ٹیگ کے محفوظات: خلوتیاں

اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو

مجلسِ دل بکھر چکی، مجلسیاں کی خیر ہو
اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو
راحتِ جاں نہ مل سکی، ہم کو اماں نہ مل سکی
خیر ہماری خیر ہے، جائے اماں کی خیر ہو
باغ چہک نہیں رہا، رنگ مہک نہیں رہا
سانس اُکھڑ گیا مرا، ہم نفساں کی خیر ہو
ہجر ہے یا وصال ہے، اصل میں اک خیال ہے
یعنی یقیں سے ہو مفر، گویا گماں کی خیر ہو
کتنا عجیب وقت ہے، خواب گروں پہ سخت ہے
رنج کا بندوبست ہے، دل زدگاں کی خیر ہو
ایک ہجومِ بد نگاہ، بے ہنروں کی اک سپاہ
پردہ دری سے بچ کے چل، رازِ نہاں کی خیر ہو
اے مرے قلبِ ناصبور، خواہشِ وصل دُور دُور
ملتفتوں سے کر حذر، شوقِ زیاں کی خیر ہو
ایک سا شورِ ہاؤ ہُو، پھیل گیا ہے چار سُو
نعرہ زنوں کی بھیڑ میں، خلوتیاں کی خیر ہو
عارض و لب کھِلے رہیں، چاکِ جنوں سلے رہیں
شیریں مقال زندہ باد، ماہ وشاں کی خیر ہو
عشق سے دشمنی کے دن، حرف کی جاں کنی کے دن
شہرِ سخن کے شور میں، کم سخناں کی خیر ہو
وحشتِ دل کے محرماں، میرے سخن کے نکتہ داں
آج بھی چند ہیں یہاں، خوش نظراں کی خیر ہو
لطف و سرور بے کراں، نشہ و کیف جاوداں
میکدہ_جنوں ترے، پیر_مغاں کی خیر ہو
بزم_طرب سجی رہی، بس یہ ہما ہمی رہے
آہ مری دبی رہے، زمزمہ خواں کی خیر ہو
اوجِ کمالِ دل کشی، اے مرے طرزِ شاعری
عمر دراز ہو تری، حسنِ بیاں کی خیر ہو
ختم ہوا سفر یہاں، چل پڑو سوئے لامکاں
راہ روو سفر بخیر، بزم_ جہاں کی خیر ہو
درد کا ہم نشیں کوئی، کوچہ_غم کہیں کوئی
اچھا کہیں نہیں کوئی، ماتمیاں کی خیر ہو
عرفان ستار