ٹیگ کے محفوظات: خم

اس پیڑ سے ہی لپٹے رہیں گے خزاں میں ہم

 
حاصل ہو اس کا جو بھی، زیادہ کہ چاہے کم
اس پیڑ سے ہی لپٹے رہیں گے خزاں میں ہم
یہ تھاپ آنسوؤں کی چھما چھم، چھما چھمم
سنتے ہیں ہم حیات کے نغموں کے زیر و بم
ہو جاتا وہ خمارِ مِلن ہم کو بھی بہم
ہاتھوں میں اک لکیر جو ایسے نہ ہوتی خم
کچھ بھی نہیں حیات، حقیقت میں کچھ نہیں
بس دم دما دمم کا سنو گیت دمبدم
بن جائے اپنا کچھ بھی، نہ بن پائے بھی تو کیا
کچھ بھی نہیں کریں گے، کریں گے نہ کچھ بھی ہم
یہ گلستانِ شعر نہ بنجر کبھی ہوا
صد شکر نم ہے آنکھوں کی اس کو رہی بہم
میرے بزرگ دوست مرے میری جان ہیں
ماجدؔ ہوں آفتابؔ یا خاقانؔ یا عدمؔ
یاؔور کی یہ غزل ہے سنی داد کچھ تو دیں
غالب سے بھی زیادہ ہیں گو آپ محترم
یاور ماجد

اِستعارے ہیں ماہ و انجم کے

یہ کرن، پُھول، بالیاں، جُھمکے
اِستعارے ہیں ماہ و انجم کے
لالہ و گُل ستارہ و مہتاب
رازجُو ہیں ترے تبسّم کے
بات پہنچی قیودِ محفل تک
تذکرے تھے ترے تکلّم کے
تیری آنکھوں کے رُوبرو آئیں
حوصلے کیا ہیں ساغر و خُم کے
ہم فقط آنسوؤں کے سوداگر
تم خریدار ماہ و انجم کے
شکیب جلالی

ہائے انسان کی انگڑائی کا خم

دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
جب بھی اوہام مقابل آئے
مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم
پرِ پرواز پہ یہ راز کھلا
پستیوں سے تھا بلندی کا بھرم
غم کی دیوار گری تھی جن پر
ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ اِرم
چاندنی غارہِ پائے جولاں
کہکشاں جادہِ ابنِ آدم
ایک تارہ بھی نہ پامال ہوا
ایسے گزرے رہِ افلاک سے ہم
شکیب جلالی

چند کو چھوڑ کے سب اہلِ قلم جھوٹے ہیں

وصل کا عیش غلط، ہجر کے غم جھوٹے ہیں
چند کو چھوڑ کے سب اہلِ قلم جھوٹے ہیں
اپنا رستہ یہاں خود ڈھونڈنا پڑتا ہے میاں
عشق کی راہ میں سب نقشِ قدم جھوٹے ہیں
گونجتی ہے یہی آواز دمادم ہر سُو
ایھا النّاس سنو، دیر و حرم جھوٹے ہیں
اولاً ہم تھے جنھیں خواب کا آزار ملا
اور تُو پھر بھی سمجھتا ہے کہ ہم جھوٹے ہیں
میری جانب ہیں بہت عام سے سچے، دو چار
اور ترے ساتھ بہت سارے اہم جھوٹے ہیں
کم سے کم کہتے وہی ہیں کہ جو دل مانتا ہے
یعنی ہم جھوٹے اگر ہیں بھی تو کم جھوٹے ہیں
ہے کوئی اور ہی اقلیم جو شاید سچ ہو
یہ مگر طے ہے وجود اور عدم جھوٹے ہیں
تم بھلا کون، کسی حرف کے تقدیر کشا؟
وقت کو فیصلہ کرنے دو کہ ہم جھوٹے ہیں
راہ عرفان محبت کی ہے سیدھی، سچی
اب کھلا ہم پہ کہ اس راہ کے خم جھوٹے ہیں
عرفان ستار

متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں

فسانہِ غمِ ہستی رَقَم کروں نہ کروں
متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں
وہ جن میں دھڑکنیں اُن کے بھی دل کی ہیں شامل
وہ حادثات سپُردِ قَلَم کروں نہ کروں
تمام عمر لیے دل میں سوچتا ہی رَہا
قبول ہو نہ ہو نذرِ صَنَم کروں نہ کروں
ہو بحثِ رشتہِ عصیاں و زلف گر ضامنؔ
کہو کہ تذکرہِ پیچ و خَم کروں نہ کروں
ضامن جعفری

آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے

جن دنوں غم زیادہ ہوتا ہے
آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے
کچھ تو حَساس ہم زیادہ ہیں
کچھ وہ برہم زیادہ ہوتا ہے
دردِ دل کا بھی کوئی ٹھیک نہیں
خود بخود کم زیادہ ہوتا ہے
سب سے پہلے اُنہیں جھُکاتے ہیں
جن میں دم خم زیادہ ہوتا ہے
قیس پر ظلم تو ہُوا باصرِؔ
پھر بھی ماتم زیادہ ہوتا ہے
باصر کاظمی

تو اپنا غم کچھ کم کر لے

ہم کو بھی شریکِ غم کر لے
تو اپنا غم کچھ کم کر لے
چاہت کا چراغ نہیں چھپتا
جتنا چاہے مدھم کر لے
شاید کوئی راہ نکل آئے
آ کچھ باتیں باہم کر لے
تُو کون ہے جو تیرے آگے
دنیا اپنا سر خم کر لے
یوں کب تک سوچے گا باصرِؔ
جو کرنا ہے یک دم کر لے
باصر کاظمی

اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
مُڑنے والی تھی وُہ ساحل کی طرف یم کی طرح
اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح
اُس کی انگڑائی میں دعوت تھی بہ اندازِ دگر
ابروؤں میں آنے والے دلنشیں خم کی طرح
پیش قدمی میں عجب امرت تھا پھیلا چار سُو
اُس کا ہر ہٹتا قدم لگنے لگا سم کی طرح
کہہ رہا تھا مجھ سے جیسے اُس کا فردوسِ بدن
دیکھنا رہ سے بھٹک جانا نہ آدم کی طرح
نشّۂ دیدار اُس کا اب کے تھا کُچھ اور ہی
آنکھ میں اُتری لگی وُہ کیفِ پیہم کی طرح
یہ بدن ماجِد سحرآثار ہو جانے لگا
اس سے ملنے کا اثر تھا گل پہ شبنم کی طرح
ماجد صدیقی

بادل نے جہاں بھی کہیں بے نم ہمیں دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
شاہوں ساجو دیکھا بھی تو ہے کم ہمیں دیکھا
بادل نے جہاں بھی کہیں بے نم ہمیں دیکھا
منشا تھی ہر اوتار کی اِتنی سی کہ اُس نے
مسرور تھا جب بھی، بہ سرِ خم ہمیں دیکھا
ہر تُند بگولے نے ہر اِک سیلِ غضب نے
دیکھا بھی تو تنکوں ہی سا برہم ہمیں دیکھا
ہر دیکھنے والے نے دھندلکے میں حسد کے
مہتابِ سرِ صبح سا مدّھم ہمیں دیکھا
ماجدؔ ہوئے ہم اوس کنارِ لبِ جُو کی
ہر موج نے ندیا ہی میں مدغم ہمیں دیکھا
ماجد صدیقی

کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
جیون رُت کی سختی بے موسم لگتی ہے
کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے
صبحِ سفر یادوں میں اُترتی ہے یوں جیسے
رفتہ رفتہ رات کی چادر نم لگتی ہے
سوچیں خلق کے حق میں اچّھا سوچنے والے
خلق اُنہی سے آخر کیوں برہم لگتی ہے
ان سے توقّع داد کی ہم کیا رکھیں جن کے
بات لبوں کے بیچ سے پھوٹی سم لگتی ہے
بات فقط اک لمبی دیر گزرنے کی ہے
جگہ جگہ پر کیا کیا کھوپڑی، خم لگتی ہے
بَیری رات کے آخر میں جو جا کے بہم ہو
آنکھ کنارے اٹکی وہ شبنم لگتی ہے
کچھ تو اندھیرا بھی خاصا گمبھیر ہوا ہے
کچھ ماجدؔ لَو دیپ کی بھی مدّھم لگتی ہے
ماجد صدیقی

خُدا سمجھتے رہے تھے جِسے صنم نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
نہیں کُچھ ایسا تغافل میں وُہ بھی کم نکلا
خُدا سمجھتے رہے تھے جِسے صنم نکلا
یہاں کے لوگ اذیّت پسند ہیں کیا کیا
مِلے جِسے بھی وُہ گرویدۂ ستم نکلا
وُہی جو قلقلِ خوں میں تھا رقصِ بِسمل کے
کُچھ اپنی لے میں بھی ایسا ہی زیر و بم نکلا
یقیں نہیں ہے پہ حسبِ روایتِ غیراں
جنم ہمارا بھی ہے ناطلب جنم نکلا
سنور گئے ہیں یہاں قصر کیا سے کیا ماجدؔ
مِرے مکان کی دیوار کا نہ خم نکلا
ماجد صدیقی

