میں رختِ دل میں وجود کے سب فشار باندھے
چلا ہوں پاؤں میں عمر بھر کےغبار باندھے
نہیں سے ہاں سے کبھی تعلق نہ ٹوٹ پایا
ہیں عہد خود سے ہزار توڑے، ہزار باندھے
دھنک بہاروں کی گلستاں میں جو آ نہ پائی
تو ابر کرنوں پہ پل پڑے ہیں، حصار باندھے
تبسمِ گُل بھی دل کا غنچہ نہ کھول پایا
تو اور کتنا حسین منظر، بہار باندھے؟
جنون دل کا، نہ جستجو ہے نظر کی باقی
یہ بار سر سے ہیں میں نے کب کے اتار باندھے
فلک پہ جائے نماز افق کی بچھا کے، ۔۔ دیکھو
نکل پڑے ہیں پرند سارے قطار باندھے
جنم جنم سے میں اس جنوں کی تلاش میں ہوں
جو ہوش نظروں کا توڑ دے جو، خمار باندھے
یاور ماجد