ٹیگ کے محفوظات: دار

ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار، یاد ہے

جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے
ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار، یاد ہے
پھر پھول توڑنے کو بڑھاتے ہو اپنا ہاتھ
وہ ڈالیوں میں سانپ کی پُھنکار یاد ہے!
وہ بے وفا کہ جس کو بھلانے کے واسطے
خود سے رہا ہوں برسرِپیکار، یاد ہے
اب کون ہے جو وقت کو زنجیر کر سکے
سایوں سے، ڈھلتی دھوپ کی تکرار یاد ہے
چاہا نہیں کسی کو، اسے چاہنے کے بعد
اپنی نگاہ کا مجھے معیار یاد ہے
باقی نہیں بیاض میں ہونٹوں کی سُرخ چھاپ
لیکن مجھے یہ تحفہِ دل دار یاد ہے
شکیب جلالی

وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے

کلی کلی کی نگاہوں میں مثلِ خار رہے
وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے
وہ جھرمٹوں میں ستاروں کے جلوہ گر ہیں آج
بَلا سے ان کی اگر کوئی اشک بار رہے
طِلسم اثر ہے فضا، چاندنی فسوں انداز
حضورِ دوست یہ ممکن نہیں قرار رہے
سیاہیوں کے بگولے چراغِ رَہ بن جائیں
جو حوصلہ شبِ غربت میں پختہ کار رہے
اب انتہاے اَلَم بھی گراں نہیں دل پر
مگر وہ غم جو ترے رُخ پہ جلوہ بار رہے
وہ بات کیا تھی ہمیں خود بھی اب تو یاد نہیں
نہ پوچھ ہم ترے کس درجہ راز دار رہے
خلوصِ عشق کے جذبات عام کرنا ہیں
کچھ اور دن یہ فضا مجھ کو سازگار رہے
یہ کشمکش، یہ بھلاوے حیات پرور ہیں
کسی کے دل میں اگر عشق کا وقار رہے
کسی کا قُرب اگر قُربِ عارضی ہے، شکیبؔ
فراقِ دوست کی لذّت ہی پائدار رہے
شکیب جلالی

حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ

عشق کے غم گُسا ر ہیں ہم لوگ
حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ
دستِ قدرت کو ناز ہے ہم پر
وقت کے شاہ کار ہیں ہم لوگ
ہم سے قائم ہے گُلستاں کا بھرَم
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
منزلیں ہیں ہمارے قدموں میں
حاصلِ رہ گزار ہیں ہم لوگ
ہم سے تنظیم ہے زمانے کی
محورِ روزگار ہیں ہم لوگ
ہم جو چاہیں گے اب وہی ہو گا
صاحبِ اختیار ہیں ہم لوگ
ہم سے روشن ہے کائنات، شکیبؔ
اصلِ لیل و نہار ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

رنج و غم کی شکار ہے دنیا

مُفلسوں کی پُکار ہے دنیا
رنج و غم کی شکار ہے دنیا
کیا بتاؤں کہ اپنی حالت کی
خود ہی آئینہ دار ہے دنیا
حالِ باطن کسی کو کیا معلوم
ظاہراً دوست دار ہے دنیا
کہہ رہی ہے خزاں کی مایوسی
اک فریبِ بہار ہے دنیا
اُنس و الفت، خلوص و غیرت کا
دامنِ تار تار ہے دنیا
اک زمانہ ہے صد اَلَم بر دوش
جانے کس کی بہار ہے دنیا
ذرہ ذرہ، شکیبؔ، ہے بے چین
قلب کا انتشار ہے دنیا
شکیب جلالی

بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں

تمھارے عشق میں مجبور و بے قرار ہوں میں
بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں
مسرّتیں ہیں زمانے کو، اور الَم مجھ کو
کسی نرالے مصوّر کا شاہکار ہوں میں
کسی کی شانِ کریمی کی لاج رہ تو گئی
گُنَہ نہ کرنے کا بے شک گناہ گار ہوں میں
ستم ظریفیِ دوراں، ارے معاذ اللہ
گُلوں کی طرح سے اک قلبِ داغ دار ہوں میں
تری نگاہِ کرم نے شگفتگی دے دی
وگرنہ دیر کی اُجڑی ہوئی بہار ہوں میں
چلے بھی آئیں خدارا کہ وقتِ آخر ہے
ازل سے آپ کی تصویرِ انتظار ہوں میں
نہ جانے لوگ مجھے کیوں شکیبؔ کہتے ہیں
کسی کی یاد میں ہر وقت بے قرار ہوں میں
شکیب جلالی

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں

یہ بات اور کہ بے کار خواب دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں
ہمارے خواب کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتے
کہ ہم تو پہلے سے مسمار خواب دیکھتے ہیں
ہم اور شب یونہی اک خواب پر نثار رکریں
سو حسبِ خواہش و معیار خواب دیکھتے ہیں
تمہارے خیمے تمہاری ہی ذمؔہ داری ہیں
نگاہ دار و عمل دار خواب دیکھتے ہیں
گمان تک نہ ہو جس پر سِوا حقیقت کے
ہم ایسے کامل و تیار خواب دیکھتے ہیں
امید و رنج کے رشتے کی سب ہمیں ہے سمجھ
سو جان بوجھ کے دشوار خواب دیکھتے ہیں
درندگی کا تماشا تو روز ہوتا ہے
یہ رنج چھوڑ، چل آ یار، خواب دیکھتے ہیں
یہ خود اذیؔتی شامل سرشت میں ہے سو ہم
بہ صد اذیؔت و آزار خواب دیکھتے ہیں
ہم ایسے لوگ ہمیشہ ہی ٹوٹتے ہیں میاں
ہم ایسے لوگ گراں بار خواب دیکھتے ہیں
پھر اِس کے بعد ابد تک عدم ہے، صرف عدم
ابھی وجود کے دوچار خواب دیکھتے ہیں
تھکا ہُوا ہے بدن، رات ہے، سو بستر سے
ہٹاؤ یاد کا انبار، خواب دیکھتے ہیں
ہمیں تباہ کیا صرف اِس نصیحت نے
کہ آگہی کے طلب گار خواب دیکھتے ہیں
تمہیں ہے کس لیے پرخاش ہم فقیروں سے
جو بے نیاز و سروکار خواب دیکھتے ہیں
ہے اپنی نیند بہت قیمتی کہ ہم عرفان
بہت ہی نادر و شہکار خواب دیکھتے ہیں
عرفان ستار

میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا

وہ چراغِ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا
میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا
مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا
مری لَو کو جس میں اماں ملی میں اُسی بہار میں بجھ گیا
وہ جو لمس میری طلب رہا وہ جھلس گیا مری کھوج میں
سو میں اُس کی تاب نہ لا سکا کفِ داغ دار میں بجھ گیا
جنہیں روشنی کا لحاظ تھا جنہیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں اُنہی کی صف میں جلا کِیا میں اُسی قطار میں بجھ گیا
عرفان ستار

یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا

اب میں جو کہہ رہا ہوں یہ اشعار دیکھنا
یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا
پہلے تو ڈھونڈ روح کے آزار کی دوا
پھر آ کے اے طبیب یہ بیمار دیکھنا
جانے یہ کیسا شوق ہے مجھ کو کہ جاگ کر
شب بھر افق پہ صبح کے آثار دیکھنا
اب تک نہیں ہوا ہے تو کیا ہو سکے گا اب
یہ عمر جائے گی یونہی بے کار دیکھنا
اُس سمت دیکھنا ہی نہیں وہ ہو جس طرف
پھر جب وہ جاچکے تو لگاتار دیکھنا
ہے ایسا انہماک و توجہ نگاہ میں
اک بار دیکھنا بھی ہے سو بار دیکھنا
سب سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ ہے یہ
خود کو خود اپنے آپ سے بیزار دیکھنا
اندر سے ٹوٹتے ہوئے اک عمر ہو چکی
اب کچھ دنوں میں ہی مجھے مسمار دیکھنا
کچھ تو کھلے کہ کوئی وہاں ہے بھی یا نہیں
ہے کوئی، جا کے وقت کے اُس پار دیکھنا
ویسے تو سارا شہر ہی دام و درم کا ہے
ہم ذوق مل ہی جائیں گے دوچار دیکھنا
وحشت میں جانے کون سی جانب گیا ہے وہ
اے میرے بھائی دیکھنا، اے یار دیکھنا
کیا مجھ پہ رونے والا نہیں ہے کوئی، ارے
وہ آرہے ہیں میرے عزادار دیکھنا
کوئی گیا ہے مجھ کو یہی کام سونپ کر
در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
شاعر ہو تم، نہ دیکھنا دنیا کا حالِ زار
تم بس خیالی گیسو و رخسار دیکھنا
گو آندھیوں کی زد میں رہا ہوں تمام عمر
سر سے مگر گری نہیں دستار، دیکھنا
اپنی روایتوں کا کہاں تک منائیں سوگ
اب وقت جو دکھائے سو ناچار دیکھنا
دل اُوب سا گیا ہے اکیلے میں دوستو
میرے لیے کہیں کوئی دلدار دیکھنا
مضمون ہو نیا یہ ضروری نہیں میاں
ہاں شاعری میں ندرتِ اظہار دیکھنا
کوئی تسلی، کوئی دلاسا مرے لیے
جانے کہاں گئے مرے غم خوار دیکھنا
اے عاشقانِ میر کہاں جامرے ہو سب
غالب کے بڑھ گئے ہیں طرف دار، دیکھنا
زریون، یار دیکھ یہ عرفان کی غزل
عارف امام، بھائی یہ اشعار دیکھنا
عرفان ستار

اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے

کس کو سمجھاؤں سبب جو مرے اصرار کا ہے
اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے
کفر و ایماں کا نہ اقرار نہ انکار کا ہے
مسئلہ سارے کا سارا ترے دیدار کا ہے
تو نے پوچھا ہے ترا مجھ سے تعلق کیا ہے
وہی رشتہ ہے مصور سے جو شہکار کا ہے
دل میں میرے بھی وہی ہے جو ہے تیرے دل میں
فرق ہم دونوں میں پیرایۂ اظہار کا ہے
وہ مسیحائی پہ مائل ہیں یقیناً میری
ذکر محفل میں سنا ہے کسی بیمار کا ہے
کر کے تُو بیخ کَنی میری پشیماں کیوں ہے
یہ کرشمہ تَو تری پستیٔ کردار کا ہے
کس قدر بزم میں انجان سے بن جاتے ہیں
فکر یہ بھی ہے سبب کیا مرے آزار کا ہے
حسنِ خود بیں سے ہماری تَو نہ نبھتی ضامنؔ
یہ کمال اُور یہ ہنر عشقِ روا دار کا ہے
ضامن جعفری

ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای

سِرّے چہ خوش زِ چشمِ خود اظہار کردہ ای
ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای
یارب زِ ہفت رنگیِ ما عاصیانِ خلد
این عرصۂ وجود را، شہکار کردہ ای
اغماضِ تو کسے نشناسد جز اہلِ دل
دانیم ہمچنیں جہت اصرار کردہ ای
یک غنچہ ما زِ گلشنِ حُسنَت نچیدہ ایم
با این ہمہ بہ خاطرِ خود خار کردہ ای
بِنشِیں و بِشنَوی زِ دلم ہر چہ بِگزَرَد
زاں نقشِ دل کہ نقش بہ دیوار کردہ ای
آن کارِ حسن بود کو آدم زِ خلد راند
ما را بہ چہ گناہ سرِ دار کردہ ای
ما خواستیم دولتِ یک حرفِ صد سخن
باوَر نمی کنیم کہ انکار کردہ ای
ہر کس گسست و رست زِ بندِ کمندِ تو
کاغازِ رسمِ قدغنِ اظہار کردہ ای
ضامنؔ ہنوز پا بہ رکاب اَست و منتظر
اقرار خواہی کرد کہ انکار کردہ ای
ضامن جعفری

بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں

نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں
تلافیٔ ستمِ روزگار کون کرے
تو ہم سخن بھی نہیں رازدار بھی تو نہیں
زمانہ پرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم غمِ لیل و نہار بھی تو نہیں
تری نگاہِ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تری خامشی کو کیا سمجھوں
تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں
وفا نہیں نہ سہی رسم و راہ کیا کم ہے
تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں
اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست
مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں
بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائے
اُداس بھی تو نہیں بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں
کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں
فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دُور
وہاں پڑے ہیں جہاں خار زار بھی تو نہیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے دردمندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں اختیار بھی تو نہیں
وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر
یہ کاروبار کوئی کاروبار بھی تو نہیں
ناصر کاظمی

ہم جو ناچار خودکشی کرلیں

در و دیوار خودکشی کرلیں
ہم جو ناچار خودکشی کرلیں
پھر نہ کہنا مذاق تھا پیارے!
واقعی! یار! خودکشی کرلیں؟؟
کام کرنا ہی شرط ہے تو پھر
کیوں نہ اس بار خودکشی کرلیں!
جن چراغوں کو موت کا ڈر ہے
وہ سرِ دار خودکشی کرلیں
اس سے پہلے کہ سامعیں سوئیں
اہم کردار خودکشی کرلیں
جو ہیں ناداں وہ زندگی جھیلیں
اور سمجھدار خودکشی کرلیں
میں تو کہتا ہوں "جوش” کی مانیں
سب قلمکار خودکشی کرلیں
افتخار فلک

ہاں مِلے گر تو یوں وقار مِلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
شیر کی کھال مستعار مِلے
ہاں مِلے گر تو یوں وقار مِلے
تھے وہ درباریوں کے چھوڑے ہوئے
جو پرندے پئے شکار مِلے
ڑُخ بہ رُخ چاہے گردِ جَور سجے
تخت کو اور بھی نکھار ملے
جو بھی ہے دردمندِ خلق اُس کو
اور کیا جُز فرازِ دار مِلے
جو خلافِ فرعون اُٹّھی تھی
لب بہ لب کیوں وہی پُکار مِلے
کاسہ لیسوں میں اک سے اک تازہ
جو ملے وہ وفا شعار مِلے
وہ جو لائے بقائے حفظِ عوام
کون ماجِد کو ایسا یار مِلے
ماجد صدیقی

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہونٹوں پہ نہ لائیں یہ سخن ’’یار ہے کیسا‘‘
ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا
نیلام تو اُٹھ لے ابھی کھل جائے گا سب کچھ
ہم کون ہیں اور مصر کا بازار ہے کیسا
بھّٹی میں شراروں کی چمن سینچ رہا ہے
اس دور کا انسان بھی بیدار ہے کیسا
انصاف کی میزان کا بَل خود یہ بتائے
عشّاق کا احوال سرِ دار ہے کیسا
ایقان ہی جب اُن پہ تمہارا نہیں ماجدؔ
پھر کرب و الم کا تمہیں اقرار ہے کیسا
ماجد صدیقی

کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
ملا وُہ خطّۂ جاں دشتِ انتظار کے بعد
کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد
بہم وُہ لُطف ہُوا قربِ یار سے اَب کے
درونِ ملک سکوں، جیسے انتشار کے بعد
سروں نے کھنچ کے بدن سے کہا، بنامِ وطن
کوئی فراز نہیں ہے فرازِ دار کے بعد
نِکل کے کوچۂ جاناں سے ہم بھی دیکھ آئے
سبک سری جو ملے دورِ اقتدار کے بعد
پچھڑ کے موسمِ گُل سے یہی ہُوا ماجدؔ
کھِلا ہے غنچۂ دل ہر گئی بہار کے بعد
ماجد صدیقی

خلق سے وہ بے زار ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 107
جتنے بھی اوتار ملے
خلق سے وہ بے زار ملے
جن سے ملنا روگ ہُوا
اُن سے بھی ناچار ملے
سُکھ کے سپنے دیکھے تھے
پر کیا کیا آزار ملے
ناٹک میں چاہت کے بھی
نفرت کے آثار ملے
جھُوٹ بٹھائے مسند پر
سچ کہنے پر دار ملے
سوچیں ٹی وی سیٹ والے
کیونکر وی سی آر ملے
اچّھے ہیں وہ لوگ جنہیں
ماجدؔ جیسے یار ملے
ماجد صدیقی

سچ لٹکتا ہے ہمیشہ دار سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 138
بچ نہیں سکتا رِیا کے وار سے
سچ لٹکتا ہے ہمیشہ دار سے
دُور کرنے راہ چلتوں کی تھکن
جھانکتی ہے بیل اِک دیوار سے
ڈھل گیا آخر تناؤ شاخ کا
عجز کے سجدوں میں، برگ و بار سے
جس میں ہو تاب و تواں ایقان کی
وُہ بدن کٹتا نہیں تلوار سے
کس نے آنا تھا بھلا لینے ہمیں
سر اٹھاتے بھی تو کیا منجدھار سے
دل مرا چڑیا کے بچّے کی طرح
دم بخود ہے حرص کی یلغار سے
سر جُھکے ماجدؔ دعا کو کس قدر
پوچھ لو یہ بھی کسی اوتار سے
ماجد صدیقی

گرد آئے جہاں غبار آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 150
اُس چمن پر کہاں نکھار آئے
گرد آئے جہاں غبار آئے
ہم ہیں محصور اُس گلستاں میں
عمر گزری جہاں بہار آئے
کس کو اپنی غرض عزیز نہیں
کس کی باتوں پہ اعتبار آئے
ایسا بگڑا نظام اعضا کا
نت کُمک کو ہمیں بخار آئے
رن میں آئین تھا وفا کا یہی
جو بھی مشکل پڑی گزار آئے
ہم ہیں وہ لوگ جو کہ شانوں پر
سر کے ہمراہ لے کے دار آئے
چھِن گئے جن سے پیرہن ماجدؔ
ایسی شاخوں کو کیا قرار آئے
ماجد صدیقی

بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
بیاں حکایتِ بُخل بہار کیا کرتے
بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے
اُفق اُفق پہ کیا صَرف لُطفِ بینائی
ہم اِس سے بڑھ کے ترا انتطار کیا کرتے
نفس نفس تھا رسن، دار ایک اِک دھڑکن
زباں سے تذکرۂ طوق و دار کیا کرتے
ہمیں تو لطفِ نظر بھی تِرا بہم نہ ہُوا
فضائے دہر کو ہم سازگار کیا کرتے
اب اِس کے بعد تو تیشہ تھا اور تھا سر اپنا
کرشمہ اور کوئی بہرِ یار کیا کرتے
فراغ ہی نہ مِلا اہلِ مصلحت سے کبھی
جنوں کی راہ بھلا اختیار کیا کرتے
کھنچے تھے خاک نشیں تک بھی ہم سے جب ماجدؔ
ہمارے حق میں بھلا تاجدار کیا کرتے
ماجد صدیقی

بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
اُتر کے اَوج سے پل بھر جو خاکسار ہوئے
بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے
خطا کچھ اِس میں تمہاری بھی تھی کہ غیروں کے
تمام لوگ مقلّد سپند وار ہوئے
جو جھُک گئے تھے سکوں آشنا تو تھے لیکن
گراں بہا تھے وہی سر جو زیبِ دار ہوئے
دُعا کو جن کی اُٹھے ہاتھ شل ہوئے اپنے
ہمارے حق میں وُہی پل نہ سازگار ہوئے
کہاں کا لطف کہاں کی طراوتیں ماجدؔ
کہ اب تو لفظ بھی اپنے ہیں خارزار ہوئے
ماجد صدیقی

ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
تھا میّسر ہی نہ پیرایۂ اظہار ہمیں
ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں
کن بگولوں کے حصاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اَب کے پت جھڑ میں سلگتے ہوئے گلزار ہمیں
وقت بدلا ہے تو گوشوں میں چُھپے بیٹھے ہیں
وہ جو کرتے رہے رُسوا سرِ بازار ہمیں
کل تھا کس رنگ میں اور آج سرِ بزمِ وفا
کیا نظر آیا ہے وہ حُسنِ طرح دار ہمیں
کب سے دیتا ہے صدا کوئی پری وش ماجدؔ
عنبر و عود لٹاتے ہوئے اُس پار ہمیں
ماجد صدیقی

کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 139
تو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے
فراز راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
احمد فراز

کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 103
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
رشتہ کوئی تو اس سے تعلق کا چاہیے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل
ہم زندگی سے بر سرِ پیکار ہی سہی
اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فراز
دنیا ہمارے در پۓ آزار ہی سہی
احمد فراز

کسے کسے ہے یہ آزار چل کے دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 77
چلو کہ کوچۂ دلدار چل کے دیکھتے ہیں
کسے کسے ہے یہ آزار چل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایسا مسیحا کہیں سے آیا ہے
کہ اس کو شہر کے بیمار چل کے دیکھتے ہیں
ہم اپنے بت کو، زلیخا لیے ہے یوسف کو
ہے کون رونق بازار چل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دیر و حرم میں تو وہ نہیں‌ملتا
سو اب کے اس کو سرِ دار چل کے دیکھتے ہیں
اس ایک شخص کو دیکھو تو آنکھ بھرتی نہیں
اس ایک شخص کو ہر بار چل کے دیکھتے ہیں
وہ میرے گھر کا کرے قصد جب تو سائے سے
کئی قدم در و دیوار چل کے دیکھتے ہیں
فراز اسیر ہے اس کا کہ وہ فراز کا ہے
ہے کون کس کا گرفتار؟ چل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز

کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 69
انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں
آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چپ ہیں
اب کوئی اشارہ ہے نہ پیغام نہ آہٹ
بام و در و دیوار بڑی دیر سے چپ ہیں
ساقی یہ خموشی بھی تو کچھ غور طلب ہے
ساقی ترے میخوار بڑی دیر سے چپ ہیں
یہ برق نشیمن پہ گری تھی کہ قفس پر
مرغان گرفتار بڑی دیر سے چپ ہیں
اس شہر میں ہر جنس بنی یوسف کنعاں
بازار کے بازار بڑی دیر سے چپ ہیں
پھر نعرۂ مستانہ فراز آؤ لگائیں
اہل رسن و دار بڑی دیر سے چپ ہیں
احمد فراز

کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو

احمد فراز ۔ غزل نمبر 53
نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب، کسے آرزوئے شب طرب
مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو
یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو
یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو
سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
احمد فراز

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 90
میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 19
وہ چراغِ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا
میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا
مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا
مری لَو کو جس میں اماں ملی میں اُسی بہار میں بجھ گیا
وہ جو لمس میری طلب رہا وہ جھلس گیا مری کھوج میں
سو میں اُس کی تاب نہ لا سکا کفِ داغ دار میں بجھ گیا
جنہیں روشنی کا لحاظ تھا جنہیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں اُنہی کی صف میں جلا کِیا میں اُسی قطار میں بجھ گیا
عرفان ستار

بچھڑ گیا تری صُورت، بہار کا موسم

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 41
خیال و خواب ہُوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صُورت، بہار کا موسم
کئی رُتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لَوٹ آئے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سروقامت کا
مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے
مرے بدن کو مِلا ہے چنار کا موسم
رفاقتوں کے نئے خواب خُوشنما ہیں مگر
گُزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
ہَوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں
زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم
وہ میرا نام لیے جائے اور میں اُس کا نام
لہو میں گُونج رہا ہے پکار کا موسم
قدم رکھے مری خُوشبو کہ گھر کو لَوٹ آئے
کوئی بتائے مُجھے کوئے یار کا موسم
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے
مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم
ترے طریقِ محبت پہ با رہا سوچا
یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم
پروین شاکر

داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 94
سامنے تصویر رکھ کر اس ستم ایجاد کی
داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی
کیا کروں چونکے نہ وہ قسمت دلِ نا شاد کی
جس قدر فریاد مجھ سے ہو سی فریاد کی
اس قدر رویا کہ ہچکی بندھ گئے صیاد کی
لاش جب نکلی قفس سے بلبلِ نا شاد کی
دفن سے پہلے اعزا ان سے جا کر پوچھ لیں
اور تو حسرت کوئی باقی نہیں بے دار کی
کاٹتا ہے پر کے نالوں پر بڑھا دیتا ہے قید
اے اسیرانِ قفس عادت ہے کیا صیاد کی
شام کا ہے وقت قبروں کو نہ ٹھکرا کر چلو
جانے کس عالم میں ہے میت کسی ناشاد کی
دور بیٹھا ہوں ثبوتِ خون چھپائے حشر میں
پاس اتنا ہے کہ رسوائی نہ ہو جلاد کی
کیا مجھی کم بخت کی تربت تھی ٹھوکر کے لئے
تم نے جب دیکھا مجھے مٹی مری برباد کی
کھیل اس کمسنے کا دیکھو نام لے لے کر مرا
ہاتھ سے تربت بنائی پاؤں سے برباد کی
کہہ رہے ہو اب قمر سابا وفا ملتا نہیں
خاک میں مجھ کو ملا بیٹھے تو میری یاد کی
قمر جلالوی

شمع روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 35
تم چلے آئے تو رونق پر مزار آ ہی گیا
شمع روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا
ہم نہ کہتے تھے ہنسی میں غیر سے وعدہ نہ کر
دیکھنے والوں کو آخر اعتبار آ ہی گیا
کہتے تھے اہلِ قفس گلشن کا اب لیں گے نہ نام
باتوں باتوں میں مگر ذکرِ بہار آ ہی گیا
کتنا سمجھایا تھا تجھ کو دیکھ بڑھ جائے گی بات
فیصلہ آخر کو پیشِ کردگار آ ہی گیا
گو بظاہر میرے افسانے پہ وہ ہنستے رہے
آنکھ میں آنسو مگر بے اختیار آ ہی گیا
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر مرنے کے بعد
جب مری تصویر دیکھی ان کو پیار آ ہی گیا
اے قمر قسمت چمک اٹھی اندھیری رات میں
چاندنی چھپتے ہی کوئی پردہ دار آ ہی گیا
قمر جلالوی

مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 11
سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا
تھا کیا ہجوم بہرِ زیارت ہزار کا
گل ہو گیا چراغ ہمارے مزار کا
جور و جفا بھی غیر پر اے یارِ دل شکن
کچھ بھی خیال ہے دلِ امیدوار کا
کھلنے لگے ہیں از سرِ نو غنچہائے زخم
یہ فیض ہے صبا کے دمِ مشک بار کا
گر چاہتے ہو جامہ نہ ہو چاک ناصحو
منگوا دو پیرہن مجھے اس گل عذار کا
ہر کوچہ میں کھلی ہے جو دکانِ مے فروش
کیا فصل ہے شراب کی، موسم بہار کا؟
گھبرا کے اور غیر کے پہلو سے لگ گئے
دیکھا اثر یہ نالۂ بے اختیار کا
وہ آتے آتے غیر کے کہنے سے تھم گئے
اب کیا کروں علاج دلِ بے قرار کا
آزاد ہے عذابِ دو عالم سے شیفتہ
جو ہے اسیر سلسلۂ تاب دار کا!
مصطفٰی خان شیفتہ

یاد تھے یادگار تھے ہم تو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 64
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دُھول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو
کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو
خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو
سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو
خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو
تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
جون ایلیا

ہیں بند سارے شہر کے، بازار کچھ سُنا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 12
سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سُنا
ہیں بند سارے شہر کے، بازار کچھ سُنا
شہر قلندراں کا، ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سُنا
مصرُوف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂِ دیوار کچھ سُنا
آثار اب یہ ہیں کہ گریبانِ شاہ سے
اُلجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سُنا
اہلِ سِتم سے معرکہ آراء ہے اِک ہجوم
جس کو نہیں مِلا کوئی سردار کچھ سُنا
خُونِیں دِلانِ مرحلۂِ اِمتحاں نے آج
کیا تمکنت دِکھائی سرِ دار کچھ سُنا
کیا لوگ تھے کہ رنگ بِچھاتے چلے گئے
رفتار تھی کہ، خُون کی رفتار کچھ سُنا
جون ایلیا

نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 259
جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے
کس کا سرا غِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آیئنہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے
ہے ذرہ ذرہ تنگئِ جا سے غبارِ شوق
گردام یہ ہے و سعتِ صحرا شکار ہے
دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ
نظارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے
چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگِ گل پر آب
اے عندلیب وقتِ ود اعِ بہار ہے
پچ آپڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے
بے پردہ سوئے وادئِ مجنوں گزر نہ کر
ہر ذرّے کے نقاب میں دل بے قرار ہے
اے عندلیب یک کفِ خس بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے
دل مت گنوا، خبر نہ سہی سیر ہی سہی
اے بے دماغ آئینہ تمثال دار ہے
غفلت کفیلِ عمر و اسدؔ ضامنِ نشاط
اے مر گِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 99
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا
موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت

دیوان ششم غزل 1818
باہر چلنے میں آبادی سے کر نہ تغافل یار بہت
دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت
دعویٰ عاشق بیچارے کا کون سنے گا محشر میں
خیل ملائک واں بھی ہوں گے اس کے خاطر دار بہت
خشکی لب کی زردی رخ کی نمنا کی دو آنکھوں کی
جو دیکھے ہے کہے ہے ان نے کھینچا ہے آزار بہت
جسم کی حالت جی کی طاقت نبض سے کر معلوم طبیب
کہنے لگا جانبر کیا ہو گا یہ تو ہے بیمار بہت
چار طرف ابرو کے اشارے اس ظالم کے زمانے میں
ٹھہرے کیا عاشق بیکس یاں چلتی ہے تلوار بہت
پیش گئی نہ کچھ چاہت میں کافر و مسلم دونوں کی
سینکڑوں سبحے پھینکے گئے اور ٹوٹے ہیں زنار بہت
جی کے لگاؤ کہے سے ہم نے جی ہی جاتے دیکھے ہیں
اس پہ نہ جانا آہ برا ہے الفت کا آزار بہت
کس کو دماغ سیر چمن ہے کیا ہجراں میں واشد ہو
کم گلزار میں اس بن جاکر آتا ہوں بیزار بہت
میر دعا کر حق میں میرے تو بھی فقیر ہے مدت سے
اب جو کبھو دیکھوں اس کو تو مجھ کو نہ آوے پیار بہت
میر تقی میر

بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب

دیوان ششم غزل 1814
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب
بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب
لگ نہیں پڑتے ہیں لے کر ہاتھ میں شمشیر تیز
بے کسوں کے قتل میں اتنا نہیں اصرار خوب
آخر ان خوباں نے عاشق جان کر مارا مجھے
چاہ کا اپنی نہ کرنا ان سے تھا اظہار خوب
آج کل سے مجھ کو بیتابی و بدحالی ہے کیا
مجھ مریض عشق کے کب سے نہ تھے آثار خوب
کیا کریمی اس کی کہیے جنت دربستہ دی
ورنہ مفلس غم زدوں کے کچھ نہ تھے کردار خوب
مخترع جور و ستم میں بھی ہوا وہ نوجواں
ظلم تب کرتا ہے جب ہو کوئی منت دار خوب
دہر میں پستی بلندی برسوں تک دیکھی ہے میں
جب لٹا پامالی سے میں تب ہوا ہموار خوب
کیا کسو سے آشنائی کی رکھے کوئی امید
کم پہنچتا ہے بہم دنیا میں یارو یار خوب
کہتے تھے افعی کے سے اے میر مت کھا پیچ و تاب
آخر اس کوچے میں جا کھائی نہ تو نے مار خوب
میر تقی میر

ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت

دیوان پنجم غزل 1587
اچٹتی سی لگی اپنے تو وہ تلوار یا قسمت
ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت
ہوئے جب سو جواں یک جا توقع سی ہوئی ہم کو
نگہ تیز ان نے سو ایدھر نہ کی دو بار یا قسمت
پڑا سایہ نہ اس کی تیغ خوں آلودہ کا سر پر
کیے ہیں یوں تو قسمت ان نے کیا کیا وار یا قسمت
رہا تھا زیر دیوار اس کی میں برسات میں جاکر
گری اس مینھ میں سر پر وہی دیوار یا قسمت
موئے ہم تشنہ لب دیدار کے حالانکہ گریاں تھے
نصیب اپنے کہ سوکھی چشم دریابار یا قسمت
در مسجد پہ ہوکر بے نوا بیٹھے ہیں یا ہادی
ہمیں تھے ورنہ میخانے میں تکیہ دار یا قسمت
نصیبوں میں ہے جن کے عیش وہ بھی میر جیتے ہیں
جیے ہیں ہم بھی جو مرنے کو تھے تیار یا قسمت
میر تقی میر

عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت

دیوان پنجم غزل 1584
زرد ہیں چہرے سوکھ گئے ہیں یعنی ہیں بیمار بہت
عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت
نالہ و زاری سے عاشق کی کیا ابر بہاری طرف ہو گا
دل ہے نالاں حد سے زیادہ آنکھیں ہیں خونبار بہت
برسوں ہوئے اب ہم لوگوں سے آنکھ انھوں کی نہیں ملتی
برسوں تک آپس میں رہا ہے اپنے جنھوں کے پیار بہت
ارض و سما کی پستی بلندی اب تو ہم کو برابر ہے
یعنی نشیب و فراز جو دیکھے طبع ہوئی ہموار بہت
سو غیروں میں ہو عاشق تو ایک اسی سے شرماویں
اس مستی میں آنکھیں اس کی رہتی ہیں ہشیار بہت
کم ہے ہمیں امید بہی سے اتنی نزاری پر اس کی
پچھلے دنوں دیکھا تھا ہم نے عاشق تھے بیمار بہت
میر نہ ایسا ہووے کہیں پردے ہی پر وہ مار مرے
ڈر لگتا ہے اس سے ہم کو ہے وہ ظاہر دار بہت
میر تقی میر

زرد و زار و زبوں جو ہم ہیں چاہت کے بیمار ہیں سب

دیوان پنجم غزل 1578
سادے جتنے نظر آتے ہیں دیکھو تو عیار ہیں سب
زرد و زار و زبوں جو ہم ہیں چاہت کے بیمار ہیں سب
سیل سے ہلکے عاشق ہوں تو جوش و خروش بھریں آویں
تہ پائی نہیں جاتی ان کی دریا سے تہ دار ہیں سب
ایک پریشاں طرفہ جماعت دیکھی چاہنے والوں کی
جینے کے خواہان نہیں ہیں مرنے کو تیار ہیں سب
کیا کیا خواہش بے کس بے بس مشتاق اس سے رکھتے ہیں
لیکن دیکھ کے رہ جاتے ہیں چپکے سے ناچار ہیں سب
عشق جنھوں کا پیشہ ہووے سینکڑوں ہوں تو ایک ہی ہیں
کوہکن و مجنوں و وامق میر ہمارے یار ہیں سب
میر تقی میر

یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو

دیوان چہارم غزل 1471
تو وہ نہیں کسو کا تہ دل سے یار ہو
یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو
کیا فکر میں ہو اپنی طرحداری ہی کی تم
ہم دردمند لوگوں کے بیمار دار ہو
مصروف احتیاط رہا کرتے رات دن
دینے میں دل کے اپنا جو کچھ اختیار ہو
دل میں کدر سے آندھی سی اٹھنے لگی ہے اب
نکلے گلے کی راہ تو رفع غبار ہو
کھا زہر مر رہیں کہیں کیا زندگی ہے یہ
زلفیں تنک چھوئیں تو ہمیں مار مار ہو
اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد
کھائو کسو کی تیغ کسو کے شکار ہو
منھ سے لگی گلابی ہوا کچھ شگفتہ تو
تھوڑی شراب اور بھی پی جو بہار ہو
بہتی ہے تیز جدول تیغ جفاے یار
یعنی کہ اک ہی وار لگے کام پار ہو
چھڑیوں سے کر قرار مدار اس کو لایئے
جو میر پھر لڑا نہ کریں بے قرار ہو
میر تقی میر

جو صحن خانہ میں تو ہو در و دیوار عاشق ہو

دیوان چہارم غزل 1470
عجب گر تیری صورت کا نہ کوئی یار عاشق ہو
جو صحن خانہ میں تو ہو در و دیوار عاشق ہو
تجھے اک بار اگر دیکھے کوئی بے جا ہو دل اس کا
خرام ناز پر تیرے لٹا گھر بار عاشق ہو
تری چھاتی سے لگنا ہار کا اچھا نہیں لگتا
مباد اس وجہ سے گل رو گلے کا ہار عاشق ہو
ہوا ہے مخترع بے رحم خوں ریزی بھی کرنے میں
نہ مارے جان سے جب تک نہ منت دار عاشق ہو
سزا ہے عشق میں زرد و زبون و زار ہی ہونا
نہ عاشق کہیے ان رنگوں نہ جو بیمار عاشق ہو
پڑے سایہ کسو کا تیرے بستر پر تو تو چونکے
وہی لے کام تجھ سے جو کوئی پرکار عاشق ہو
نہیں بازار گرمی ایک دو خواہندہ پر اس کی
اگر وہ رشک یوسف آوے تو بازار عاشق ہو
غریبوں کی تو پگڑی جامے تک لے ہے اتروا تو
تجھے اے سیم بر لے بر میں جو زردار عاشق ہو
لگو ہو زار باراں رونے چلتے بات چاہت کی
کہیں ان روزوں تم بھی میر صاحب زار عاشق ہو
میر تقی میر

حال پرسی بھی نہ کی آن کے بیمار کے پاس

دیوان چہارم غزل 1400
مدت ہجر میں کیا کریے بیاں یار کے پاس
حال پرسی بھی نہ کی آن کے بیمار کے پاس
حق یہ ہے خواہش دل ہے مری تو آجاتا
جب کہ خوں ریزی کو بٹھلائیں مجھے دار کے پاس
در اسیری کا کھلا منھ پہ ہمارے کیا تنگ
مر ہی رہیے گا قفس کے در و دیوار کے پاس
آنا اس کا تو دم قتل ضروری ہے ولے
کون آتا ہے کسو خوں کے سزاوار کے پاس
پایئے یار اکیلا تو غم دل کہیے
سو تو بیٹھا ہی اسے پاتے ہیں دوچار کے پاس
منھ پہ ناخن کے خراشوں سے لگا دل بہنے
چشمے نکلے ہیں نئے چشم جگر بار کے پاس
میں تو تلوار تلے اس کے لیے بیٹھا میر
وہ کھڑا بھی نہ ہوا آ کے گنہگار کے پاس
میر تقی میر

اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم

دیوان سوم غزل 1172
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم
اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم
مارا تڑپتے چھوڑا فتراک سے نہ باندھا
بے چشم و رو کسو کے شاید شکار ہیں ہم
ہر دم جبیں خراشی ہر آن سینہ کاوی
حیران عشق تو ہیں پر گرم کار ہیں ہم
حور و قصور و غلماں نہر و نعیم وجنت
یہ کلہم جہنم مشتاق یار ہیں ہم
بے حد و حصر گردش اپنی ہے عاشقی میں
رسواے شہر و دیہ، و دشت و دیار ہیں ہم
اب سیل سیل آنسو آتے ہیں چشم تر سے
دیوار و در سے کہہ دو بے اختیار ہیں ہم
روتے ہیں یوں کہ جیسے شدت سے ابر برسے
کیا جانیے کہ کیسے دل کے بخار ہیں ہم
اب تو گلے بندھا ہے زنجیر و طوق ہونا
عشق و جنوں کے اپنے ناموس دار ہیں ہم
لیتا ہے میر عبرت جو کوئی دیکھتا ہے
کیا یار کی گلی میں بے اعتبار ہیں ہم
میر تقی میر

چشم پرخوں فگار کے سے رنگ

دیوان سوم غزل 1162
چاک دل ہے انار کے سے رنگ
چشم پرخوں فگار کے سے رنگ
کام میں ہے ہواے گل کی موج
تیغ خوں ریز یار کے سے رنگ
تاب ہی میں رہے ہے اس کی زلف
افعی پیچ دار کے سے رنگ
کیا جو افسردگی کے ساتھ کھلا
دل گل بے بہار کے سے رنگ
برق ابر بہار نے بھی لیے
اب دل بے قرار کے سے رنگ
کنج نخچیرگہ میں ہیں مامون
ہم بھی لاغر شکار کے سے رنگ
عمر کا بھی سرنگ جاتا ہے
ابلق روزگار کے سے رنگ
برگ گل میں نہ دل کشی ہو گی
کف پاے نگار کے سے رنگ
اس بیاباں میں میر محو ہوئے
ناتواں اک غبار کے سے رنگ
میر تقی میر

تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس

دیوان دوم غزل 822
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس
دردمندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس
چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھاکر اتندی
بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس
خندہ و چشمک و حرف و سخن زیرلبی
کہیے جو ایک دو افسون ہوں دلدار کے پاس
داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے
یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس
در گلزار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں
یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس
کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم
ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس
دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس
مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آکر
خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس
جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں
یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس
ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد
ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس
نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی
اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس
اختلاط ایک تمھیں میر ہی غم کش سے نہیں
جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دوچار کے پاس
میر تقی میر

کوچہ کوئی کوئی ہے چمن زار سا ہنوز

دیوان دوم غزل 819
ہے میرے لوہو رونے کا آثار سا ہنوز
کوچہ کوئی کوئی ہے چمن زار سا ہنوز
کب تک کھنچے گی صبح قیامت کی شام کو
عرصے میں میں کھڑا ہوں گنہگار سا ہنوز
مدت ہوئی کہ خون جگر میں نہیں ولے
جاتا ہے آنسوئوں کا چلا تار سا ہنوز
سایہ سا آگیا تھا نظر اس کا ایک دن
مبہوت میں پھروں ہوں پری دار سا ہنوز
برسوں سے گل چمن میں نکلتے ہیں رنگ رنگ
نکلا نہیں ہے ایک رخ یار سا ہنوز
دیکھا تھا خانہ باغ میں پھرتے اسے کہیں
گل حیرتی ہے صورت دیوار سا ہنوز
مدت سے ترک عشق کیا میر نے ولے
زار و زبون و زرد ہے بیمار سا ہنوز
میر تقی میر

ہوا ابر رحمت گنہگار سا

دیوان دوم غزل 737
بندھا رات آنسو کا کچھ تار سا
ہوا ابر رحمت گنہگار سا
کوئی سادہ ہی اس کو سادہ کہے
لگے ہے ہمیں تو وہ عیار سا
محبت ہے یا کوئی جی کا ہے روگ
سدا میں تو رہتا ہوں بیمار سا
گل و سرو اچھے سبھی ہیں ولے
نہ نکلا چمن میں کوئی یار سا
جو ایسا ہی تم ہم کو سمجھو ہو سہل
ہمیں بھی یہ جینا ہے دشوار سا
فلک نے بہت کھینچے آزار لیک
نہ پہنچا بہم اس دل آزار سا
مگر آنکھ تیری بھی چپکی کہیں
ٹپکتا ہے چتون سے کچھ پیار سا
چمن ہووے جو انجمن تجھ سے واں
لگے آنکھ میں سب کی گل خار سا
کھڑے منتظر ضعف جو آگیا
گرا اس کے در پر میں دیوار سا
دکھائوں متاع وفا کب اسے
لگا واں تو رہتا ہے بازار سا
عجب کیا جو اس زلف کا سایہ دار
پھرے راتوں کو بھی پری دار سا
نہیں میر مستانہ صحبت کا باب
مصاحب کرو کوئی ہشیار سا
میر تقی میر

بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی

دیوان اول غزل 465
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی
آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں
تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی
منع گریہ نہ کر تو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی
درپئے جان ہے قراول مرگ
کسو کے تو شکار ہیں ہم بھی
نالے کریو سمجھ کے اے بلبل
باغ میں یک کنار ہیں ہم بھی
مدعی کو شراب ہم کو زہر
عاقبت دوست دار ہیں ہم بھی
مضطرب گریہ ناک ہے یہ گل
برق ابر بہار ہیں ہم بھی
گر زخود رفتہ ہیں ترے نزدیک
اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی
میر نام اک جواں سنا ہو گا
اسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی
میر تقی میر

اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں

دیوان اول غزل 348
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں
سینہ سپر کیا تھا جن کے لیے بلا کا
وے بات بات میں اب تلوار کھینچتے ہیں
مجلس میں تیری ہم کو کب غیر خوش لگے ہے
ہم بیچ اپنے اس کے دیوار کھینچتے ہیں
بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا
تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں
منصور کی حقیقت تم نے سنی ہی ہو گی
حق جو کہے ہے اس کو یاں دار کھینچتے ہیں
شکوہ کروں تو کس سے کیا شیخ کیا برہمن
ناز اس بلاے جاں کے سب یار کھینچتے ہیں
ناوک سے میر اس کے دل بستگی تھی مجھ کو
پیکاں جگر سے میرے دشوار کھینچتے ہیں
میر تقی میر

کہ موئے قید میں دیوار بہ دیوار چمن

دیوان اول غزل 340
ایسے محروم گئے ہم تو گرفتار چمن
کہ موئے قید میں دیوار بہ دیوار چمن
سینے پر داغ کا احوال میں پوچھوں ہوں نسیم
یہ بھی تختہ کبھو ہووے گا سزاوار چمن
باغباں باغ اجارے ہی اگر دینا تھا
تھے زر داغ سے ہم بھی تو خریدار چمن
وے گنہگار ہمیں ہیں کہ جنھیں کہتے ہیں
عاشق زار چمن مرغ گرفتار چمن
خون ٹپکے ہے پڑا نوک سے ہر یک کی ہنوز
کس ستم دیدہ کی مژگاں ہیں تہ خار چمن
باغباں ہم سے خشونت سے نہ پیش آیا کر
عاقبت نالہ کشاں بھی تو ہیں درکار چمن
کم نہیں ہے دل پر داغ بھی اے مرغ اسیر
گل میں کیا ہے جو ہوا ہے تو طلبگار چمن
گل پر ایسی تو پڑی اوس خزاں میں کہ نسیم
سرد ہی ہو گئی واں گرمی بازار چمن
کیا جزا ٹھہرتی ہے دیکھیے کل حشر کو میر
داغ ہر ایک مرے دل پہ ہے خوں دار چمن
میر تقی میر

سرو و قمری شکار ہوتے ہیں

دیوان اول غزل 315
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
سرو و قمری شکار ہوتے ہیں
تیرے بالوں کے وصف میں میرے
شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں
آئو یاد بتاں پہ بھول نہ جائو
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں
دیکھ لیویں گے غیر کو تجھ پاس
صحبتوں میں بھی یار ہوتے ہیں
صدقے ہولیویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں
تو کرے ہے قرار ملنے کا
ہم ابھی بے قرار ہوتے ہیں
ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں
رفتہ رفتہ یہ طفل خوش ظاہر
فتنۂ روزگار ہوتے ہیں
اس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میرجی یوں ہی خوار ہوتے ہیں
میر تقی میر

سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک

دیوان اول غزل 255
ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک
سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک
رنگینی عشق اس کے ملے پر ہوئی معلوم
صحبت نہ ہوئی تھی کسی خونخوار سے اب تک
کب سے متحمل ہے جفائوں کا دل زار
زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک
ابرو ہی کی جنبش نے یہ ستھرائو کیے ہیں
مارا نہیں ان نے کوئی تلوار سے اب تک
وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ
پر دل نہیں خالی غم دیدار سے اب تک
مدت ہوئی گھٹ گھٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک
برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک
اک دود سا اٹھتا ہے چمن زار سے اب تک
کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے
پوچھا نہیں ان نے تو ہمیں پیار سے اب تک
اس باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو
یوں نالہ کسو مرغ گرفتار سے اب تک
خط آئے پہ بھی دن ہے سیہ تم سے ہمارا
جاتا نہیں اندھیر یہ سرکار سے اب تک
نکلا تھا کہیں وہ گل نازک شب مہ میں
سو کوفت نہیں جاتی ہے رخسار سے اب تک
دیکھا تھا کہیں سایہ ترے قد کا چمن میں
ہیں میر جی آوارہ پری دار سے اب تک
میر تقی میر

اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا

دیوان اول غزل 83
نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا
رسم قلمرو عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا
تھا بدشراب ساقی کتنا کہ رات مے سے
میں نے جو ہاتھ کھینچا ان نے کٹار کھینچا
مستی میں شکل ساری نقاش سے کھنچی پر
آنکھوں کو دیکھ اس کی آخر خمار کھینچا
جی کھنچ رہے ہیں اودھر عالم کا ہو گا بلوہ
گر شانے تونے اس کی زلفوں کا تار کھینچا
تھا شب کسے کسائے تیغ کشیدہ کف میں
پر میں نے بھی بغل میں بے اختیار کھینچا
پھرتا ہے میر تو جو پھاڑے ہوئے گریباں
کس کس ستم زدے نے دامان یار کھینچا
میر تقی میر

بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا

دیوان اول غزل 77
محبت کا جب روز بازار ہو گا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا
تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن
کبھی یہ قیامت طرحدار ہو گا
صبا موے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے
کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہو گا
مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ
کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہو گا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہو گا
یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہو گا
عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل
ملے گا تو صورت سے بیزار ہو گا
نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں
ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہو گا
کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرحدار ہو گا
زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہو گا
نہ مرکر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا
ترے دام میں جو گرفتار ہو گا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میر بھی یاں
جو ہو گا تو جیسے گنہگار ہو گا
میر تقی میر

اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

دیوان اول غزل 64
موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا
جنوں میں اب کے مجھے اپنے دل کا غم ہے پہ حیف
خبر لی جب کہ نہ جامے میں ایک تار رہا
بشر ہے وہ پہ کھلا جب سے اس کا دام زلف
سر رہ اس کے فرشتے ہی کا شکار رہا
کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
تمام عمر ہمیں اس کا انتظار رہا
شراب عیش میسر ہوئی جسے اک شب
پھر اس کو روز قیامت تلک خمار رہا
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا
وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا
وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا
تمام عمر گئی اس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں
وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا
ستم میں غم میں سر انجام اس کا کیا کہیے
ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا
بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہ نکلا
رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا
سو اس کو ہم سے فراموش کاریوں لے گئے
کہ اس سے قطرئہ خوں بھی نہ یادگار رہا
گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر
میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا
میر تقی میر

آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 23
بس کہ فطرت نے بنایا ہمیں آزاد پسند
آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
جیت کر جانئے کیوں ، میں بھی ذرا خوش نہ ہوا
اور دنیا نے بھی میرے لئے کی ہار پسند
ڈال دے وہ بھی جو آنکھوں میں چھپا رکھی ہو
ایسی کنجوسیاں کرتے نہیں مے خوار پسند
ساتھ ہی لے گیا پرسش کی تمنا شاید
ہائے وہ سب سے جدا شاعرِ دشوار پسند
اُن کے آلاتِ صدا جو بھی کہیں خوب کہیں
وُہ بڑے لوگ ہیں کرتے نہیں انکار پسند
موت آسان تھی جینے سے مگر کیا کیجئے
آ گئی در کے بجائے مجھے دیوار پسند
آفتاب اقبال شمیم

رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 21
پھول مسلے گئے فرشِ گلزار پر
رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر
بزم برپا کرے جس کو منظور ہو
دعوتِ رقص، تلوار کی دھار پر
دعوتِ بیعتِ شہ پہ ملزم بنا
کوئی اقرار پر، کوئی انکار پر
ناتمام
فیض احمد فیض

جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 26
آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم، رُو بُرو پھر سرِ رہگزار آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا ، عمرِ رفتہ ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا ، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کِھلا ، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا
خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے ، دل سُلگنے لگے ، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آگئی ، پھر شبِ آرزُو پر نکھار آگیا
سر فروشی کے انداز بدلے گئے ، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا ، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
فیض کیا جانیے یار کس آس پر ، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں ، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا
فیض احمد فیض

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 15
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ھے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ‌ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام، فیض، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
منٹگمری جیل
فیض احمد فیض

بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 11
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
ہاں جرمِ وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطا کار سرِ دار کھڑے ہیں
فیض احمد فیض

خیموں میں بہت دیر سے بیدار ہیں ہم بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 229
ہو صبح کہ سر دینے پہ تیار ہیں ہم بھی
خیموں میں بہت دیر سے بیدار ہیں ہم بھی
نسبت ہے اُسی قافلۂ اہل وفا سے
واماندہ سر کوچہ و بازار ہیں ہم بھی
کب لوٹیں گے وہ وادئ غربت کے مسافر
اک عمر سے روشن سر دیوار ہیں ہم بھی
ہم کو بھی مصاف لب دریا کی اجازت
کچھ تشنہ دہاں بچوں کے غم خوار ہیں ہم بھی
ہم کو بھی ملے معرکۂ صبر میں نصرت
کچھ ناقہ نشینوں کے نگہ دار ہیں ہم بھی
کوثر پہ بھی لے چل ہمیں اے قافلہ سالار
آخر تو غبار پس رہوار ہیں ہم بھی
روشن ہمیں رکھتا ہے یہی درد جہاں تاب
ان کشتہ چراغوں کے عزاوار ہیں ہم بھی
اے مالک کل، سید سجاد کا صدقہ
یہ بند گراں کھول کہ بیمار ہیں ہم بھی
عرفان صدیقی

اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 624
مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے
اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے
جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں
کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے
ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل
ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے
میرا بدن برف ہے یا تیرِ نظر میں
پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے
عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے
دامنِ تقدیر میں بہار نہیں ہے
سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر
جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے
ایک دعا بس ہے میرے پاس عشاء کی
رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے
صرف گھٹا ہے جو دل میں روئے برس کے
اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے
سرخ ہے بے شک نمود چہرئہ تاریخ
دامنِ تہذیب داغ دار نہیں ہے
سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن
آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے
پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا
دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے
وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی
اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے
مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن
رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے
گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر
کوئی بھی دروازئہ دیار نہیں ہے
ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر
شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے
پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے”
درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر
آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے
بنام غالب
منصور آفاق

رہا نہیں میں ، تجھے اختیار کرتے ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 508
یہ اپنا آپ مسلسل نثار کرتے ہوئے
رہا نہیں میں ، تجھے اختیار کرتے ہوئے
ازل نژاد نظر اور اب کہاں جائے
ابد گزار دیا انتظار کرتے ہوئے
وہ جانتا ہے مقابل ہے آئینہ اس کے
ہزار بار وہ سوچے گا وار کرتے ہوئے
چراغ بھول گئی بام پر وہ آنکھوں کے
شبِ فراق! تجھے بے کنار کرتے ہوئے
گزر گیا مرے کوچے سے وہ مثالِ صبح
اک ایک آئینہ تمثال دار کرتے ہوئے
میں کانپ جاتا ہوں اس پر یقین اتنا تھا
کسی بھی شخص پہ اب اعتبار کرتے ہوئے
لبِ فرات پہ ہار آئی آلِ ابراہیم
فلک ولک پہ زمیں انحصار کرتے ہوئے
ہر ایک بار ترے بارے سوچتا ہوں میں
تعلقات کہیں استوار کرتے ہوئے
بیاض اپنی اسے دے دی میں نے تحفے میں
یہی کلام کیا اختصار کرتے ہوئے
یہ شہرِ دل کا لٹیرا بھی لٹ گیا منصور
شکار ہو گیا آخر شکار کرتے ہوئے
منصور آفاق

یعنی اُس یارِ طرح دار کے کھل جانے کی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 466
ہے توقع درِ انکار کے کھل جانے کی
یعنی اُس یارِ طرح دار کے کھل جانے کی
چلنا ہے بادِ محبت کی بلاخیزی میں
ہم کو پروانہیں دستار کے کھل جانے کی
ہم معاشرتی شبِ جبر میں کیا لکھیں گے
بات ہے دستِ گرفتار کے کھل جانے کی
شعلہ ء گل کا ابھی رقص دکھاتی ہوں تجھے
اک ذرادیر ہے بازار کے کھل جانے کی
لوگ منصور پلٹ جاتے ہیں دروازوں سے
ہم کو امید ہے دیوار کے کھل جانے کی
منصور آفاق

ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 431
بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی
ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی
مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں
مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی
فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے
وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی
پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے
کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی
مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے
میں سوگوار … تو ہے سوگوار تنہائی
کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے
شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی
مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے
یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی
نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا
دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی
ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں
ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی
یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے
ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر بھی مجھے انتظار، تنہائی
جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی
تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی
مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے
بڑی جمیل، افق کے بھی پار تنہائی
کسی سوار کی آمد کا خوف ہے، کیا ہے
بڑی سکوت بھری، کوئے دار، تنہائی
دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا
یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی
بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے
کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی
اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا
تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی
منصور آفاق

آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 221
ٹوٹے پھوٹے،بدنما،فالج زدہ ،بیمار دن
آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن
ہم ملیں گے شانزے لیزے پہ رومی بارمیں
طے ہوئی بارہ دسمبر۔۔ ٹھیک ہے اتوار دن
یاد ہے وہ یارکے پہلو میں رنگوں کی بہار
جینا کہتے ہیں جسے ویسے جئے تھے چار دن
مصر کے اہرام سے پیرو کی تصویروں تلک
ہرجگہ کتنے گئی صدیوں کے پُراسرار دن
میری وحشت ہی جہاں تھی فیصلہ کن پھر وہاں
کیا اثر انداز ہوتے غیر جانب دار دن
آخرش منصور کیا تھااُس گذشتہ رات میں
گم ہوئی جذبوں بھری رُت، کھوگئے دلدار دن
منصور آفاق

ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 207
شبِ وصال پہ لعنت شبِ قرار پہ تف
ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف
وہ پاؤں سو گئے جو بے ارادہ اٹھتے تھے
طواف کوچہء جاناں پہ، کوئے یار پہ تف
تجھ ایسے پھول کی خواہش پہ بار ہا لعنت
بجائے خون کے رکھتا ہوں نوکِ خار پہ تف
دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے
اے میرے حسنِ نظر ! تیرے اعتبار پہ تف
پہنچ سکا نہیں اس تک جو میرے زخم کا نور
چراغ خون پہ تھو سینہء فگار پہ تف
ہیں برگِ خشک سی شکنیں خزاں بکف بستر
مرے مکان میں ٹھہری ہوئی بہار پہ تف
کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ
ترے ملالِ تری چشم اشکبار پہ تف
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ مرگیا ہوں میں
اے میرے دوست ترے جیسے غمگسار پہ تف
یونہی بکھیرتا رہتا ہے دھول آنکھوں میں
ہوائے تیز کے اڑتے ہوئے غبار پہ تف
خود آپ چل کے مرے پاس آئے گا کعبہ
مقامِ فیض پہ بنتی ہوئی قطار پہ تف
حیات قیمتی ہے خواب کے دریچوں سے
رہِ صلیب پہ لعنت، فراز دار پہ تف
صدا ہو صوتِ سرافیل تو مزہ بھی ہے
گلے کے بیچ میں اٹکی ہوئی پکار پہ تف
جسے خبر ہی نہیں ہے پڑوسی کیسے ہیں
نمازِ شام کی اُس عاقبت سنوار پہ تف
مری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے
امیرِ شہر! ترے عہدِ اقتدار پہ تف
ترے سفید محل سے جو پے بہ پے ابھرے
ہزار بار انہی زلزلوں کی مار پہ تف
ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی
ترے ضمیر پہ تھو، تیرے اختیار پہ تف
سنا ہے چادرِ زہرا کو بیچ آیا ہے
جناب شیخ کی دستارِ بد قمار پہ تف
تُو ماں کی لاش سے اونچا دکھائی دیتا ہے
ترے مقام پہ لعنت ترے وقار پہ تف
مرے گھرانے کی سنت یہی غریبی ہے
ترے خزانے پہ تھو مالِ بے شمار پہ تف
یہی دعا ہے ترا سانپ پر قدم آئے
ہزار ہا ترے کردارِ داغ دار پہ تف
کسی بھی اسم سے یہ ٹوٹتا نہیں منصور
فسردگی کے سلگتے ہوئے حصار پہ تف
منصور آفاق

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق

پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 188
سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس
ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے
کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس
گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں
فون مردہ ہے مگر بسترِ بیدار کے پاس
کس طرح برف بھری رات گزاری ہو گی
میں بھی موجود نہ تھا جسمِ طرح دار کے پاس
عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج
طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے پاس
چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور
سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس
منصور آفاق

یار کا میں ہوں اور ہے میرا یار لباس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 184
وصل کی راتوں کا شب زندہ دار لباس
یار کا میں ہوں اور ہے میرا یار لباس
سوچ کی چِپ میں سمٹی ہوئی اس دنیا کی
ٹیلی ویژن آنکھیں ہیں اخبار لباس
آدھے بدن پر ٹیبل لیمپ کا نیلا شیڈ
آدھے بدن پر رات کا جالی دار لباس
خواب بہت بوسیدہ ہوتے جاتے ہیں
آؤ بدل لیں نیندوں کے اس پار لباس
ننگ دکھائی دے جاتا ہے درزوں سے
کہنے کو ہے گھر کی ہر دیوار لباس
تنہائی کی ڈیٹوں میں منصور آفاق
تیرے میرے بیچ رہا ہر بار لباس
منصور آفاق

آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 7
میں جا رہا تھا دیکھنے فرودسِ بے کنار
آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار
شادابیوں کی آخری حد، وادئ گریز
پاؤں کے انتظار میں صدیوں سے اشکبار
ہلمت کی بے پناہ بلندی پہ تیز آب
پھرتا ہے بادلوں کے دریچوں میں بے قرار
لاکھوں برس قدیم گھنے جنگلوں کا کیل
اور اس کے بیچ زندگی باردو کا شکار
کیوں صحنِ شاردا میں ہوئی بدھ کی آتما
کتنے کروڑ لوگوں کے اشکوں سے داغدار
معصوم داؤکھن کی مقدس سفیدیاں
اک دورِ جاھلاں میں رسولوں میں انتظار
شمشہ بری کے پیچھے چناروں کا سرخ روپ
بادل بھری شعاعوں کامقتل پسِ بہار
اڑتے ہیں دھیر کوٹ کی گلیوں میں برگ و بار
جیسے بدلنے لگتی ہے تہذیبِ برف زار
شبنم کے موتیوں سے بھرا راولہ کا کوٹ
ہر سنگ میں دکھاتا ہے اک چشمِ آب دار
بنجوسہ جیسے آب درختوں کے تھال میں
بس گھومتی ہے روح میں خاموش سی پکار
دریائے تند سو گئے منگلا کی گود میں
منصور ڈھونڈتا رہا کشمیر کے سوار
منصور آفاق

جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 235
اہل دل فرمائیں کیا درکار ہے
جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے
خار کو کوئی کلی کہتا نہیں
نرم ہو،نازک ہو پھر بھی خار ہے
کچھ کہیں تو آپ ہوتے ہیں خفا
چپ رہیں تو زندگی دشوار ہے
لوریاں دیتی رہی دنیا بہت
پھر بھی جو بیدار تھا، بیدار ہے
کاش ہوتے اتنے اچھے آپ بھی
جتنی اچھی آپ کی گفتار ہے
کل کہاں تھی آج ہے باقیؔ کہاں
زندگی کتنی سبک رفتار ہے
باقی صدیقی