ٹیگ کے محفوظات: خبردار

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

ہوکر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شبِ وجود کو مہرِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی
تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزمِ گماں کے، سو اب کہاں
یہ مجلسِ یقیں ہے، عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازارِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہو کے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ
عرفان ستار

اِنساں تھے ، سرِ کوہ کے اشجار نہیں تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
ٹھہرے جو بھسم ، مِلکِ ستم گار نہیں تھے
اِنساں تھے ، سرِ کوہ کے اشجار نہیں تھے
اب کے بھی پرندے وُہی ، ژالوں میں سڑے ہیں
جو ابر کی خصلت سے خبردار نہیں تھے
الزام محافظ پہ بھی تھا کچھ تو ، نقب کا
افراد اگر شہر کے بیدار نہیں تھے
رکھتے تھے مہک پاس جو ماجد کے ہنر کی
جھونکے تھے ، کچھ اُس کے وہ طرفدار نہیں تھے
ماجد صدیقی

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 52
ہوکر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شبِ وجود کو مہرِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی
تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزمِ گماں کے، سو اب کہاں
یہ مجلسِ یقیں ہے، عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازارِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہو کے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ
عرفان ستار

تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 26
تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا
تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو
اور میں جان سے بیزار یہ کیا
پاؤں‌ پر اُنکے گِرا میں‌ تو کہا
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں
سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا
کیوں مرے قتل سے انکار یہ کیوں
اسقدر ہے تمہیں دشوار یہ کیا
سر اُڑاتے ہیں وہ تلواروں سے
کوئی کہتا نہیں سرکار یہ کیا
ہاتھ آتی ہے متاعِ الفت
ہاتھ ملتے ہیں خریدار یہ کیا
خوبیاں کل تو بیاں ہوتی تھیں
آج ہے شکوۂ اغیار یہ کیا
وحشتِ دل کے سوا اُلفت میں
اور ہیں سینکڑوں آزار یہ کیا
ضعف رخصت نہیں دیتا افسوس
سامنے ہے درِ دلدار یہ کیا
باتیں سنیے تو پھڑک جائیے گا
گرم ہیں‌ داغ کے اشعار یہ کیا
داغ دہلوی

بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم

دیوان ششم غزل 1839
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم
بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم
بہلانے کو دل باغ میں آئے تھے سو بلبل
چلانے لگی ایسے کہ بیزار ہوئے ہم
جلتے ہیں کھڑے دھوپ میں جب جاتے ہیں اودھر
عاشق نہ ہوئے اس کے گنہگار ہوئے ہم
اک عمر دعا کرتے رہے یار کو دن رات
دشنام کے اب اس کے سزاوار ہوئے ہم
ہم دام بہت وحشی طبیعت تھے اٹھے سب
تھی چوٹ جو دل پر سو گرفتار ہوئے ہم
چیتے ہوئے لوگوں کی بھلی یا بری گذری
افسوس بہت دیر خبردار ہوئے ہم
کیا کیا متمول گئے بک دیکھتے جس پر
بیعانگی میں اس کے خریدار ہوئے ہم
کچھ پاس نہیں یاری کا ان خوش پسروں کو
اس دشمن جانہا سے عبث یار ہوئے ہم
گھٹ گھٹ کے جہاں میں رہے جب میر سے مرتے
تب یاں کے کچھ اک واقف اسرار ہوئے ہم
میر تقی میر

اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا

دیوان ششم غزل 1805
جس ستم دیدہ کو اس عشق کا آزار ہوا
اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا
روز بازار میں عالم کے عجب شے ہے حسن
بک گیا آپ ہی جو اس کا خریدار ہوا
دھوپ میں آگے کھڑا اس کے جلا کرتا ہوں
چاہ کر اس کے تئیں میں تو گنہگار ہوا
ہوش کچھ جن کے سروں میں تھا شتابی چیتے
حیف صد حیف کہ میں دیر خبردار ہوا
ہو بخود تو کسو کو ڈھونڈ نکالے کوئی
وہی خود گم ہوا جو اس کا طلبگار ہوا
مرغ دل کی ہے رہائی سے مرا دل اب جمع
پرشکن بالوں میں وہ اس کے گرفتار ہوا
پیار کی دیکھی جو چتون کسو کی میں جانا
کہ یہ اب سادہ و پرکار مرا یار ہوا
تکیہ اس پر جو کیا تھا سو گرا بستر پر
یعنی میں شوق کے افراط سے بیمار ہوا
کیونکے سب عمر صعوبت میں کٹی تیری میر
اپنا جینا تو کوئی دن ہمیں دشوار ہوا
میر تقی میر

