ٹیگ کے محفوظات: خاروں

مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں

سرو و سمن کی شوخ قطاروں کے سائے میں
مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں
چھوٹی سی اک خلوص کی دنیا بسائیں گے
آبادیوں سے دور چناروں کے سائے میں
تاریکیوں میں اور سیاہی نہ گھولیے
زلفیں بکھیریے نہ ستاروں کے سائے میں
جانے بھنور سے کھیلنے والے کہاں گئے
کشتی تو آ گئی ہے کناروں کے سائے میں
مانوس ہو گئی ہے خزاں سے مری بہار
اب لُطف کیا ملے گا بہاروں کے سائے میں
بلبل کی زندگی تو بہر حال کٹ گئی
پھولوں کی گود میں ، کبھی خاروں کے سائے میں
انگڑائی لی جنوں نے، خرد سو گئی، شکیبؔ
نغمات کی لطیف پھواروں کے سائے میں
شکیب جلالی

رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 65
بیٹھیے شوق سے دشمن کی طرف داروں میں
رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں
آنکھ نرگس سے لڑاتے ہو جو گلزاروں میں
کیوں لیئے پھرتے ہو بیمار کو بیماروں میں
عشق نے قدر کی نظروں سے نہ جب تک دیکھا
حسن بکتا ہی پھرا مصر کے بازاروں میں
دل کی ہمت ہے جو ہے جنبشِ ابرو پہ نثار
ورنہ کون آتا ہے چلتی ہوئی تلواروں میں
جو پر رحمتِ معبود جو دیکھی سرِ حشر
آملے حضرتِ واعظ بھی گنہ گاروں میں
جب وہ آتے ہیں تو مدھم سے پڑ جاتے ہیں چراغ
چاند سی روشنی ہو جاتی ہے کم تاروں میں
وہ بھی کیا دن تھے کہ قسمت کا ستارہ تھا بلند
اے قمر رات گزر جاتی تھی مہ پاروں میں
قمر جلالوی

قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر

دیوان پنجم غزل 1616
سنا تم نے جو گذرا سانحہ ہجراں میں یاروں پر
قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر
کیا ہے عشق عالم کش نے کیا ستھراؤ لوگوں کا
نکل چل شہر سے باہر نظر کر ٹک مزاروں پر
تڑپ کر گرم ٹک جوں برق ٹھنڈے ہوتے جاتے ہیں
بسان ابر رحمت رو بہت ہم بے قراروں پر
بڑی دولت ہے درویشی جو ہمرہ ہو قناعت کے
کہ عرصہ تنگ ہے حرص و ہوا سے تاجداروں پر
سیاحت خوب مجھ کو یاد ہے پر کی بھی وحشت کی
پر اپنا پاؤں پھیلے دشت کے سر تیز خاروں پر
گئے فرہاد و مجنوں ہو کوئی تو بات بھی پوچھیں
یکایک کیا بلا آئی ہمارے غم گساروں پر
گئی اس ناتوان عشق کے آگے سے پیری ٹل
سبک روحی مری اے میر بھاری ہے ہزاروں پر
میر تقی میر

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

دیوان اول غزل 190
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھائو
میر بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
میر تقی میر

ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

دیوان اول غزل 40
سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا
ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا
ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا
عرق فشانی سے اس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا بھی تاروں کا
علاج کرتے ہیں سوداے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں کا
تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھا دیں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہکاروں کا
خراش سینۂ عاشق بھی دل کو لگ جائے
عجب طرح کا ہے فرقہ یہ دل فگاروں کا
نگاہ مست کے مارے تری خراب ہیں شوخ
نہ ٹھور ہے نہ ٹھکانا ہے ہوشیاروں کا
کریں ہیں دعوی خوش چشمی آہوان دشت
ٹک ایک دیکھنے چل ملک ان گنواروں کا
تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا
تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا
تمھیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہگاروں کا
اٹھے ہے گرد کی جا نالہ گور سے اس کی
غبار میر بھی عاشق ہے نے سواروں کا
میر تقی میر

میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 50
ترے جہاں کے نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا
میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا
کچھ اس قدر تھا نمایاں خزاں میں رنگ حیات
میں تشنہ کام بہاروں کا ساتھ دے نہ سکا
کہاں تمہاری تمنا، کہاں سحر کی نمود
مریض ہجر ستاروں کا ساتھ دے نہ سکا
نظر نہ تھی تو نظاروں کی آرزو تھی، مگر
نظر ملی تو نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا
گلوں کا رنگ تبسم بھی تھا گراں باقیؔ
یہی نہیں کہ میں خاروں کا ساتھ دے نہ سکا
باقی صدیقی