طَور جب عاشقانہ ہوتا ہے
وہ سنہری زمانہ ہوتا ہے
کچھ نہیں جن کے پاس اُن کے پاس
خواہشوں کا خزانہ ہوتا ہے
دل کسی کا کسی کے کہنے سے
کبھی پہلے ہوا نہ ہوتا ہے
بجلیوں کا ہدف نجانے کیوں
ایک ہی آشیانہ ہوتا ہے
غم نہیں اب جو ہم ہیں غیر فعال
اپنا اپنا زمانہ ہوتا ہے
دیکھتے ہیں تمہاری بستی میں
کب تلک آب و دانہ ہوتا ہے
دوستو کر لیا بہت آرام
کارواں اب روانہ ہوتا ہے
ڈھونڈتے ہیں جو آپ باصرِؔ کو
اُس کا کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے
باصر کاظمی