اندوہ و درد عشق نے بیمار کردیا

دیوان ششم غزل 1786
بے طاقتی نے دل کی گرفتار کردیا
اندوہ و درد عشق نے بیمار کردیا
دروازے پر کھڑا ہوں کئی دن سے یار کے
حیرت نے حسن کی مجھے دیوار کردیا
سائے کو اس کے دیکھ کے وحشت بلا ہوئی
دیوانہ مجھ کو جیسے پریدار کردیا
نسبت ہوئی گناہوں کی از بس مری طرف
بے جرم ان نے مجھ کو گنہگار کردیا
دن رات اس کو ڈھونڈے ہے دل شوق نے مجھے
نایاب کس گہر کا طلبگار کردیا
دور اس سے زار زار جو روتا رہا ہوں میں
لوگوں کو میری زاری نے بیزار کردیا
خوبی سے بخت بد کی اسے عشق سے مرے
یاروں نے رفتہ رفتہ خبردار کردیا
جس کے لگائی جی میں نہ اس کے ہوس رہی
یعنی کہ ایک وار ہی میں پار کردیا
پہلو میں دل نے لوٹ کے آتش سے شوق کی
پایان کار آنکھوں کو خونبار کردیا
کیا جانوں عشق جان سے کیا چاہتا ہے میر
خوں ریزی کا مجھے تو سزاوار کردیا
میر تقی میر

عاشق کہاں ہوئے کہ گنہگار ہم ہوئے

دیوان سوم غزل 1271
شائستۂ غم و ستم یار ہم ہوئے
عاشق کہاں ہوئے کہ گنہگار ہم ہوئے
کی عرض جو متاع امانت ازل کے بیچ
سب اور لے سکے نہ خریدار ہم ہوئے
جی کھنچ گیا اسیرقفس کی فغاں کی اور
تھی چوٹ اپنے دل کو گرفتار ہم ہوئے
پامال یوں کیا کہ برابر ہیں خاک کے
کیا ظلم ہو گیا جو طلبگار ہم ہوئے
ہوتا نہیں ہے بے خبری کا مآل خوب
افسوس ہے کہ دیر خبردار ہم ہوئے
وصل اس طبیب زادے کا جی چاہتا رہا
آخر اس آرزو ہی میں بیمار ہم ہوئے
پھل ہے یہ میر عشق کا اس نوبہار کے
آخر جو کشت و خوں کے سزاوار ہم ہوئے
میر تقی میر

ہم نے کردی ہے خبر تم کو خبردار رہو

دیوان سوم غزل 1223
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
ہم نے کردی ہے خبر تم کو خبردار رہو
آپ تو ایسے بنے اب کہ جلے جی سب کا
ہم کو کہتے ہیں کہ تم جی کے تئیں مار رہو
لاگ اگر دل کو نہیں لطف نہیں جینے کا
الجھے سلجھے کسو کاکل کے گرفتار رہو
گرچہ وہ گوہرتر ہاتھ نہیں لگتا لیک
دم میں دم جب تئیں ہے اس کے طلبگار رہو
سارے بازار جہاں کا ہے یہی مول اے میر
جان کو بیچ کے بھی دل کے خریدار رہو
میر تقی میر

سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں

دیوان سوم غزل 1194
تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں
جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں
اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں
کب ناز سے شمشیر ستم ان نے نہ کھینچی
کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں
بازار وفا میں سرسودا تھا سبھوں کو
پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں
ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں
کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں
تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں
اس نرگس مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
افراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں
رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میر
اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں
میر تقی میر

ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم

دیوان سوم غزل 1170
میر آج وہ بدمست ہے ہشیار رہو تم
ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم
جی جائے کسی کا کہ رہے تم کو قسم ہے
مقدور تلک درپئے آزار رہو تم
وہ محو جمال اپنی ہی پروا نہیں اس کو
خواہاں رہو تم اب کہ طلب گار رہو تم
اس معنی کے ادراک سے حیرت ہی ہے حاصل
آئینہ نمط صورت دیوار رہو تم
یک بار ہوا دل کی تسلی کا وہ باعث
یہ کیا کہ اسی طور پہ ہر بار رہو تم
ہو لطف اسی کا تو کوئی کام کو پہنچے
تسبیح گلے ڈال کے زنار رہو تم
کیا میر بری چال سے جینے کی چلے ہے
بہتر ہے کہ اپنے تئیں اب مار رہو تم
میر تقی میر

ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے

دیوان اول غزل 517
خوش سر انجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے
بے قراری سے دل زار کی آزار ہوئے
خواہش اس حد کو کھنچی آہ کہ بیمار ہوئے
جنس دل دونوں جہاں جس کی بہا تھی اس کا
یک نگہ مول ہوا تم نہ خریدار ہوئے
عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتی منزل قدس
وے بھی رسواے سر کوچہ و بازار ہوئے
سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے
اس ستمگار کے کوچے کے ہواداروں میں
نام فردوس کا ہم لے کے گنہگار ہوئے
وعدۂ حشر تو موہوم نہ سمجھے ہم آہ
کس توقع پہ ترے طالب دیدار ہوئے
سستی بخت تو ٹک دیکھ کہ اس چاہت پر
معتمد غیر ہوئے ہم نہ وفادار ہوئے
میر صاحب سے خدا جانے ہوئی کیا تقصیر
جس سے اس ظلم نمایاں کے سزاوار ہوئے
میر تقی میر

ملتجی ناچار ہوا چاہیے

دیوان اول غزل 497
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
ملتجی ناچار ہوا چاہیے
جس کے تئیں ڈھونڈوں ہوں وہ سب میں ہے
کس کا طلبگار ہوا چاہیے
تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو
اس لیے بیمار ہوا چاہیے
زلف کسو کی ہو کہ ہو خال و خط
دل کو گرفتار ہوا چاہیے
تیغ بلند اس کی ہوئی بوالہوس
مرنے کو تیار ہوا چاہیے
مصطبۂ بے خودی ہے یہ جہاں
جلد خبردار ہوا چاہیے
مول ہے بازار کا ہستی کے یہ
دل کے خریدار ہوا چاہیے
کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی
سایۂ دیوار ہوا چاہیے
کر نہ تعلق کہ یہ منزل نہیں
آہ سبک بار ہوا چاہیے
گو سفری اب نہیں ظاہر میں میر
عاقبت کار ہوا چاہیے
میر تقی میر

دل زینہار دیکھ خبردار بہت ہیں

دیوان اول غزل 338
کچھ انکھڑیاں ہی اس کی نہیں اک بلا کہ بس
دل زینہار دیکھ خبردار بہت ہیں
بیگانہ خو رقیب سے وسواس کچھ نہ کر
فرماوے ٹک زباں سے تو پھر یار بہت ہیں
کوئی تو زمزمہ کرے میرا سا دل خراش
یوں تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں
میر تقی میر

لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل

دیوان اول غزل 270
مندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
اس مہلت دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلبگار آج کل
ملنے کی رات داخل ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل
گلزار ہورہے ہے مرے دم سے کوے یار
اک رنگ پر ہے دیدئہ خوں بار آج کل
تاشام اپنا کام کھنچے کیونکے دیکھیے
پڑتی نہیں ہے جی کو جفا کار آج کل
کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانۂ خمار آج کل
ٹھوکر دلوں کو لگنے لگی ہے خرام میں
لاوے گی اک بلا تری رفتار آج کل
ایسا ہی مغبچوں میں جو آنا ہے شیخ جی
تو جارہے ہیں جبہ و دستار آج کل
حیران میں ہی حال کی تدبیر میں نہیں
ہر اک کو شہر میں ہے یہ آزار آج کل
اچھا نہیں ہے میر کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل
میر تقی میر

عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا

دیوان اول غزل 121
آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا
عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
آنکھیں چرائیو نہ ٹک ابر بہار سے
میری طرف بھی دیدئہ خونبار دیکھنا
اے ہم سفر نہ آبلے کو پہنچے چشم تر
لاگا ہے میرے پائوں میں آ خار دیکھنا
ہونا نہ چار چشم دل اس ظلم پیشہ سے
ہشیار زینہار خبردار دیکھنا
صیاد دل ہے داغ جدائی سے رشک باغ
تجھ کو بھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا
گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر
اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا
بلبل ہمارے گل پہ نہ گستاخ کر نظر
ہوجائے گا گلے کا کہیں ہار دیکھنا
شاید ہماری خاک سے کچھ ہو بھی اے نسیم
غربال کرکے کوچۂ دلدار دیکھنا
اس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میر
جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا
میر تقی میر

میں اس کے خواب میں بیدار رہنا چاہتا ہوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 144
عجیب نشّہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں
میں اس کے خواب میں بیدار رہنا چاہتا ہوں
یہ موجِ تازہ مری تشنگی کا وہم سہی
میں اس سراب میں سرشار رہنا چاہتا ہوں
سیاہ چشم‘ مری وحشتوں پہ طنز نہ کر
میں قاتلوں سے خبردار رہنا چاہتا ہوں
یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم
ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں
ادھر بھی آئے گی شاید وہ شاہ بانوئے شہر
یہ سوچ کر سرِ بازار رہنا چاہتا ہوں
ہوا گلاب کو چھوکر گذرتی رہتی ہے
سو میں بھی اتنا گنہگار رہنا چاہتا ہوں
عرفان صدیقی