ٹیگ کے محفوظات: داستان

شام کا وقت ہے میاں چپ رہ

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 141
کیا یقین اور کیا گماں چپ رہ
شام کا وقت ہے میاں چپ رہ
ہو گیا قصہ وجود تمام
ہے اب آغاز داستان چپ رہ
میں تو پہلے ہی جا چکاہوں کہیں
تو بھی جاناں نہیں یہاں چپ رہ
تو اب آیا ہے حال میں اپنے
جب زمین ہے نہ آسمان چپ رہ
تو جہاں تھا جہاں جہاں تھا کبھی
تو بھی اب نہیں وہاں چپ رہ
ذکر چھیڑا خدا کا پھر تو نے
یاں ہے انساں بھی رایگاں چپ رہ
سارا سودا نکال دے سر سے
اب نہیں کوئی آستاں چپ رہ
اہرمن ہو خدا ہو یا آدم
ہو چکا سب کا امتحاں چپ رہ
اب کوئی بات تیری بات نہیں
نہیں تیری تری زباں چپ رہ
ہے یہاں ذکر حال موجوداں
تو ہے اب ازگزشتگاں چپ رہ
ہجر کی جاں کنی تمام ہوئی
دل ہو جون بے اماں چپ رہ
جون ایلیا

رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر

دیوان دوم غزل 805
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر
کچھ ہورہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر
یہ دلبری کے فن و فریب اتنی عمر میں
جھنجھلاہٹ اب تو آوے ہے اس کے سیان پر
محتاج کر خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال
تشہیر کون شہر میں ہو پارہ نان پر
دیکھا نہ ہم نے چھوٹ میں یاقوت کی کبھو
تھا جو سماں لبوں کے ترے رنگ پان پر
کیا رہروان راہ محبت ہیں طرفہ لوگ
اغماض کرتے جاتے ہیں جی کے زیان پر
پہنچا نہ اس کی داد کو مجلس میں کوئی رات
مارا بہت پتنگ نے سر شمع دان پر
یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھائو کی
ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان پر
بزاز کے کو دیکھ کے خرقے بہت پھٹے
بیٹھا وہ اس قماش سے آکر دکان پر
موزوں کرو کچھ اور بھی شاید کہ میر جی
رہ جائے کوئی بات کسو کی زبان پر
میر تقی میر

وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے

دیوان اول غزل 609
بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے
داغ فراق و حسرت وصل آرزوے دید
کیا کیا لیے گئے ترے عاشق جہان سے
ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اس کی بزم میں
نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے
آب خضر سے بھی نہ گئی سوزش جگر
کیا جانیے یہ آگ ہے کس دودمان سے
جز عشق جنگ دہر سے مت پڑھ کہ خوش ہیں ہم
اس قصے کی کتاب میں اس داستان سے
آنے کا اس چمن میں سبب بے کلی ہوئی
جوں برق ہم تڑپ کے گرے آشیان سے
اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ عاشق ہے تو کہیں
القصہ خوش گذرتی ہے اس بدگمان سے
کینے کی میرے تجھ سے نہ چاہے گا کوئی داد
میں کہہ مروں گا اپنے ہر اک مہربان سے
داغوں سے ہے چمن جگر میر دہر میں
ان نے بھی گل چنے بہت اس گلستان سے
میر تقی میر

بحر بھی، بادبان بھی، ہم بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 230
خوف بھی، امتحان بھی، ہم بھی
بحر بھی، بادبان بھی، ہم بھی
آتے جاتے ہزارہا سیلاب!
ساحلوں پر مکان بھی، ہم بھی
ایک ہی دھوپ کی حفاظت میں
دشت بھی، سائبان بھی، ہم بھی
ہر جگہ ایک دوسرے کے حریف
بیکراں آسمان بھی، ہم بھی
آخرِ کار معرکہ فیصل
ریزہ ریزہ چٹان بھی، ہم بھی
سب کسی انتظار میں زندہ
رات بھی، داستان بھی، ہم بھی
عرفان صدیقی

ہو گئے مست عاشقانِ غزل

غزل نمبر 79
(مختار صدیقی کے لئے)
دیکھ کر تجھ میں کچھ نشانِ غزل
ہو گئے مست عاشقانِ غزل
یہ ادائیں، یہ حسن، یہ تیور
تجھ پہ ہونے لگا گمانِ غزل
تیری باتوں کا لطف آتا ہے
اتنی رنگین ہے زبانِ غزل
ہے عبارت غزل سے تیرا غرور
اور قائم ہے تجھ سے شانِ غزل
نت نئے روپ میں ابھرتا ہے
تیرا غم ہے مزاج دانِ غزل
دل کا ہر زخم بول اٹھتا ہے
جب گزرتا ہے کاروانِ غزل
وقت کے ساتھ رخ بدلتا ہے
ہر گھڑی ہے نیا جہانِ غزل
اور بھی کچھ طویل کر دی ہے
غم ہستی نے داستانِ غزل
کچھ طبیعت اداس ہے باقیؔ
آج دیکھا نہیں وہ جانِ غزل
(مختار صدیقی)