خُشکیاں اپنے یہاں کی اور ہیں، نم اور ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
بانجھ ہے برکھا پون،آنکھوں کا موسم اور ہے
خُشکیاں اپنے یہاں کی اور ہیں، نم اور ہے
خون میں اُترے فقط، گمراہی افکار سے
دی نہ جائے اور جاں لیوا ہو جو، سَم اور ہے
ناتوانوں کے کوائف، جام میں کر لے کشید
ہم ہوئے جس عہد میں، اِس عہد کا جم اور ہے
چیت کی رُت میں، غزالوں کے بدن کی شاعری
اور ہے، اور خوف میں اُلجھا ہوا رم، اور ہے
میں بھی دے بیٹھا ہوں دل ماجدؔ، مگر یہ جان کر
ابروؤں کا اور ہے، دیوار کا خم اور ہے
ماجد صدیقی

کون کہے یہ رنج نظر کا کب جا کر کم ہونا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
جب تک گرد گُلوں پر ہے اِن آنکھوں کو نم ہونا ہے
کون کہے یہ رنج نظر کا کب جا کر کم ہونا ہے
رفتہ رفتہ اندر سے دیمک سا اُنہیں جو چاٹ سکے
ایمانوں میں زہر ریا کا اور ابھی ضم ہونا ہے
جانے کب تک ٹوہ لگانے اِک اِک جابر موسم کی
دل کو ساغر میں ڈھلنا ہے اور ہمیں جم ہونا ہے
ایک خُدا سے ہٹ کر بھی کچھ قادر راہ میں پڑتے ہیں
جن کی اُونچی دہلیزوں پر اِس سر کو خم ہونا ہے
آگے کی یہ بات کہاں بتلائے لُغت اُمیدوں کی
کان میں پڑنے والے کن کن لفظوں کو سم ہونا ہے
اور طرح سے بدلے دیکھے اَبکے گھاٹ مچانوں میں
تیروں پر تحریر جہاں ہر آہو کا رَم ہونا ہے
دل کو جو بھی آس لگی وُہ خوابِ جِناں بن جائے گی
دریاؤں کو جیسے ماجدؔ بحر میں مدغم ہونا ہے
ماجد صدیقی

کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
ورق پہ دشتِ طلب کے رقم کیا جائے
کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے
فلک سے فصل نے ژالوں کی کب دعا کی ہے
کسی نے کب یہ کہا ہے، ستم کیا جائے
اساس جس کی مسّرت میں التوا ٹھہرے
نہ ہم پہ اور اب ایسا کرم کیا جائے
ستم کشی کہ جو عادت ہی بن گئی اپنی
اِسے نہ رُو بہ اضافہ، نہ کم کیا جائے
ہر ایک سر کا تقاضاہے یہ کہ تن پہ اگر
لگے تو اُس کو بہرحال خم کیا جائے
بہم نہیں ہیں جو موسم کی خنکیاں ماجدؔ
تو کیوں نہ آنکھ کا آنگن ہی نم کیا جائے
ماجد صدیقی

زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
مہرِ رخشاں رات میں ضم ہو گیا
زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا
لکھ رہا تھا جانے کیا کاغذ پہ میں
آنکھ بھر آنے سے جو نم ہو گیا
دل نجانے ہم سخن کس سے ہوا
حرف کا امرت بھی ہے سم ہو گیا
ڈوبتے ہی اِک ذرا اُس ماہ کے
دیکھیے کیا دل کا عالم ہو گیا
کم نہیں یہ مُعجزہ اِس دَور کا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ جم ہو گیا
بچ کے ماجدؔ جس سے نکلے تھے کبھی
سر اُسی دہلیز پر خم ہو گیا
ماجد صدیقی

ہو ترا کرم اَب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
چاہتے ہیں ہم اَب کے
ہو ترا کرم اَب کے
لُوٹنے کو جی چاہے
لطفِ کیف و کم اَب کے
حبس وُہ لُہو میں ہے
گھُٹ رہا ہے دم اَب کے
مثلِ ماہ و شب ہم بھی
کیوں نہ ہوں بہم اَب کے
کُچھ تو محو ہونے دے
ابروؤں کے خم اَب کے
پوچھتی ہے کیا ماجدؔ
موسموں کی نم اَب کے
ماجد صدیقی

یہ قربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 134
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے
یہ قربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے
رہا ہے کون کس کے ساتھ انجام سفر تک
یہ آغاز مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے
مزاجوں میں اتر جاتی ہے تبدیلی مری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم تم جانتے تھے
سو اب کیوں ہر کس و ناکس سے یہ شکوہ شکایت
یہ سب سود و زیاں، یہ بیش و کم تم جانتے تھے
فرار اس گمرہی پر کیا کسی کو دوش دینا
کہ راہ عاشقی کے بیچ و خم تم جانتے تھے
احمد فراز

اب کوئی شکوا ہم نہیں کرتے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 175
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوا ہم نہیں کرتے
جانِ جاں تجھ کو اب تری خاطر
یاد ہم کوئی دَم نہیں کرتے
دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم
سرِ تسلیم خم نہیں کرتے
وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے
ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے
جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے
جون ایلیا

تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 128
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں
تم کو جہانِ شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ
خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں
اس شہرِ حیلہ جُو میں جو محرم ملے مجھے
فریادِ جانِ جاں وہی محرم ملے تمہیں
دیتا ہوں تم کو خشکیِ مژ گاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامنِ پرنم ملے تمہیں
میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
جاناں ! جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم ملے تمہیں
یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں
جون ایلیا

تھے تمہاری زلف کے خم رائگاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 85
دل تھا درہم اور برہم رائگاں
تھے تمہاری زلف کے خم رائگاں
اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب
اپنے خوابوں کا تھا عالم رائگاں
زندگی بس رائگانی ہی تو ہے
میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رائگاں
جون شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں
ہے دوام اک وہم اور دم رائگاں
جون ایلیا

غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 272
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بہ خم کیا ہے
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟
نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟
وہ داد ودید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے
سخن میں خامۂ غالب کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 233
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت
فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے
غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرّہ ہائے خم بہ خم آگے
دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
مرزا اسد اللہ خان غالب

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 227
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
@مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
@ نسخۂ حمیدیہ (اور مہر) میں یہاں لفظ "اگر” ہے، دوسرے تمام نسخوں میں "مگر”، صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی املا قبول کی ہے۔ ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ

دیوان ششم غزل 1821
دل یہی ہے جس کو دل کہتے ہیں اس عالم کے بیچ
کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ
چھاتی کٹتی سنگ ہی سے دل کے جانے میں نہیں
نعل سینوں پر جڑے جاتے ہیں اس ماتم کے بیچ
نقشہ اس کا مردم دیدہ میں میرے نقش ہے
یعنی صورت اس ہی کی پھرتی ہے چشم نم کے بیچ
شاد وے جو اب جواں تازہ ہوئے ہیں شہر میں
دل زدہ ہم شیب میں رہتے ہیں اپنے غم کے بیچ
دل نہ ایسا کر کہ پشت چشم وہ نازک کرے
سو بلائیں ہیں یہاں ان ابروؤں کے خم کے بیچ
حد سے افزوں اس گلی میں شور ہے عشاق کا
کون سنتا ہے کسو کی بات اس اودھم کے بیچ
رونق آبادی ملک سخن ہے اس تلک
ہوں ہزاروں دم الٰہی میر کے اک دم کے بیچ
میر تقی میر

بہت عالم کرے گا غم ہمارا

دیوان ششم غزل 1808
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
پڑھیں گے شعر رورو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا
زمین و آسماں زیر و زبر ہے
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کسو کے بال درہم دیکھتے میر
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
میر تقی میر

جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا

دیوان ششم غزل 1789
جمع اس کے نکلے عالم ہو گیا
جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا
گو پریشاں ہو گئے گیسوے یار
حال ہی اپنا تو درہم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرح بدلی یار نے
چائو تھا دل میں سو اب غم ہو گیا
کیا لکھوں مشکل ہوئی تحریر حال
خط کا کاغذ رونے سے نم ہو گیا
دم دیے بہتیرے یاروں نے ولے
خشک نے سا شیخ بے دم ہو گیا
کیوں نہ درہم برہم اپنا ہو مزاج
بات کہتے یار برہم ہو گیا
باغ جیسے راغ وحشت گاہ ہے
یاں سے شاید گل کا موسم ہو گیا
کیا نماز اے میر اس اوقات کی
جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
میر تقی میر

دل نے پہلو تہی کیا ہم سے

دیوان پنجم غزل 1759
ہجر میں خوں ہوا تھا سب غم سے
دل نے پہلو تہی کیا ہم سے
عالم حسن ہے عجب عالم
چاہیے عشق اس بھی عالم سے
طرح چھریوں کی پلکوں سے ڈالی
نکلی تلوار ابرو کے خم سے
نسبت ان بالوں کی درست ہوئی
دیر میں میرے حال درہم سے
درپئے خون میر کے نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
میر تقی میر

پر اس ستم سے بامزہ لطف و کرم نہیں

دیوان پنجم غزل 1692
ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں
پر اس ستم سے بامزہ لطف و کرم نہیں
درویش جو ہوئے تو گیا اعتبار سب
اب قابل اعتماد کے قول و قسم نہیں
حیرت میں سکتے سے بھی مرا حال ہے پرے
آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو دم نہیں
مستغنی کس قدر ہیں فقیروں کے حال سے
یاں بار غم سے خم ہوئے واں بھوویں خم نہیں
شاید جگر کا کام تمامی کو کھنچ گیا
یا لوہو روتے رہتے تھے یا چشم نم نہیں
غم اس کا کچھ نہیں ہمیں گو لوگ کچھ کہیں
یہ التفات ان نے جو کی ہے سو کم نہیں
کہنے لگا کہ میر تمھیں بیچوں گا کہیں
تم دیکھیو نہ کہیو غلام اس کے ہم نہیں
میر تقی میر

عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا

دیوان پنجم غزل 1561
چاہ میں جور ہم پہ کم نہ ہوا
عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا
فائدہ کیا نماز مسجد کا
قد ہی محراب سا جو خم نہ ہوا
یار ہمراہ نعش جس دم تھا
وائے مردے میں میرے دم نہ ہوا
نہ گیا اس طرف کا خط لکھنا
ہاتھ جب تک مرا قلم نہ ہوا
بے دلی میں ہے میر خوش اس سے
دل کے جانے کا حیف غم نہ ہوا
میر تقی میر

محل رحم ہوویں کس طرح مظلوم ہم تیرے

دیوان چہارم غزل 1509
نہ خاطر پر الم تیرے نہ دل پر کچھ ستم تیرے
محل رحم ہوویں کس طرح مظلوم ہم تیرے
جو ٹک بھی سایہ گستر ہو گا تو اس خشک مزرع پر
بہت ہم ہوں گے احساں مند اے ابر کرم تیرے
انھیں کی طبع جان میر مائل ہو گی سنبل کی
نہیں دیکھے جنھوں نے گیسوے پرپیچ و خم تیرے
میر تقی میر

ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر

دیوان چہارم غزل 1387
کیا صبر ہم نے جو اس کے ستم پر
ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر
لکھا جو گیا اس کو کیا نقل کریے
سخن خونچکاں تھے زبان قلم پر
جھکے ٹک جدھر جھک گئے لوگ اودھر
رہی درمیاں تیغ ابرو کے خم پر
سخن زن ہوں ہر چند وے مست آنکھیں
نہیں اعتماد ان کے قول و قسم پر
جگر ہے سزا میر اس رنج کش کو
گیا دو قدم جو ہمارے قدم پر
میر تقی میر

جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد

دیوان چہارم غزل 1382
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد
جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد
چھاتی پھٹ جاتی جو یوں رک کر نہ کرتا ترک چشم
گذرے اس کے عشق میں جی پر ستم حد سے زیاد
خوف کر عاشق کے سر کٹنے کی قطعی ہے دلیل
ہو جہاں شمشیر ابرو اس کی خم حد سے زیاد
کچھ بھی نزدیک اس کے ٹھہرا ہو تو دیکھے بھر نظر
قدر ہے عاشق کی ان آنکھوں میں کم حد سے زیاد
پاس اس کے دم بخود پہروں تھے سو طاقت کہاں
بات کہتے میر اب کرتے ہیں دم حد سے زیاد
میر تقی میر

گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا

دیوان چہارم غزل 1343
جگر خوں کیا چشم نم کر گیا
گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا
ان آنکھوں کو نرگس لکھا تھا کہیں
مرے ہاتھ دونوں قلم کر گیا
شب اک شعلہ دل سے ہوا تھا بلند
تن زار میرا بھسم کر گیا
مرے مزرع زرد پر شکر ہے
کل اک ابر آیا کرم کر گیا
نہ اک بار وعدہ وفا کرسکا
بہت بار قول و قسم کر گیا
فقیری میں تھا شیب بارگراں
قد راست کو اپنے خم کر گیا
بکاے شب و روز اب چھوڑ میر
نواح آنکھوں کا تو ورم کر گیا
میر تقی میر

جد برسوں ہم نے سورئہ یوسفؑ کو دم کیا

دیوان سوم غزل 1072
تد اس بہشتی رو سے یہ خلطہ بہم کیا
جد برسوں ہم نے سورئہ یوسفؑ کو دم کیا
چہرے کو نوچ نوچ لیا چھاتی کوٹ لی
جانے کا دل کے ہم نے بہت غم الم کیا
مربوط اور لوگوں سے شاید کہ وے ہوئے
وہ ربط و رابطہ جو بہت ہم سے کم کیا
کیا کیا سخن زباں پہ مری آئے ہوکے قتل
مانند خامہ گوکہ مرا سر قلم کیا
کی ہم نے تب درونے کی سوزش سے عاقبت
سب تن بدن اس آگ نے اپنا بھسم کیا
یاں اپنے جسم زار پہ تلوار سی لگی
ان نے جو بے دماغی سے ابرو کو خم کیا
اس زندگی سے مارے ہی جانا بھلا تھا میر
رحم ان نے میرے حق میں کیا کیا ستم کیا
میر تقی میر

کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے

دیوان دوم غزل 1012
گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے
کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
دیدئہ تر ساتھ لے وے لوگ جوں شبنم گئے
گر ہوا اس باغ کی ہے یہ تو اے بلبل نہ پھول
کوئی دن میں دیکھیو واں وے گئے یاں ہم گئے
کیا کم اس خورشیدرو کی جستجو یاروں نے کی
لوہو روتے جوں شفق پورب گئے پچھم گئے
جی گیا یاں بے دماغی سے انھوں کی اور واں
نے جبیں سے چیں گئی نے ابروئوں سے خم گئے
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا
کچھ سبب تو ہے جو آنسو آتے آتے تھم گئے
گرچہ ہستی سے عدم تک اک مسافت تھی بعید
پر اٹھے جو ہم یہاں سے واں تلک اک دم گئے
کیا معاش اس غم کدے میں ہم نے دس دن کی بہم
اٹھ کے جس کے ہاں گئے دل کا لیے ماتم گئے
سبزہ و گل خوش نشینی اس چمن کی جن کو تھی
سو بھی تو دیکھا گریباں چاک و مژگاں نم گئے
مردم دنیا بھی ہوتے ہیں سمجھ کس مرتبہ
آن بیٹھے نائوں کو تو یاں نگیں سے جم گئے
ربط صاحب خانہ سے مطلق بہم پہنچا نہ میر
مدتوں سے ہم حرم میں تھے پہ نامحرم گئے
میر تقی میر

چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

دیوان دوم غزل 677
خط سے وہ زور صفاے حسن اب کم ہو گیا
چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا
سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا
ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ
اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا
آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا
اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا
وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا
فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا
وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا
جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور
جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا
ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت
اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میر
تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا
میر تقی میر

چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

دیوان اول غزل 582
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے
مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک
روشنی ہے سو یاں مرے دم سے
تم جو دلخواہ خلق ہو ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے
درہمی آگئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوان درہم سے
سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے
بہ گئے اشک دیدئہ نم سے
مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے
اکثر آلات جور اس سے ہوئے
آفتیں آئیں اس کے مقدم سے
دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں
تیغ نکلی اس ابروے خم سے
کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے
وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اس کے کسو جو محرم سے
درپئے خون میر ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
میر تقی میر

اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں

دیوان اول غزل 317
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں
موسم حیرت ہے دل بھر کر تو رونا مل چکا
اتنے بھی آنسو بہم پہنچیں کہ مژگاں نم کروں
ہوں سیہ مست سر زلف صنم معذور رکھ
شیخ اگر کعبے سے آوے گفتگو درہم کروں
ریزئہ الماس یا مشت نمک ہے کیا برا
جو میں اپنے ایسے زخم سینہ کو مرہم کروں
گرچہ کس گنتی میں ہوں پر ایک دم مجھ تک تو آ
یا ادھر ہوں یا ادھر کب تک شمار دم کروں
بس بہت رسوا ہوا میں اب نہیں مقدور کچھ
وہ طرح ڈھونڈوں ہوں جس میں ربط تجھ سے کم کروں
گودھواں اٹھنے لگا دل سے مرے پر پیچ و تاب
میر اس پر قطع ربط زلف خم در خم کروں
میر تقی میر

ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز

دیوان اول غزل 235
ہوچکا خون جگر رونا نہیں کچھ کم ہنوز
ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز
دل جلوں پر روتے ہیں جن کو ہے کچھ سوز جگر
شمع رکھتی ہے ہماری گور پر ماتم ہنوز
وضع یکساں اس زمانے میں نہیں رہتی کہیں
قد ترا چوگاں رہا ہے کس طرح سے خم ہنوز
آرہا ہے جی مرا آنکھوں میں اک پل اور ہوں
پر نہیں جاتا کسی کے دیکھنے کا غم ہنوز
وہ جو عالم اس کے اوپر تھا سو خط نے کھو دیا
مبتلا ہے اس بلا میں میر اک عالم ہنوز
میر تقی میر

پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا

دیوان اول غزل 62
سمجھے تھے میر ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا
آئے برنگ ابر عرق ناک تم ادھر
حیران ہوں کہ آج کدھر کو کرم ہوا
تجھ بن شراب پی کے موئے سب ترے خراب
ساقی بغیر تیرے انھیں جام سم ہوا
کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
بیت الحرام تھا سو وہ بیت الصنم ہوا
خانہ خراب کس کا کیا تیری چشم نے
تھا کون یوں جسے تو نصیب ایک دم ہوا
تلوار کس کے خون میں سر ڈوب ہے تری
یہ کس اجل رسیدہ کے گھر پر ستم ہوا
آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز
کوچے پر اس مزار کے تھا یہ رقم ہوا
کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا میں بھی سر
پایان کار مور کی خاک قدم ہوا
افسوس کی بھی چشم تھی ان سے خلاف عقل
بار علاقہ سے تو عبث پشت خم ہوا
اہل جہاں ہیں سارے ترے جیتے جی تلک
پوچھیں گے بھی نہ بات جہاں تو عدم ہوا
کیا کیا عزیز دوست ملے میر خاک میں
نادان یاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا
میر تقی میر

کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا

دیوان اول غزل 6
شب ہجر میں کم تظلم کیا
کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشت سر خم کیا
جگر ہی میں یک قطرہ خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا
کسو وقت پاتے نہیں گھر اسے
بہت میر نے آپ کو گم کیا
میر تقی میر

جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 68
اُس جگہ تنہا نہ تھے تم اور ہم، کتنے ہی تھے
جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے
اُنگلیوں سے جو نشانِ فتح لہراتے ہوئے
بڑھ رہے تھے سوئے مقتل دم بدم، کتنے ہی تھے
کر سکو گے صفحۂ منظر پہ دھبوں کا شمار
وُہ جو کٹ کے گر گئے دست و قلم کتنے ہی تھے
گا ہے شب روشن ہوئی اور گا ہے دن تیرہ ہوا
آنکھ کو حیرت کے یہ ساماں بہم کتنے ہی تھے
خود سے مُنکر کیا ہوا بس سلسلہ ہی چل پڑا
میرے دورِ ہست میں دورِ عدم کتنے ہی تھے
نارسائی کام آئی، ورنہ سلجھاتے کہاں
گیسوئے سرکشن کہ جس میں پیچ و خم کتنے ہی تھے
آفتاب اقبال شمیم

رسولِ صبح تبسم فروغ کن تم سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 543
محیطِ کون مکاں تم فروغِ کن تم سے
رسولِ صبح تبسم فروغ کن تم سے
تمہی کتاب زماں ہو تمہیِ کتابِ مکاں
تمہی خدا کا تکلم فروغ کن تم سے
تمہی ہوصبحِ ازل سے ابد تلک روشن
جہانِ نور کے قلزم فروغ کن تم سے
تمہی ہوا کا چلن ہو تمہی خدا کا ہاتھ
تمہی ندی کاترنم فروغ کن تم سے
تمہاری چشمِ کرم سے نکلتا ہے سورج
تمہی سحر کا تلاطم فروغ کن تم سے
جہاں سے گنبدِ خضرا دکھائی دیتا ہے
ہے کائنات وہاں گم فروغ کن تم سے
تمہارے ہونے سے میخانہِجہاں موجود
تمہی ہو ساقی تمہی خم فروغ کُن تم سے
تمہارارحم و کرم کہ تمہارا ہے منصور
تمہی شعور کاترحم فروغ کن تم سے
منصور آفاق

یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 160
پڑے ہیں جو قلم کے ساتھ کاغذ
یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ
جلا آیا جلوسِ دانشِ دِین
شعورِ محترم کے ساتھ کاغذ
جڑے بس رہ گئے ہیں داستاں میں
ترے عہدِ ستم کے ساتھ کاغذ
یہی بس التماسِ دل کہ رکھنا
یہ دیوارِ حرم کے ساتھ کاغذ
پرندے بنتے جاتے ہیں مسلسل
ترے فضل و کرم کے ساتھ کاغذ
میانوالی میں آئے ہیں فلک سے
یہ امکانِ عدم کے ساتھ کاغذ
خود اپنے قتل نامے کا کسی کو
دیا پورے بھرم کے ساتھ کاغذ
کسی مبہم سی انجانی زباں میں
پڑے ہیں ہر قدم کے ساتھ کاغذ
الٹنے ہیں پلٹنے ہیں لحد تک
خیالِ بیش و کم کے ساتھ کاغذ
یہ وہ تہذیب ہے جو بیچتی ہے
ابھی دام و درم کے ساتھ کاغذ
کسی کو دستخط کرکے دیے ہیں
سرِ تسلیم خم کے ساتھ کاغذ
درازوں میں چھپانے پڑ رہے ہیں
کلامِ چشمِ نم کے ساتھ کاغذ
انہیں عباس نے لکھا ہے خوں سے
یہ چپکا دے علم کے ساتھ کاغذ
چمکتے پھر رہے ہیں آسماں کے
چراغِ ذی حشم کے ساتھ کاغذ
بدل جاتے ہیں اکثر دیکھتا ہوں
مری تاریخِ غم کے ساتھ کاغذ
ابد کے قہوہ خانے میں ملے ہیں
کسی تازہ صنم کے ساتھ کاغذ
ہوئے ہیں کس قدر منصور کالے
یہ شب ہائے الم کے ساتھ کاغذ
منصور آفاق

آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 120
نیند کی ناراضگی کو کم کیا
آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا
اس نے شانوں پر بکھیرے اپنے بال
اور شیتل شام کا موسم کیا
پہلے رنگوں کو اتارا اور پھر
اس نے ہیٹر کو ذرا مدہم کیا
ایک آمر کی ہلاکت پر کہو
سرنگوں کیوں ملک کا پرچم کیا
صبح آنسو پونچھ کے ہم سو گئے
روشنی کا رات بھر ماتم کیا
مان لی ہم نے کہانی رات کی
اس نے پلکوں کو ذرا سانم کیا
عاشقی کی داد چاہی شہر سے
ہیٹ اتارا اور سر کو خم کیا
دار پر کھینچا مرے منصور کو
اور سارے شہر کو برہم کیا
منصور آفاق

چل کے دو چار قدم دیکھتے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 128
آپ ہیں دور کہ ہم دیکھتے ہیں
چل کے دو چار قدم دیکھتے ہیں
اپنی آواز پہ رحم آتا ہے
اس بلندی پہ ستم دیکھتے ہیں
ہم سفر کیسے کہ ہم مڑ مڑ کے
اپنے ہی نقش قدم دیکھتے ہیں
زلزلہ کوئی ادھر سے گزرا
تیری دیوار میں خم دیکھتے ہیں
قافلے شوق حرم سے گزرے
اوج پر بخت صنم دیکھتے ہیں
زندگی جنتی بلند اڑتی ہے
درد ہم اتنا ہی کم دیکھتے ہیں
جب کسی غم کا سوال آتا ہے
صورت اہل کرم دیکھتے ہیں
ریگ ساحل ہے مقدر اپنا
کیا ہر اک موج میں ہم دیکھتے ہیں
کتنا خوں اپنا جلا کر باقیؔ
صورت نان و درم دیکھتے ہیں
باقی صدیقی

ہجوم شہر میں گھٹنے لگا ہے دم اب تو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 89
نگار دشت کی جانب کوئی قدم اب تو
ہجوم شہر میں گھٹنے لگا ہے دم اب تو
کھڑا ہوں دل کے دوراہے پہ ہاتھ پھیلائے
چھپائے چھپتے نہیں زندگی کے غم اب تو
نئے خیال نئے فاصلوں کے ساتھ آئے
نہ مل سکیں گے کسی راستے پہ ہم اب تو
مسافران محبت کا انتظار نہ کر
کہ دل میں آ گئے راہوں کے پیچ و خم اب تو
نکل گیا ہے سفینہ ترا کدھر باقیؔ
صدائیں آتی ہیں ساحل سے دم بہ دم اب تو
باقی صدیقی

آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 68
تو قادر مطلق ہے یہی وصف ہے کم کیا
آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا
تو خالق کونین ہے اور حاصل کونین
ہے جس پہ نظر تیری اسے کوئی ہو غم کیا
تو اپنے گنہ گار کو توفیق عمل دے
ہوتا ہے زباں سے سرتسلیم بھی خم کیا
یہ رنگ غم زیست، یہ انداز غم جاں
دنیا کی تمنا میں نکل جائے گا دم کیا
اک سجدہ کیا میں نے فقط شعر کی صورت
ورنہ ہے تخیل مرا کیا؟ میرا قلم کیا
باقی صدیقی

وہ نگاہیں اٹھیں مگر کم کم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 17
دل پہ کچھ کھل سکا نہ راز غم
وہ نگاہیں اٹھیں مگر کم کم
اس طرح ہو گئے جدا جیسے
راہ میں یوں ہی مل گئے تھے ہم
آرزو راستے میں چھوڑ گئی
ہم ہیں اور زندگی کے پیچ و خم
پستیاں بھی گریز کرنے لگیں
کس بلندی سے گر رہے ہیں ہم
لب گل بھی نہ تر ہوئے باقیؔ
رات برسی کچھ اس طرح شبنم
باقی صدیقی