ٹیگ کے محفوظات: خزانہ

وہ سنہری زمانہ ہوتا ہے

طَور جب عاشقانہ ہوتا ہے
وہ سنہری زمانہ ہوتا ہے
کچھ نہیں جن کے پاس اُن کے پاس
خواہشوں کا خزانہ ہوتا ہے
دل کسی کا کسی کے کہنے سے
کبھی پہلے ہوا نہ ہوتا ہے
بجلیوں کا ہدف نجانے کیوں
ایک ہی آشیانہ ہوتا ہے
غم نہیں اب جو ہم ہیں غیر فعال
اپنا اپنا زمانہ ہوتا ہے
دیکھتے ہیں تمہاری بستی میں
کب تلک آب و دانہ ہوتا ہے
دوستو کر لیا بہت آرام
کارواں اب روانہ ہوتا ہے
ڈھونڈتے ہیں جو آپ باصرِؔ کو
اُس کا کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے
باصر کاظمی

کچھ ٹھکانہ نظر نہیں آتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 1
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
کچھ ٹھکانہ نظر نہیں آتا
دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا
اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا
رہئے مشتاق جلوہ دیدار
ہم نے مانا نظر نہیں آتا
لے چلو مجھکو رہروان عدم
یہاں ٹھکانہ نظر نہیں آتا
دل پر آرزو لٹا اے داغ
وہ خزانہ نظر نہیں آتا
داغ دہلوی

سب کچھ بس اک نگاہِ کرم کا بہانہ تھا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 7
کیا کہیے کیا حجابِ حیا کا فسانہ تھا!
سب کچھ بس اک نگاہِ کرم کا بہانہ تھا
دیکھا تو ہرتبسمِ لب والہانہ تھا
پرکھا تو ایک حیلۂ صنعت گرانہ تھا
دنیا، امیدِ دید کی دنیا تھی دیدنی
دیوار و در اداس تھے، موسم سہانا تھا
ہائے وہ ایک شام کہ جب مست، نَے بلب
میں جگنوؤں کے دیس میں تنہا روانہ تھا
یہ کون ادھر سے گزرا، میں سمجھا حضور تھے
اِک موڑ اور مڑ کے جو دیکھا، زمانہ تھا
اک چہرہ، اس پہ لاکھ سخن تاب رنگتیں
اے جرأتِ نگہ، تری قسمت میں کیا نہ تھا
ان آنسوؤں کی رو میں نہ تھی موتیوں کی کھیپ
ناداں سمندروں کی تہوں میں خزانہ تھا
اےغم، انیسِ دل، یہ تری دلنوازیاں
ہم کو تری خوشی کے لیے مسکرانا تھا
اک طرفہ کیفیت، نہ توجہ نہ بےرخی
میرے جنونِ دید کو یوں آزمانا تھا
ہائے وہ دھڑکنوں سے بھری ساعتیں مجید
میں ان کو دیکھتا تھا، کوئی دیکھتا نہ تھا
مجید امجد

ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گھٹی میں ہے وِلا کا وہ نشہ پڑا ہوا
ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا
صدیوں سے چاکرِ درِ حیدرؑ ہوں دیکھ لو
گردن میں میری طوق ہے اُن کا پڑا ہوا
اور یہ بھی دیکھ لو اسی نسبت کے فیض سے
پیروں پہ ہے مرے سگِ دُنیا پڑا ہوا
سورج کے بعد ماہِ منوّر ہوا طلوُع
تھا بزمِ چار سوُ میں اندھیرا پڑا ہوا
باطل تمام حق سے الگ ہو کے جا گرا
کیا دستِ ذوالفقار تھا سچا پڑا ہوا
اُن کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز
کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا
اپنے لہو میں مست ہیں تشنہ لبانِ عشق
صحرا میں چھوڑ آئے ہیں دریا پڑا ہوا
بخشش سو بے حساب، نوازش سو بے حساب
ہے مدح گو کو مدح کا چسکا پڑا ہوا
عرفان صدیقی

بدن کسی کا بھی ہو وصل جاودانہ ترا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 12
تمام تاب و تبِ عاشقی بہانہ ترا
بدن کسی کا بھی ہو وصل جاودانہ ترا
ترے سوا کوئی کیسے دکھائی دے مجھ کو
کہ میری آنکھوں پہ ہے دست غائبانہ ترا
جو رنگ خواب میں دیکھے نہیں وہ سامنے تھے
کھلا ہوا تھا نظر پر نگارخانہ ترا
وہ میرے ہاتھوں میں آئے ہوئے زمین و زماں
وہ میری خاک پہ بکھرا ہوا خزانہ ترا
میں ایک موج میں غرقاب ہوچکا تھا مگر
چھلک رہا تھا ابھی ساغرِ شبانہ ترا
میں بجھتا جاتا تھالیکن کنارِ جوئے وصال
جھمک رہا تھا ابھی گوہرِ یگانہ ترا
میں تجھ سے بچ کے بھی کیا دوسروں کے کام آیا
تو اب ملے گا تو بن جاؤں گا نشانہ ترا
بس ایک جست میں ہوتی ہے طے مسافتِ ہجر
سمندِ طبع کو کافی ہے تازیانہ ترا
عرفان صدیقی