بنو ماجد نہ غالبؔ، ذوق بن جاؤ جو ممکن ہو
کہ دُنیائے ہُنر میں قربتِ دربار غالب ہے
ماجد صدیقی

لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 158
آگ نظر آتا ہے ہر گلزار مجھے
لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے
شاید یوں تن کی عریانی ڈھانپ سکوں
بُننے ہیں اس پر ریشم کے تار مجھے
گرد کی چادر، زخم بریدہ شاخوں کے
موسم نے کیا برگ دئیے کیا بار مجھے
سیکھا مَیں نے جب سے فن تیراکی کا
روز پکارے ساحل سے منجدھار مجھے
ماجدؔ میرا روگ ہے رفعت ماتھے کی
راس نہیں آتا کوئی دربار مجھے
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

ہیں بند سارے شہر کے، بازار کچھ سُنا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 12
سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سُنا
ہیں بند سارے شہر کے، بازار کچھ سُنا
شہر قلندراں کا، ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سُنا
مصرُوف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂِ دیوار کچھ سُنا
آثار اب یہ ہیں کہ گریبانِ شاہ سے
اُلجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سُنا
اہلِ سِتم سے معرکہ آراء ہے اِک ہجوم
جس کو نہیں مِلا کوئی سردار کچھ سُنا
خُونِیں دِلانِ مرحلۂِ اِمتحاں نے آج
کیا تمکنت دِکھائی سرِ دار کچھ سُنا
کیا لوگ تھے کہ رنگ بِچھاتے چلے گئے
رفتار تھی کہ، خُون کی رفتار کچھ سُنا
جون ایلیا

فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 515
حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے
فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے
دکھائی کیا دیا اک خطِ مستقیم مجھے
کہ دائرے مری پرکار سے نکل آئے
خبر ہو نغمہء گل کو، سکوت کیا شے ہے
کبھی جو رنگ کے بازار سے نکل آئے
پہن لے چھاؤں جو میرے بدن کی تنہائی
تو دھوپ سایہء دیوار سے نکل آئے
اُدھر سے نیم برہنہ بدن کے آتے ہی
امامِ وقت، اِدھر، کار سے نکل آئے
ذرا ہوئی تھی مری دوستی اندھیروں سے
چراغ کتنے ہی اس پار سے نکل آئے
کبھی ہوا بھی نہیں اور ہو بھی ہو سکتا ہے
اچانک آدمی آزار سے نکل آئے
یہ چاہتی ہے حکومت ہزار صدیوں سے
عوام درہم و دینار سے نکل آئے
دبی تھی کوئی خیالوں میں سلطنت منصور
زمین چٹخی تو آثار سے نکل آئے
منصور آفاق

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق