حاصل ہو اس کا جو بھی، زیادہ کہ چاہے کم
اس پیڑ سے ہی لپٹے رہیں گے خزاں میں ہم
یہ تھاپ آنسوؤں کی چھما چھم، چھما چھمم
سنتے ہیں ہم حیات کے نغموں کے زیر و بم
ہو جاتا وہ خمارِ مِلن ہم کو بھی بہم
ہاتھوں میں اک لکیر جو ایسے نہ ہوتی خم
کچھ بھی نہیں حیات، حقیقت میں کچھ نہیں
بس دم دما دمم کا سنو گیت دمبدم
بن جائے اپنا کچھ بھی، نہ بن پائے بھی تو کیا
کچھ بھی نہیں کریں گے، کریں گے نہ کچھ بھی ہم
یہ گلستانِ شعر نہ بنجر کبھی ہوا
صد شکر نم ہے آنکھوں کی اس کو رہی بہم
میرے بزرگ دوست مرے میری جان ہیں
ماجدؔ ہوں آفتابؔ یا خاقانؔ یا عدمؔ
یاؔور کی یہ غزل ہے سنی داد کچھ تو دیں
غالب سے بھی زیادہ ہیں گو آپ محترم
یاور ماجد